عبادالرحمن

عبادالرحمن کے جس خوب صورت خاکے پر اس نے اظفر کو جس چاہ اور یقین سے فٹ کیا تھا اب اس میں ایک دراڑ آگئی تھی۔ اظفر نے اپنے تئیں جھوٹی سچی باتیں بنا کر روشنی کو خاموش تو کروا دیا تھا،لیکن وہ بہرحال مطمئن نہیں کر سکا تھا۔

روشنی کو اب محبت کے علاوہ بھی بہت کچھ دکھنا شروع ہوگیا تھا اور ان میں سے ایک تھا اظفر کا اصل چہرہ، کیوں کہ اب بات ان چند ملاقاتوں کی نہیں تھی جن میں اظفر و روشنی محض پیار و محبت کی باتیں کرتے اور مزید نئے خواب آنکھوں میں سجا کر دوسری ملاقات کی امید لیے رخصت ہوجاتے بلکہ یہ پریکٹیکل لائف کا آغاز تھا جس میں ہر روز ایک نئی حقیقت وا ہوتی ہے اور ہر دن ایک نیا تجربہ ہوتا ہے۔ روشنی ان حقائق اور تجربات سے بری طرح بوکھلا گئی تھی۔

اب آئے روز ان کے جھگڑے ہوتے رہتے تھے ، جھوٹ پکڑے جانے کے بعد اظفر مزید شیر ہوگیا تھا۔ پہلے وہ روشنی کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ہی صبح سے شام تک گھر سے باہر رہتا تھا لیکن سچائی معلوم ہوجانے کے بعد اس نے زیادہ تر گھر میں ہی رہنا شروع کر دیا تھا اور جو روشنی کو رہی سہی امید تھی کہ اس واقعے کے بعد اظفر سنبھل جائے گا اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے گا، وہ بھی ختم ہوگئی۔ وہ سخت مایوس ہوئی تھی۔

یہ طارق باجوہ کون ہےاظفر رات گئے گھر لوٹا تو روشنی نے دریافت کیا۔

اظفر کے جوتے اتارتے ہاتھ چند لمحوں کے لیے ساکت ہوئے اور پھر اس نے سر جھٹک کرکہا۔

کون طارق باجوہ؟

وہ ہی جس سے تم نے ڈھیر ساری الیکٹرک اپلائنس ادھار لے رکھی ہیں۔روشنی نے اس کے سر پر کھڑے ہو کر کہا۔

کیا اول فول بک رہی ہو تم؟اس نے دانت چبائے۔

اظفر!“ روشنی نے بھی جواباً دانتوں کو بھینچا تھا۔

کیا؟اس بار اس نے سر اٹھا کر غصے سے کہا۔

روشنی اُس کا چہرہ دیکھنے لگی، وہ چاہے جھوٹ چھپانے کا ہنر جانتا ہو لیکن اُس کا چہرہ یہ ہنر نہیں سیکھ پایا تھا۔ جھوٹ پکڑے جانے پر اس کے چہرے کی رنگت فق ہوجایا کرتی تھی۔

تم جھوٹ بولنا بند کردو اب بس بہت ہوگیا ہے۔روشنی نے تلملا کر کہا۔

مجھے بھوک لگ رہی ہے کھانا لا۔اس نے بات بدلی۔

کھانا؟ تم نے پکانے کے لیے کچھ لا کر دیا ہوتا تو پکتا نا؟روشنی نے طنز کیا۔

یہ بات تم پہلے بتاتیں اب عین وقت پر کیوں بول رہی ہو؟اظفر نے غصہ کیا۔

اس لیے تاکہ تمہیں احساس ہو کہ گھر چلانے کے لیے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے ۔روشنی نے پھر طنز کیا۔

تم تو اس طرح کہہ رہی ہو جیسے چار ماہ سے تمہیں بھوکا ہی مارتا آیا ہوں۔اظفر نے کہا۔

اظفر علی ملک صاحب! بھوکا تو آپ واقعی مجھے مار چکے ہوتے اگر میرے ابو جی نہ ہوتے۔ تمہیں اندازہ ہے جو رقم تم مجھے دیتے ہو اس سے مہینہ چھوڑو دس دن بھی مشکل سے گزرتے ہیں۔ آج تک ہمیشہ میں ہی اس گھر کی ضروریات اپنے ان پیسوں سے پوری کرتی آئی ہوں جو ابو جی مجھے دیتے ہیں۔ چار بار میں اسلام آباد گئی ہوں، تم بتاتم نے کتنی بار میرے آنے جانے کا انتظام کیا ہے ؟روشنی نے آخری جملہ کہہ کر اس کی طرف دیکھا وہ لب بھینچے سامنے دیوار پہ لگی گھڑی کو دیکھ رہا تھا۔

ایک بار بھی نہیں۔ بجلی کے بل، گیس کے بل، سب کے پیسے میں تمہیں یہ کہہ کر دے دیتی ہوں کہ یہ تمہاری دی ہوئی رقم سے بچ گے ہیں جب کہ اس میں سے بچنا تو درکنار، پورا ہونا بھی مشکل ہوتا ہے۔روشنی ایک کے بعد ایک حقیقت اس پر عیاں کر رہی تھی۔

اگر تم اس گھر کے لیے کچھ کر رہی ہو تو جتا کیوں رہی ہو؟ یہ تمہارا بھی گھر ہے صرف میرا نہیں، گھر عورت اورمرد دونوں سے بنتا ہے۔اظفر نے اسے دیکھا ۔

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!