عبادالرحمن

وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کی زندگی میں ایسا کوئی دن نہیں آئے گا نہ ہی ایسی کوئی ٹرین آئے گی۔

اس نے ایک بار پھر اظفر پر اعتبار کر لیا تھا، نہ چاہتے ہوئے بھی۔

اور غلط کیا تھا۔

السلام علیکم!“

وعلیکم السلام!“

طلعت باجی! میں روشنی بول رہی ہوں۔

ارے روشنی !کیسی ہو؟ ابھی تک واپس نہیں آئیں؟

وہ بس یہاں ابو جی نے روک لیا تھا۔

اچھا! چلو اچھا ہے، پہلی بار ہے تو اپنے میکے میں ہی فارغ ہو کر آنا۔ میں تو تمہارا انتظار کر رہی تھی لیکن چلو خیر۔روشنی کو ان کے خلوص پر کوئی شک نہیں تھا۔

جی! وہ آپ سے پوچھنا تھا اظفر ہیں کیا؟ گھر پر نبیل سے معلوم کروا لیں؟اس نے جھجکتے ہوئے کہا۔

اظفر!“ دوسری طرف کچھ دیر کی خاموشی چھا گئی۔

اظفر بھائی اسلام آباد سے واپس آگئے کیا؟

آں! نہیںباجی وہ میرے ساتھ یہاں نہیں آئے۔ وہ تو اپنے گاو¿ں چلے گئے تھے۔وہ مزید جھجک گئی۔

لیکن تم جب سے گئی ہو، تب سے تالا ہی پڑا ہے دروازے پر میں سمجھی وہ تمہارے ساتھ ہی ہے۔طلعت باجی نے وہی بات دہرائی۔

نہیں! وہ دراصل اظفر سے بات ہوئی ہے، وہ پہنچتے ہوں گے وہاں۔اس نے جھوٹ بولا۔ اب تو اکثر ہی اظفر کی وجہ سے جھوٹ بول دیا کرتی تھی جب کہ اس کی اظفر سے یہاں آنے کے بعد پہلے ہفتے میں ہی دو تین بار بات ہوئی تھی وہ بھی اظفر نے خود فون کیا تھا۔ اس کے بعد وہ مکمل طور پر غائب تھا۔

وہ چاہ رہی تھی اظفر اسے لینے آجائے۔ ابو جی نے اپو کو خاص روشنی کے لیے مانسہرہ سے بلوا لیا تھا اور وہ چاہ رہی تھی کہ ان کی پریشانی کچھ کم ہو جائے۔

اچھا! جب آئے گا تو اسے کہلوا دوں گی کہ یہاں سے تم سے بات کر لے۔

جی ٹھیک ہے ،اللہ حافظ۔اس نے فون رکھ دیا۔ اسے صحیح معنوں میں پریشانی ہوئی تھی کہ اظفر ابھی تک واپس کیوں نہیں آیا۔ اس نے کہا تھا چند دن میں وہاں سب سے مل کر آجائے گا اور اب اسے اسلام آباد آئے ہوئے بھی پورا مہینہ ہوگیا تھا۔ گاو¿ں کا تو اسے فون نمبر پتا وغیرہ کچھ معلوم نہیں تھا۔

اظفر آیا نہ اُس کا فون۔ روشنی بہت دکھی ہوگئی تھی کہ وہ اس کے لیے نہ سہی اس کی حالت کا خیال رکھتے ہوئے ہی آجاتا۔ ساتھ بھی تشویش لاحق ہوگئی تھی کہ کہیں وہ کسی مصیبت میں نہ ہو۔ گھر میں الگ پریشانی تھی کہ وہ روشنی کو اس حالت میں بھی تنہا کیسے چھوڑ گیا ہے۔ روشنی کو بار بار خیال آتا کہیں اظفر نے اسے چھوڑ تو نہیں دیا۔ پھر جب سوچ سوچ کر تھک جاتی تو اپنے اندازوں کو وہم سمجھ کر جھٹک دیتی۔ وہ جیسا بھی تھا لیکن اسے چھوڑ نہیں سکتا تھا۔ ان کے درمیان تعلق چاہے جیسا بھی ہو لیکن اولاد، میاں بیوی کو قریب لے آتی ہے۔ اولاد ایسی ہی ہوتی ہے، کسی کے لیے رحمت،کسی کے نعمت تو کسی کے لیے مجبوری۔ ایسا وہ سوچتی تھی اور ضروری تو نہیں تھا جیسا وہ سوچے ویسا ہی ہو۔

