عبادالرحمن

روشنی تم اسلام آباد چلی جاو¿۔ایک صبح ناشتے کے دوران اظفر نے اس سے کہا تھا۔

روشنی نے چائے کا کپ لبوں سے لگا کر اسے ایک نظر دیکھا۔ لیکن خاموش رہی۔

اس کے آخری مہینے چل رہے تھے اور اس دوران اظفر اسے کیوں بھیجنا چاہتا ہے۔ وہ جانتی تھی۔

روشنی میں چاہ رہا تھا تم ابو کے پاس جا کر ایک دو ہفتہ رہو اور تھوڑا ریلکس ہوجا و¿۔ جب تک میں یہاں جاب تلاش کرلوں گا۔اظفر نے بہت نرم لہجے میں کہا۔

روشنی کا دل چاہا وہ قہقہہ لگا کر ہنسے۔ ان چند مہینوں میں اظفر چوتھی نوکری چھوڑ چکا تھا اور وجہ صرف ایک ہوتی، کسی نہ کسی سے جھگڑا۔

ٹرسٹ می!“ اس نے آگے بڑھ کر اس کا نرم و نازک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر تھپتھپایا۔

تم صحیح کہتی ہو، گھر کی گاڑی چلانا مرد کے ہی ذمے ہوتا ہے۔ مجھے اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے، تم جانتی ہو نہ میں اسلام آباد میں چار سال ہاسٹل میں رہا ہوں۔ ہمیشہ گھر والوں سے ہی جیب خرچ ملتا رہا ہے۔ بس کوئی ضرورت پڑی بالاکوٹ خط لکھ دیا کہ اتنے پیسے چاہئیں اور پیسے پہنچ جایا کرتے تھے۔ کبھی کمانے کی، پیسے بچا کر استعمال کرنے کی عادت نہیں رہی اور اب تو وہ میری شکل نہیں دیکھنا چاہتے پیسے کہاں سے….“ اس نے جملہ ادھورا چھوڑ کر اسے دیکھا۔

وہ ابھی بھی خاموش تھی۔

اب وہ اکثر خاموش ہی رہتی تھی یا پھر بولتے بولتے خاموش ہوجاتی تھی۔ اس نے پہلے کہیں پڑھا تھا اولاد عورت کے پاو¿ں کی بیڑیاں ہوتی ہیں۔ اسے اب اس جملے کا مطلب اچھی طرح سمجھ آگیا تھا، وہ بھی ان ہی بیڑیوں کی پابند ہوگئی تھی۔

اس رات کے فساد کے بعد سب کچھ بدل گیا تھا۔ وہ اس لیے چپ ہوگئی تھی کیوں کہ اس کی اولاد اس کی مجبوری بن گئی تھی۔ اظفر اس لیے چپ ہوگیا تھا کیوں کہ روشنی نے اس کی ضرورت پوری کردی تھی۔ اس نے اپنے سونے کا سیٹ اظفر کو بیچنے کے لیے دے دیا تھا تاکہ قرض خواہاں کے مطالبات بند ہوں اور وہ عزت سے اس گھر میں رہ سکیں۔ ان ہی پیسوں سے مکان کا پچھلے چھے ماہ کا کرایہ ادا کیا گیا اور بچ جانے والی رقم سے وہ اپنی دواں کا انتظام کرتی رہی جن کی اسے اس دوران ضرورت پڑی۔ زندگی کی گاڑی چل رہی تھی کیوں کہ اب اس گاڑی میں سفر کرنا اس کی مجبوری بن گئی تھی۔

وہ ابو جی سے کبھی کچھ نہیں مانگتی تھی۔ وہ جب بھی جاتی، وہ خود سے اسے ایک معقول رقم دے دیا کرتے تھے۔ جو وہ اس وقت استعمال میں لے آتی تھی جب اظفر کے ہاتھ خالی ہوتے تھے اور اس کے ہاتھ تو اکثر ہی خالی ہوتے تھے۔ ان کے رشتے کی طرح جو اب ہر جذبے سے خالی ہوگیا تھا۔

روشنی! دیکھو میں بھی چاہتا ہوں تمہیں اور اپنی اولاد کو اچھا لائف اسٹائل دوں۔ تمہیں کسی چیز کی تنگی نہ ہو، کوئی ذہنی پریشانی نہ ہو، تم خوش رہو لیکن اس کے لیے مجھے تھوڑا وقت چاہیے ہوگا۔اظفر کا لہجہ مزید نرم ہوگیا تھا۔

