عبادالرحمن

جویریہ مجھے گھر میں کچھ کام ہے، پھر ملاقات ہوگی۔وہ وہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی ۔ اس لیے الٹا سیدھا بہانہ ہی بنا دیا۔

ہاں ضرور! تم اپنا خیال رکھنا۔جویریہ نے معاملہ فہمی سے کام لیتے ہوئے اسے رخصت کرنے میں ہی عافیت جانی۔ 

اللہ حافظ!“ وہ جلدی سے وہاں سے ہٹ گئی اور لمبے لمبے ڈگ بھرتی گھر آگئی ۔

یہ راستہ کاٹنا اس کے لیے مشکل ترین تھا۔ صرف پندرہ منٹ کا راستہ اس نے آدھے گھنٹے میں تہ کیا تھا۔ آنسواُس کا ہر منظر دھندلا دیتے تھے۔

عباد الرحمن کبھی بھی اپنے اوپر کسی جھوٹ کا گزر بھی گوارا نہیں کرتے۔مولوی عبدالقدیر کی آواز اُس کے کانوں کے پردے چیر رہی تھی، اس کا بھرم بیچ بازار میں ٹوٹا تھا۔

اظفر تو کبھی جھوٹ بولتا ہی نہیں۔کیسا یقین تھا جو اس کو تھا، کیسا بھرم تھا جو ٹوٹا تھا ۔

گھر آکر وہ بہت روئی اتنا کہ اسے یاد نہیں آرہا تھا وہ اتنا زیادہ اس سے پہلے کب روئی تھی۔

اگلے دن اسے لاہور واپس جانا تھا اور یہ پہلی بار تھا کہ اسے اظفر سے ملنے کی کوئی جلدی نہ تھی ۔

وہ واپس لاہور آگئی تھی۔ ابوجان نے کہا بھی ساتھ آنے کا لیکن اس نے انکار کر دیا تھا۔ اس نے خود ہی اخذ کر لیا تھا کہ اب ہر پریشانی کا سامنا وہ اکیلے ہی کر ے گی، ابوجان کو مزید پریشان کیے بغیر۔

چھے بجنے والے تھے۔ اظفر عموماً اس وقت تک گھر لوٹ آیا کرتا تھا لیکن وہ ابھی تک واپس نہیں آیا تھا۔ روشنی تھکن اور غم سے چور ہونے کے باوجود پورے گھر کے بے مقصد چکرلگاتی رہی ۔ ایک بار اظفر سے بات کر لیتی تو اسے سکون آجاتا۔ وہ دل کو تسلیاں دے رہی تھی کہ اسے کمپنی کا نام سننے میں واقعی غلط فہمی ہوئی ہوگی۔

گھڑی کی سوئیوں نے دس کا ہندسہ پار کیا ہی تھا کہ دروازے پر کھٹکے کے ساتھ ہی اظفر گھر میں داخل ہوا۔ شاید اسے اندازہ نہیں تھا کہ روشنی آ چکی ہوگی ، اسے دیکھ کر وہ گڑبڑاگیا ۔ پھر رسمی سے سوالات کرنے لگا جس کاروشنی ہوں ہاں میں جواب دیتی رہی۔ اس کے لیے نہایت دشوارتھا کہ وہ ڈائریکٹ اس سے یہ پوچھ لیتی کہ اس نے جھوٹ کیوں بولا ۔وہ بہت رف سے حلیے میں تھا جو آفس کے لیے بالکل غیر مناسب تھا۔ پھر بھی اس نے دریافت کیا ۔

تم آفس سے آ رہے ہو ؟

ہاں جناب اور کہاں سے آںگا اس وقت؟ آج کل لوڈ زیادہ ہے اس لیے یہی وقت ہوجاتا ہے اب۔اس نے بیڈ کران سے ٹیک لگاتے ہوے کہا۔

اظفر تمہاری کمپنی کا نام احمد ٹیکسٹائل ہے نا ؟اس نے ایک اورسوال کیا ۔

ہاں روشنی!“ اظفر نے اب آنکھیں موند لی تھیں، روشنی اس کے وجیہہ چہرے کو دیکھنے لگی۔ کوئی اور وقت ہوتا تو وہ خاموش ہوجاتی اور ایسے ہی گھنٹوں اس کے چہرے کو تکتی رہتی ۔ اس کی کشادہ پیشانی اور مڑی ہوئی پلکوں میں اسے اپنا دل سمٹتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ وہ پلکوں اور پیشانی میں الجھنے کے بہ جائے اس کے پیروں کے قریب بیٹھ گئی۔ ایک لمبی سانس کھینچی اور بہت سوچ وبچارکے اگلا جملہ کہا۔

وہ لاہور والی احمد ٹیکسٹائل جو ایک سال پہلے ہی سیل ہو چکی ہے ؟

اظفر نے ایک جھٹکے سے آنکھیں کھولیں اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ اس کے ردِعمل سے صاف ظاہر تھا کہ جیسے وہ پکڑا گیا ہے ۔ روشنی کے ہر خدشے کو یقین مل رہا تھا اور اس کے پچھتاوے مزید بڑھتے جا رہے تھے۔

ت….تت….تمہیں کس نے بتایا؟ میرا مطلب تمہیں کس نے کہا ؟وہ اس قدر گھبرا گیا تھا کہ اس کے الفاظ بھی اس کا ساتھ نہیں دے پا رہے تھے۔

