عبادالرحمن

وہ، وہ….وہ میرا کلاس فیلو نہیں ہے۔مائدہ نے بہ مشکل کہا۔ اس کا پورا منہ پگھل گیا تھا، ناک کی جگہ دو سوراخ رہ گے تھے ۔ایک آنکھ ضائع ہوگئی تھی دوسری میں ابھی رمق باقی تھی جیسے کہ اس کے جسم میں ابھی زندگی کی رمق باقی تھی۔ بس رمق باقی تھی زندگی تو کب کی ختم ہو چکی تھی۔

اس کا نام سعد ہے۔اس نے کہا۔

وہ اکیلا نہیں،اس کے ساتھ ایک اور پنک کیپ والا….وہ….“ اس کی سانس اٹکنے لگی تھی۔ اس کے لیے بولنا بہت دشوار ہو رہا تھا ۔

اجالا ساتھ ہی تھی اس کمرے میں سوائے ایک پولیس والے کے، اجالا اور ایک جلے ہوئے وجود کے کوئی نہ تھا۔

وہ میڈیکل کی زبان میں تھرڈ ڈگری برن ہوئی تھی جس میں جلد کے ساتھ ساتھ اندر کا گوشت، ٹشوز یہاں تک کہ نسیں تک ایسڈ کی زد میں آکر تباہ ہوجاتی ہیں اور عام لوگوں کی زبان میں وہ ستر فیصد جل گئی تھی۔ اس کے جسم سے روح آہستہ آہستہ سرک رہی تھی۔ وہ ہوش میں بھی آگئی تھی، بات بھی کر رہی تھی، آکسیجن ماسک اور ڈرپس پر زندہ اس جھلسے ہوئے وجود کو انسان کہنا بھی تکلیف دہ لگتا تھا۔

اجالا اپنے پیشنٹ کو کبھی بھی اکیلے نہ چھوڑتی تھی۔ اس کا اصول تھا چاہے کچھ بھی ہوجائے۔

وہ پولیس والا مختلف سوال کرتا رہا۔ پھر کمرے سے باہر آگیا اور وہاں موجود مائدہ کی دوست یسریٰ سے پوچھ گچھ کی۔ وہ بھی اس حالت میں نہ تھی کچھ جواب دیتی۔ اجالا اس کے پاس کھڑی ہوگئی اسے حوصلہ دیا پھر اسے اپنے کمرے میں بیٹھنے کو کہا کہ وہ وہاں ریلیکس ہوجائے۔

مائدہ کی سانس کی نالی اور غذا کی بوتل وغیرہ چیک کر کے وہ اپنے روم میں آگئی۔

اب ٹھیک ہیں آپ؟اس نے اندر آکر یسریٰ سے پوچھا وہ تھوڑی بہتر لگی۔

جی ٹھیک ہوں۔

حوصلے سے کام لو۔ تم جب اپنی دوست سے بات کروگی، تو وہ اپنے سے زیادہ تمہارے حوصلے کو دیکھ کر جئے گی۔ وہ تمہاری آنکھوں میں اپنا عکس ڈھونڈے گی، تم اسے محسوس نہ ہونے دینا کہ وہ اب وہ نہیں رہی جو وہ تھی۔اجالا اسے سمجھانے لگی، یہ کسی ڈاکٹر کا کام نہ تھا، لیکن اجالا کو عادت تھی ہر کسی کا درد اپنے سینے میں محسوس کرنے کی۔ 

یسریٰ نے اپنا فون نکالا اور اس میں کچھ ڈھونڈنے لگی پھر۔ ایک چیز کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس نے سیل فون اجالا کی طرف بڑھایا۔

ایسی دکھتی تھی مائدہ کتنی خوب صورت تھی اور اب۔وہ پھر رونے لگی۔

فون میں دکھائی دینے والی تصویر کو دیکھ کر ایک لمحے کو اجالا کے بھی آنسو آگئے۔

موم کی پیاری سی گڑیا۔جو اب پگھل گئی ۔ اجالا کے ذہن میں آیا۔

آج صبح تک وہ ایک مکمل خوب صورت انسان تھی اور رات ہونے تک…. اس کا دل کٹ کر رہ گیا۔

ماما صحیح کہتی ہیں بعض اوقات کچھ لوگوں کے زندہ رہنے کے لیے یہی کافی ہوتا ہے کہ وہ بول رہے ہیں۔ بات کر رہے ہیں۔اس نے فون واپس اسے تھما دیا۔

میم مائدہ کے والد آگئے ہیں۔ایک جونیئر نے اندر آکر اطلاع دی۔ وہ ایک دم اٹھ کر باہر آگئی۔

مائدہ نے کلف لگی شلوار قمیص میں ملبوس ایک پچاس پچپن سالہ رعب دار آدمی کو اپنا منتظر پایا۔

کہاں ہے میری بیٹی؟ کہاں ہے؟وہ فورا ًآگے بڑھے۔

میرے ساتھ آئیے۔وہ اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ وہ آدمی کافی لمبا تھا۔ اس کے لیے اجالا کے پیچھے چلنا مشکل تھا، لیکن مجبوری بھی۔

آئی سی یو کے شیشے سے اپنی بیٹی کو پٹیوں نالیوں میں جکڑا دیکھ کر وہ کچھ دیر تک اسے دیکھتے رہے اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ وجہ پٹیاں یا نالیاں نہیں وجہ اس کا مسخ شدہ چہرہ تھا وہ اسے پہچان بھی نہیں پا رہے تھے اور جب پہچانے تو ٹوٹ کر بکھرے۔ ایسا ٹوٹا ہوا شخص اُجالا نے اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا۔

وہ رو رہے تھے اور اُجالا کے لیے انہیں سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا۔اسی اثنا میں ریان وہاں سے گزر رہا تھا ، اس نے انہیں اُٹھایا پر وہ قابو میں نہیں آرہے تھے۔

میری بچی ، میری بیٹی، سب میری غلطی ہے،سب۔وہ روتے جاتے اور کہتے جاتے۔

انکل آپ آئیں، اندر چلیں،ہمت کریں۔ریان نے انہیں کندھوں سے تھام لیا۔ ان کا اور ریان کا قد برابر ہی تھا۔

مجھے بہت دیر ہوگئی آنے میں۔ بہت دیر ہوگئی میں اپنے گاں گیا ہوا تھا۔وہ ریان کے ساتھ کھڑے ہوگئے، انہیں نہ جانے کیا کیا پچھتاوے تھے۔

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!