عبادالرحمن

روشنی پلیز سمجھو ! میرا بال بال قرضے میں ڈوبا ہوا ہے، کوئی ذریعہ نہیں کہ کہیں سے پیسے آئیں اور میں ان لوگوں سے اپنی جان چھڑں۔وہ گڑگڑا کر بولا۔

کہیں سے پیسے آئیں؟ اظفر کہیں سے پیسے کیوں آئیں گے؟ تم کماو¿گے تو پیسے آئیں گے، تمہیں خدا کا واسطہ ہے کہیں بھی نوکری کرلو۔روشنی نے اس کے آگے ہاتھ جوڑ دیے۔

مجھے لیکچر نہیں پیسوں کی ضرورت ہے ۔ تم بس وہ دے دو مجھے۔اس کی ایک ہی رٹ تھی۔

میرے پاس نہیں ہیں۔اس کا بھی ایک ہی جواب تھا۔

روشنی!“ اس نے دانت کچکچائے اور دیوار پر زور دار ٹھوکر مارتا ہوا کچن سے باہر نکل گیا۔ تھوڑی دیر بعد بیرونی دروازے کی کھلنے اور بند ہونے کی آواز آئی تھی۔

اس نے چولہا بند کر دیا۔ وہ جانتی تھی اب اظفر رات گئے ہی لوٹے گا۔

اس کی آنکھ شور شرابے سے کھل گئی، کوئی چیخ رہا تھا۔ حواس بحال ہوئے تو اسے اندازہ ہوا کوئی ایک نہیں بلکہ دو تین لوگ زور زور سے بول رہے تھے۔ وہ اٹھ بیٹھی۔ گھڑی پر نگاہ دوڑائی تو رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ اسے حیرت ہوئی کہ اظفر ابھی تک گھر نہیں آیا تھا۔

وہ بیڈ پر اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس کے سر میں درد کی ایک لہر سی اٹھی تھی۔ اُس کا پورا جسم درد سے ٹوٹ رہاتھا۔ موسم کی تبدیلی تھی شاید،اس نے سر جھٹک دیا۔

آوازوں کی تیزی بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ ایک جھٹکے سے بیڈ سے اتر آئی اور صحن سے ہوتی ہوئی بیرونی دروازے کے قریب آگئی۔ اس کا اندازہ درست تھا، ان تین چار لوگوں میں سے ایک آواز اظفر کی بھی تھی۔

وہ لوگ اس سے قرض لوٹانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس کا وجود سرد پڑنے لگا۔ اب یہ نوبت آگئی تھی کہ لوگ اس کے دروازے پر آکر پیسوں کا مطالبہ کریں گے۔ اپنے ابو جی کے گھر تو وہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ کوئی شخص ان کے دروازے پر کھڑے ہو کر اونچی آواز میں بات کرتا۔

اسے ابو جی شدت سے یاد آئے۔ اس کا دل چاہا وہ سامنے ہوں اور وہ ان کی گود میں سر رکھ کر بہت روئے اور روتی روتی سوجائے۔ اس کی ہر ضد کو پورا کرنے والے باپ نے اظفر سے شادی کی ضد کو بھی ایسا ہی پورا کیا تھا۔

وہ ابو جی سے کبھی بھی شیئر نہیں کر سکتی تھی کہ وہ کتنی دکھی ہے کیوں کہ وہ ان کی آنکھوں میں وہ پچھتاوا نہیں دیکھ سکتی تھی جس کرب میں وہ اب اپنی زندگی گزار رہی تھی۔

ابو جی جب بھی پوچھتے کہ تم خوش ہو نہ؟ تو وہ فوراً کہتی کہ ہاں میں بہت خوش ہوں اور بات کا رخ بدل دیتی تھی۔

اس نے دروازے کی جھری سے جھانکا ۔ کچھ ہٹے کٹے مرد اظفر کے ساتھ کھڑے تھے۔ اظفر لمبا ہونے کے باوجود ان کے آگے چھوٹا لگ رہا تھا۔ اسے جھرجھری سی آگئی۔

آس پاس گلی کے کچھ اورلوگ بھی جمع ہوگئے تھے۔ وہ شدید اضطراب میں تھی۔

جتنے زیادہ تماشائی اتنا بڑا تماشا۔

اسے اظفر پر بہت غصہ آرہا تھا۔ وہ لوگ اُسی لہجے میں اس سے بات کر رہے تھے۔ اِسی اثنا میں ایک آدمی نے آگے بڑھ کراظفر کا گریبان پکڑ کر اسے دھمکیاں دینی شروع کر دی تھیں۔ گریبان پر اس شخص کی گرفت مضبوط تھی۔ روشنی کو تشویش ہوئی کہ کہیں اظفر کو کچھ ہو نہ جائے۔

اظفر نے اس سے گریبان چھڑوانے کی کوشش کی تو اس نے گریبان چھوڑنے کے بہ جائے دو تین گالیاں دے ڈالیں جس سے اظفر کا پارہ ہائی ہوگیا۔ اس نے آدمی کو دھکا دیا اور خود بھی مغلظات بکنے لگا۔ لوگوں کا ہجوم بڑھتا جا رہا تھا۔جھگڑا مزید بڑھ گیا اور اُس کا دل بند ہونے لگا۔

وہ پیچھے ہٹ گئی اور صحن کے بیچوں بیچ بیٹھ کر زار و قطار رونے لگی۔

اس کے ہاتھ سے سب کچھ چھوٹتا جا رہا ہے۔ وہ عجیب کشمکش میں تھی۔ اس کا سر درد سے پھٹ رہا تھا۔

اور جب ان سے جاہل مخاطب ہوتے ہیں، تو وہ سلام کہہ دیتے ہیں۔ جب ان سے ایسے لوگ جو کہ کم علم ہوں یا جاہل ہوں وہ مخاطب ہوتے ہیں اور ان سے الجھنا چاہتے ہیں تو عباد الرحمن ان سے الجھتے نہیںبلکہ سلامتی والی بات کہہ کر، اچھی بات کہہ کر ان سے بات کرتے ہیں۔ پھر بھی نا مانیں تو خاموشی سے ان سے علیحدہ ہوجاتے ہیں۔ ان ہی کی طرح سرکش بن کر گفت گو کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اور حقیقتاً یہ چیز انسان کی شخصیت کی پختگی کی بہت بڑی علامت ہے۔ بے کار کی بے جا بحث میں پڑنا ایک اچھے انسان کی نشانی ہوتی ہے نہ ہی اچھے مسلمان کی۔مولوی عبدالقدیر کی آواز اُس کے کانوں میں گونجنے لگی، ایک گھونسا سا اس کے دل پر پڑا تھا۔ اس کے رونے میں مزید روانی آگئی۔

وہ جانتی تھی اسے زیادہ تکلیف کس بات کی ہو رہی تھی۔ آنسو کس وجہ سے زیادہ زور پکڑ رہے تھے۔ کس سبب دل کا درد بڑھتا جا رہا تھا۔

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!