المیزان

وہ اپنے بازو کے گرد شال لپیٹے باغ میں رکھی اس کرسی پر خاموش بیٹھی تھی جس پر آخری رات اس نے سفیر کے ساتھ بیٹھ کر اسے ایک موقع دینے کا فیصلہ کیا تھا ۔ وہ فیصلہ جس کے متعلق وہ آج بھی مطمئن نہیں تھی کہ وہ صحیح تھا یا غلط اور اگر وہ غلط تھا، تو اس کا نتیجہ کس قدر بھیانک ہونے والا تھا۔ اس سوچ سے ہی اس کے جسم سے جان نکلنے لگتی تھی۔

شہمین نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے آسمان کو دیکھنے کی کوشش کی، جہاں آج بڑے دنوں بعد سورج اپنی پورے آب و تاب سے روشن تھا۔

مگر سورج سے نظریں ملانا، تو سرما کی اس سرد ترین دوپہر میں بھی ممکن نہ تھا شہمین نے فوراً سے نظریں جھکالیں۔

کیا ہوجاتا اگر میں اُس شام ہی اس سے نکاح کرنے پر رضا مند ہوجاتی تو…. کم از کم اس صورت میں مجھے یوں اس دودھاری تلوار پر تو نہ چلنا پڑتا…. مانا کہ Immigration تک مجھے شاید اس سے دور رہنا پڑتا، مگر دل میں یہ اطمینان تو ہوتا کہ وہ جہاں بھی ہے میرا ہے، لیکن ہائے میری یہ فطرت جو دوسروںکو آزمائش میں ڈالے بغیر چین ہی نہیں پاسکتی۔ حالاں کہ اس آزمائش کا فائدہ کیا ہے؟ اگر وہ نہ بدلا ہوگا، تو کیا چھوڑ دوں گی میں اسے؟ کیا اب رہ سکتی ہوں میں اس کے بغیر؟ نہیں اب میرے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے۔شہمین نے سوچتے سوچتے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔

اس دن چار روز بعد بالآخر سفیر سے بات کرکے و ہ پرسکون تو ہوگئی، مگر گزرے نو ماہ سے سکون کی کیفیت بڑی وقتی ثابت ہورہی تھی۔ اس کا ایک لمحہ چین سے گزر بھی جاتا، تو اگلے ہی لمحے اسے پھر بے چینی محسوس ہونے لگتی۔ جیسے اس وقت ہورہی تھی۔ 

باجی چائے بنادوں آپ کو؟جہاں آرا نے اپنا گیلا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھ کر نرمی سے پوچھا۔ شہمین یک دم چونکی تھی۔ وہ کب سے باغ میں موجود تار پر کپڑے سکھارہی تھی۔ شہمین کو بالکل اس بات کا اندازہ نہیں ہوا تھا۔

چائے کیوں؟شہمین نے دھوپ کے باعث آنکھیں چندھیا کر الجھن سے دیکھا۔

آپ کے سر میں درد ہے نا اس لیے۔جہاں معصومیت سے بولی جب کہ شہمین کو اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ سی محسوس ہوئی تھی۔

نہیں جہاں چائے نہیں چاہیے۔وہ اس سنسناہٹ پر قابو پاکر بہ مشکل بولی تھی۔

پھر کیا چاہیے باجی؟جہاں اب وہیں اس کے نزدیک گھاس پر بیٹھ گئی تھی۔ شہمین نے نگاہ اٹھا کر اسے دیکھا۔ پھر عجیب انداز میں بولی تھی۔

سفیر۔وہ سفیر کے متعلق اس انداز میں پہلی بار بات کررہی تھی۔ وہ بھی بالکل غیر ارادی طور پر اور غیر متوجہ شخص سے۔

وہ سفیر بھائی۔جہاں آرا حیرت سے بولی ۔

ہاں۔شہمین کا انداز ہنوز عجیب تھا۔

کیوں باجی۔شہمین نے جہاں کے سوال پر ایک نگا ہ بہ غور اس کے چہرے کو دیکھا پھر سرجھٹک کر مسکرائی تھی۔

چھوڑو اس بات کو…. تم بتامیں نے جو کل تمہیں کتاب دی تھی۔ وہ پڑھی؟

شہمین لمحہ بھر میں ہی اپنی بے خودی سے باہر آئی تھی۔ اُسے فوراً احساس ہوگیا کہ وہ ایک غلط بات غلط جگہ کررہی ہے۔ اپنے دل کی تسکین کے لیے اس بچی کے ذہن کو آلودہ نہیں کرنا چاہیے۔

ہاں باجی وہ تو میں نے پڑھ لی۔وہ کہہ کر رکی پھر کچھ سوچ کر دوبارہ بولی۔ 

مجھے اس کتاب سے آپ کی بچپن کی تصویر ملی تھی۔ رکیں میں وہ لے کر آتی ہوں۔جہاں اپنی کہہ کر شہمین کی سنے بغیر فجائی سے اٹھ کھڑی ہوئی، پھر اتنی ہی تیزی میں وہ گھر کے اندر جاکے واپس بھی آگئی تھی۔