روشنی کو لگا اس کا پرانا اظفر اس کے سامنے بیٹھا ہے۔ اس کے چہرے پر شرمندگی کے آثار دیکھ کر اس کا دل پسیج گیا، لیکن وہ پھر بھی سر جھکائے بالکل چپ بیٹھی تھی۔

روشنی!“ اظفر نے تھوڑی سی گردن جھکا کر اس کی سیاہ آنکھوں میں سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔

ٹھیک ہے۔اس نے مختصر سا جواب دیا۔

شکر!یار تم پریشان نہیں ہو، میں اب سب ٹھیک کر دوں گا۔ تمہیں خوش دیکھنا میری اوّلین ترجیح ہے۔وہ ہلکا پھلکا سا ہوگیا تھا۔

ہمم! کب جانا ہے؟روشنی مسکرا بھی نہیں سکی۔

جب تمہارا دل چاہے، آج ہی چلی جاو¿ اگر جانا چاہو تو۔اس نے بہ ظاہر اس کی مرضی پر یہ فیصلہ چھوڑ دیا تھا۔

اچھا! تم آج ہی ٹکٹ کروا دو،میں طلعت باجی کے گھر سے ابو جی کو فون کر کے اطلاع دے دوں اپنے آنے کی ؟اس نے اجازت طلب کرنی چاہی۔

ہاں ضرور! تم آجاو¿ پھر پیکنگ کر لینا آکر۔اس نے گویا اجازت دے دی۔

وہ سر پر دوپٹا ڈال کر اپنی پڑوسن طلعت باجی کے آگئی۔ وہ یہاں سے اپنے گھر انتہائی ضرورت کے وقت ہی فون کیا کرتی تھی ورنہ افراز صاحب خود فون کر کے اس کی خیریت معلوم کر لیا کرتے تھے اور اس طرح ان سے روشنی کا رابطہ ہوجاتا ورنہ اس کے اپنے گھر میں فون جیسی کوئی سہولت نہ تھی۔

ابو جی کو بتا کر وہ واپس آئی اور پیکنگ کرنے لگی۔ گنتی کی چند چیزیں بیگ میں ڈال کر وہ جانے کے لیے تیار تھی۔ اظفر بھی تیار کھڑا تھا۔ آج اس کے انداز میں غیر معمولی تبدیلی تھی۔ وہ اس کے مزاج کو سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ آج اتنا مہربان کہ اسے خود گھر بھیج رہا ہے۔ وہ شش و پنج میں مبتلا رہی اور یہ وجہ اُسے اسٹیشن آکر سمجھ آگئی جب اظفر نے اُس کا لاہور کا ٹکٹ لینے کے ساتھ اپنے لیے بالاکوٹ کا ٹکٹ بھی خریدا۔

تم گاں جا رہے ہو؟روشنی نے پوچھا۔

ہاں! میں سوچ رہا ہوں گھر کا چکر لگا لوں۔ تمہارے بارے میں پھر بات کروں اُن سے، ایک دو دن میں واپس آکر پھر نوکری تلاش کروں گا۔اظفر نے جواب دیا۔

چلو آو¿! تمہیں پلیٹ فارم نمبر پانچ کی ٹرین میں بیٹھنا ہے۔اس نے موضوع بدلا۔

اپنا خیال رکھنا، اللہ حافظ۔اسے ڈبے میں بٹھا کر اظفر نے الوداعی کلمات ادا کیے۔

روشنی نے ٹرین کی کھڑکی سے جھانکا، اظفر اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اسے جھانکتا دیکھ کر وہ مسکرانے لگا، وہ بھی بے دلی سے مسکرائی۔

ٹرین نے رینگنا شروع کردیا تھا۔

پتا نہیں وہ کون سا دن ہوگا جب میں اور اظفر ایک ہی ساتھ ایک ٹرین میں بیٹھیں گے اور ہماری منزل ایک ہوگی، بالاکوٹ یا اسلام آباد۔ جب ہم میں سے کوئی کسی کو الوداع نہیں کہہ رہا ہوگا بلکہ ہم ایک ساتھ ہنسی خوشی جا رہے ہوں گے۔اس نے اپنی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے سوچا۔

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!