ان سوچوں اور پریشانیوں میں مزید پندرہ دن گزر گئے اور سولہویں دن ایک سہانی سی صبح روشنی نے ایک پیاری سے بیٹی کو جنم دیا۔

یہ تو بالکل روشنی جیسی ہے۔اپو جان نے اسے سینے سے لگا کر کہا۔

ایسا لگتا ہے میری روشنی پھر سے چھوٹی ہوگئی ہے۔ابو جی اس کی ٹھوڑی پر انگلی رکھ کر کہتے۔

روشنی جیسی ہی شرارتی نکلی تو کیا ہوگا؟مولوی صاحب کی بیگم بھی اسے مبارک باد دینے آئیں تھیں۔

تم مجھ سے قرآن پڑھوگی نا میری گڑیا جیسے تمہاری ماں نے پڑھا ہے؟انہوں نے اس کے روئی جیسے نرم گالوں کو چھوا۔

ہے نا روشنی؟انہوں نے جیسے تائید چاہی۔

جی انشااللہ!“ وہ مسکرا بھی نہ سکی۔ اظفر کی پریشانی اسے ٹھیک طرح خوش بھی نہیں ہونے دیتی تھی۔

بلقیس (اپو جان) نے مجھے اظفر کے بارے میں بتایا۔ بیٹا پریشان نا ہو، وہ خیریت سے ہوگا، آجائے گا۔انہوں نے پیار سے کہا۔

اچھا! یہ رکھ لو تمہارے انکل نے اپنی نواسی کے لیے بھجوائے ہیں۔انہوں نے ایک لفافہ اس کی طرف بڑھایا۔

نہیں نہیں! اس کی کیا ضرورت ہے خالہ۔ بس آپ لوگوں کی دعائیں چاہئیں، وہ ضرور کر دیا کریں۔اسے واقعی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔

تمہارے لیے نہیں ہماری نواسی کے لیے بھیجی ہیں، یہ نہ قبول کرے تو واپس کر دینا۔انہوں نے ڈپٹا، وہ بھی مسکرادی۔

اچھا! میں چلتی ہوں، پھر آو¿ں گی بیٹی۔وہ چلی گئیں تو روشنی بچی کو لے کر لیٹ گئی۔ اس کے ذہن میں پچھلے ڈیڑھ سال کے گزرے حالات و واقعات کسی فلم کی طرح چلنے لگے۔ اگر اسے کہا جاتا کہ وہ اپنی پچھلی ڈیڑھ سالہ زندگی کا نچوڑ ایک لفظ میں بیان کرے تو وہ کہتیکرب۔اور اگر کہا جاتا شادی سے پہلے کی زندگی کو ایک لفظ میں بیان کرے تو وہ کہتیآسودگی۔بس اتنا ہی فرق تھا پہلے اور اب میں اور اس اتنے سے فرق نے اسے تھکا کر رکھ دیا تھا۔ اس کے کل اور آج کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ اس کی زندگی کو پلٹ کر رکھ دیا تھا۔

اسے اظفر سے پہلے ہی کوئی امید نہیں تھی اور اب اگر بچے کی پیدائش کا سوچ کر وہ یہ آس لگائے بیٹھی تھی کہ شاید وہ تھوڑا ذمہ دار ہوجائے گا تو وہ امید بھی ختم ہو رہی تھی۔

امتحان تھا اور کڑا امتحان تھا

عمر گزرے گی امتحان میں کیا

داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا

میری ہر بات بے اثر ہی رہی

نقص ہے کچھ میرے بیان میں کیا

وہ ملے تو یہ پوچھنا ہے مجھے

اب بھی ہوں میں تیری امان میں کیا

الٹی سیدھی سوچوں کے ساتھ اس کی آنکھ لگ گئی تھی

روشنی۔کوئی بولا تھا

اٹھ جا! اظفر آگیا ہے۔نیند میں ہی اپو جان کی آواز سنائی دی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!