اظفرتم….“ روشنی کا گلا رندھ گیا ۔

دیکھو روشنی، تمہیں کسی نے بالکل غلط کہا ہے۔اظفر تھوڑا سنبھلتے ہوئے بولا۔

بس کرو اظفر!تم نے جھوٹ کیوں بولا،کتنا مان تھا مجھے تم پر کہ تم کبھی مجھ سے غلط بیانی نہیں کر سکتے اور تم نے اتنا بڑا جھوٹ مجھ سے کہا ؟ میرے ابوجان کو جھوٹ کہا؟ تم…. تم….تم دھوکے باز ہو۔روشنی کا چہرہ آنسوں سے بھر گیا تھا اور اس کی گہری سیاہ آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔

تواورکیا کرتا ؟ تمہارے ابو نے بھی توضد باندھ لی تھی کہ جب تک نوکری نہیں ہوگی وہ ہماری شادی نہیں ہونے دیں گے۔اظفر بھی اب تھک گیا تھا جھوٹ کو سنبھالتے سنبھالتے اس لیے اس نے صاف گوئی سے کام لیا ۔

اگر وہ نوکری اور گھر کو لے کر مسلسل اصرار نہ کرتے رہتے تومیں کبھی جھوٹ کا سہارا نا لیتا۔اظفر نے سارا الزام اُس کے ابو جان کے سر لگا دیا تھا ۔

کچھ غلط اصرار تو نہیں کیا تھا میرے ابو نے؟ بس تم سے میری اچھی زندگی کی ضمانت ہی تو چاہی تھی اور وہ ہر باپ چاہتا ہے ۔ تم میرے لیے ایک جاب نہیں ڈھونڈ سکتے تھے؟ کم از کم جھوٹ کا سہارالے کر تو یہ شادی نہ کرتے ۔روشنی نے اس بار تھوڑا چیختے ہوئے کہا تھا ۔

آواز نیچی رکھو روشنی! چھوٹا سا جھوٹ بولا ہے اور تم ایسے ری ایکٹ کر رہی ہو جیسے پتا نہیں کیا کوئی طوفان آگیا ہو۔ سب بولتے ہیں جھوٹ، میں نے بھی بول دیا تو کیا ہوا؟اظفرکی برداشت کی حد ختم ہوگئی تھی۔ یہ پہلاموقع تھا کہ اس نے اظفر کو اپنے اوپر چلاتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس نے کسی بھی مرد کو اپنے اوپر پہلی بار چلاتے دیکھا تھا ۔ وہ صرف آنکھیں پھیلائے اسے دیکھے گئی، سیاہ گہری آنکھوں میں سرخی کے ساتھ حیرت بھی سمٹ آئی تھی۔ 

من جھوٹی گواہی تو درکنار جھوٹ کو اپنے قریب آنے تک نہیں دیتا اور یہ ہی عباد الرحمن کی بھی خوبی ہوتی ہے۔مولوی انکل کی آواز اس کے کانوں میں گونجی تھی۔

بس کردو مجھے گھورنا اور یہ رونا دھونا ۔وہ ایک جھٹکے سے بیڈ سے اٹھ گیا ۔

تمہیں ذرا ندامت نہیں ہے اپنے جھوٹ پر؟اس نے حیرت سے پوچھا ۔

اظفر تو مجھ سے کبھی جھوٹ بول ہی نہیں سکتا۔اسے درس میں سوچی گئی اپنی بات بھی یاد آگئی۔

میں سوچا کرتی تھی اظفر جھوٹ نہیں بول سکتا اور آج وہ جھوٹ بول کر بھی شرمندہ نہیں۔ میرا تو دعویٰ تھا اسے مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا اور میں تو اپنے ہی دعوے میں جھوٹی ثابت ہوگئی۔

ہاں مجھے کوئی ندامت نہیں ہے ، کم از کم تمہیں بھوکا نہیں مار رہا ہوں، کھلا پلاتو رہا ہوں نا۔اظفر نے کھڑے کھڑے کہا اور دروازے کی طرف بڑھ گیا ۔

کہاں سے کھلا رہے ہو تم مجھے؟روشنی نے اس کی پیٹھ کو گھورتے ہوئے سوال کیا ۔

یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے اور آئندہ مجھ سے یہ فضول بحث مت کرنا سمجھیں تم؟اس نے ذرا سا گردن موڑ کر دھمکی آمیز لہجے میں اسے تنبیہہ کی اور دروازے کو زور سے بند کرتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔

روشنی گھٹنوں میں سر رکھ کر رونے لگی۔

یہ پہلی بار تھا کہ ان کے درمیان جھگڑا ہوا تھا۔ بہت کچھ آج پہلی بار ہو رہا تھا۔ زندگی میں ہر چیز پہلی بار ہی ہوتی ہے اور پہلی بار ہی بہت محسوس ہوتی ہے۔ پھر آہستہ آہستہ یا اس کی عادت پڑ جاتی ہے یا فرق پڑنا بند ہوجاتا ہے۔ روشنی کو بھی آئندہ کچھ عرصے میں اظفر کے اس رویے کی عادت ہونے والی تھی لیکن اس چیز کا اسے اندازہ نہیں تھا ۔

آج اس گھر کے دونوں مکینوں میں سے کوئی نہیں سویا تھا ۔

ایک احساسِ جرم سے اور دوسرا پچھتاوے کے احساس سے ۔

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!