عبادالرحمن

وہ کافی دیر سے اپنی ماں کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھے بیٹھا تھا۔ اس کی ماں سرخ اون سے سویٹر بننے میں مصروف تھی۔ یہ بالاکوٹ کے نواحی گاو¿ں کی بڑی سی حویلی کا صحن تھا۔ بالاکوٹ کا موسم بہت سرد تھا اور صحن کے درمیان بیٹھے ان دو لوگوں کے درمیان کا ماحول اور بھی سرد۔ وہ کبھی سر اٹھاتا اپنی ماں کو دیکھتا پھر سرجھکا لیتا اور پھر کچھ لمحے بیت جانے کے بعد ماں سے کہتا۔

بے بے! مان جا ناں۔

اس کی ماں پتھر کی بے جان مورتی کی طرح ایک ہی تاثر کے ساتھ تخت پر بیٹھی صرف اون کے دھاگے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھی۔ اگر وہ زیادہ اصرار کرتا تو وہ بھی ایک ہی جواب دیتی۔

تو اپنی بیوی کو طلاق دے دے اور آجا واپس۔

بے بے! ایسا نہیں کر سکتا میں، میرا بچہ ہونے والا ہے۔وہ گڑگڑاتا۔

جس طرح تو اپنی شادی کا ذمہ دار ہے، اس طرح اپنی اولاد کا بھی۔ اب میرے آگے کیوں رو رہا ہے۔اس کی ماں سفاک نہیں تھی لیکن اس کے نزدیک اس کے بیٹے نے ایسا جرم کیا تھا کہ اسے سفاک بننا پڑ رہا تھا۔

ان کے خاندان میں قتل کا جرم تو معاف کیا جا سکتا تھا لیکن ذات برادری سے باہر شادی کا جرم ناقابلِ تلافی تھا اور تلافی کی بس ایک ہی صورت تھی، لڑکا لڑکی کی جدائی، ہمیشہ کی جدائی۔

تجھے کیا دکھا اس میں جو ہماری سائرہ میں نہیں تھا۔ کتنی سوہنی ہے سائرہ، گھر کے سارے کام کاج جانتی ہے۔ ہمارے خاندان کی ہے، تیرے بچپن کی دیکھی بھالی ہے، سگے چچا کی اولاد ہے۔ اس سے شادی کرتا تو آج یوں در در کی ٹھوکریں نا کھا رہا ہوتا۔اس کی ماں سرد لہجے میں بولی۔

شکل دیکھ کیا بنا لی ہے اپنی۔ ایسا چٹا تھا تو اور اب کوے کی طرح ہوگیا ہے۔ پڑھ لکھ کر یہاں آتا، باپ چچا کے ساتھ زمینیں سنبھالتا۔ حساب کتاب رکھتا تو آج دولت میں کھیل رہا ہوتا۔ اب مجھ سے کیا پیسے مانگ رہا ہے، تیرا باپ راضی نہیں ہوتا جب تک تو اس منحوس کو چھوڑ نہیں دے گا۔اس نے نخوت سے اس کی بیوی کے ذکر پر کہا۔

بے بے ایسا نا کہہ۔وہ تلملایا تھا۔

دیکھ اظفر! اگر تجھے اس کی ہی فکر ہے اس کے ہی ساتھ رہنا چاہتا ہے تو تُو ہم سے کوئی امید نہ رکھ۔ ہم سے کیا پیسے لینے آجاتا ہے؟ جا اپنی بیوی سے بول، وہ لائے گی اپنے ماں باپ سے پیسے، اس کو بول نا تجھ سے پیار کیا ہے تو نبھائے بھی۔

اس کے دولت کے خزانے تو نہیں لگے نہ جو وہ مجھے دے گی۔ ویسے بھی اس کے پاس ہوں وہ تب بھی نا دے۔آخری جملہ اظفر نے آہستہ سے کہا تھا ۔

ہونہہ! نی زلیخا کہاں رہ گئی سست ماری، کاڑا (قہوہ) لا چھیتی۔ اس کی ماں نے ملازمہ کو آواز لگائی۔

بے بے! تو کچھ پیسوں کا تو انتظام کر دے نا، میں قرضوں میں ڈوب چکا ہوں۔ جانتی ہے میں نے دو لاکھ کا قرضہ لے کر کاروبار کیا دوست کے ساتھ، وہ فراڈیا رقم لے کر فرار ہوگیا۔ اب ادھار والے میری جان کے دشمن بن گے ہیں۔ روشنی کو اس کے باپ کے گھر بھیج دیا، اُسے ہسپتال داخل کروانے تک پیسے نہیں ہیں میرے پاس۔ وہ اپنے باپ کے گھر میرا انتظار کرتی ہوگی۔وہ ایک بار پھر ماں کے گھٹنوں کو دبانے لگا تھا۔

ملازمہ قہوہ لے آئی تھی۔

لے پی!“ اس کی ماں نے بات ان سنی کر دی۔

بے بے! کچھ تو کر دے نا۔اس نے پیالی ہاتھ میں لے لی۔

بس کر دے اظفر! تجھے کہہ دیا نا میں کچھ نہیں کر سکتی۔ میرے پاس کوئی روپیہ نہیں۔ اگر تجھے اپنی جان بچانی ہے تو اس کو چھوڑ کر آجا یہاں، سائرہ سے شادی کر لے۔ تیرا چچا تو جہیز میں تجھے اتنی زمین لکھ دے گا کہ تو ساری عمر بھی بیٹھ کر کھائے تو کم نہ پڑے۔اس کی ماں نے اسے لالچ دیا۔

وہ سر جھکائے کسی سوچ میں گم ہوگیا۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!