یہ لیں۔جہاں نے تصویر اس کی جانب بڑھائی جسے دیکھ کر ایک لمحے کو شہمین کا چہرہ بے تاثر ہوا،مگر اگلے ہی لمحے وہ پھر نارمل ہوگئی۔

یہ آپ ہیں یا نین باجی؟شہمین کو خاموش پاکر جہاں نے پوچھا۔

نہ میں …. نہ نین ۔ یہ مرجینا ہے۔

مرجینا کون؟

میری دوست…. سب سے پہلی۔ سب سے گہری۔

مطلب بیسٹ فرینڈ۔

ہاں۔

پھر تو آپ ابھی بھی رابطے میں ہوں گی ان سے۔

نہیں تو تھری کلاس کے بعد ہی ہمارا رابطہ ختم ہوگیا تھا۔ جب اس نے اسکول چھوڑا تھا۔شہمین کی آواز میں دکھ واضح تھا جسے جہاں نے بھی محسوس کرلیا تھا۔

کیا آپ کو بہت دکھ ہے اُن سے بچھڑنے کا؟

اب تو نہیں ہے، لیکن ا س وقت ضرور تھا۔ اتنا شدید دکھ کہ میں اس کے بعد دو ہفتے تک بخار میں مبتلا رہی تھی۔

دو ہفتے۔ پھر بڑے صاحب تو پریشان ہوگئے ہوں گے؟

ہاں…. بہت زیادہ۔

پھر آپ ٹھیک کیسے ہوئی تھیں۔

دکھ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو جہاں۔ انسان کو وقت کے ساتھ صبر آہی جاتا ہے۔ مجھے بھی آگیا تھا۔

پھر آپ نے دوبارہ کبھی رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی ان سے۔

نہیں ۔ میں ایک بار اتنی تکلیف اٹھا چکی تھی مجھ میں دوبارہ کی ہمت نہیں تھی۔

کیا مطلب باجی؟

مطلب یہ ہے جہاں کہ قدرت نے ہر ایک کو الگ الگ خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ تخلیق کیا ہے۔ اب میں اسے اپنی خوبی کہوں یا خامی مجھے نہیں معلوم۔ بہر حال میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں انسانوں سے بہت جلدی Attach ہوجاتی ہوں اور اس Attachment کے بعد جب وہ مجھ سے دور ہوجاتے ہیں، تو یہ دکھ میرے لیے ناقابل برداشت ہوجاتا ہے۔ ایسے ہی مرجینا کے ساتھ رہتے ہوئے میں اس سے بھی بے حد Attach ہوگئی تھی اور پھر جب وہ مجھے چھوڑ کر گئی تو میری تکلیف نہ قابل بیان تھی۔ کتنے عرصے تک تو میرا اسکول جانے کا بھی جی نہیں چاہا، مگر پھر بابا کی مستقل توجہ نے مجھے سنبھال لیا تھا، لیکن اس کے بعد میں نے پھر کبھی کسی سے اتنی گہری دوستی نہیں کی۔ اس وقت تو میں چھوٹی تھی، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے اندازہ ہوگیا کہ میں بے حد حساس طبیعت کی مالک ہوں۔ میں اپنے محبوب شخص سے دوری کی تکلیف برداشت نہیں کرسکتی۔ یہ تکلیف مجھے مارتی ہرگز نہیں ہے مگر پاگل کرنے لگتی ہے اور تمہیں معلوم ہے جہاں پاگل ہوجانا ، مرجانے سے زیادہ خوفناک ہوتا ہے۔وہ عجیب بے کل سپاٹ سی کیفیت میں کہہ رہی تھی پھر اس نے لمحہ بھر کو رک کر اپنی آنکھوں سے پھسلے آنسو صاف کیے اور دوبارہ بولی۔

میں پاگل نہیں ہونا چاہتی تھی اس لیے میں نے اپنے اور اپنے دوستوں کے درمیان ایک فاصلہ رکھنا شروع کردیا۔ اب میں کبھی کسی سے بے حد والہانہ انداز میں نہیں ملتی، ہمیشہ تھوڑا کھینچارکھتی ہوں۔ کبھی کبھار جب بات ان کی ضرورت کی نہ ہو، تو انہیں نظر انداز بھی کردیتی ہوں۔ شاید میرا یہ عمل غلط ہو، لیکن میں کیا کروں جہاں۔ اس دنیا میں رہنے والا ہر انسان عقل مند نہیں ہوتا۔ کچھ شہمین مسعود بھی ہوتے ہیں ۔ بے حد حساس ، بے وقوف سے، مگر تمہیں پتا ہے اس سب کے بعد بھی میرے ساتھ کیا ہوا؟

کیا باجی۔

میں ایک بار پھر کسی سے بری طرح Attach ہوگئی ہوں۔ پھر ایک بار میری زندگی کسی ایک شخص کے گرد گھومنے لگی ہے اور اس بار یہ Attachmentاتنی زیادہ ہے کہ اگر وہ مجھے نہ ملا، تو میں یقینا پاگل ہوجاں گی۔

شہمین نے اس بار دانستہ طور پر سفیر کا نام لینے سے گریز کیا تھا اور جہاں کا ذہن اتنا بردبار نہیں تھا کہ وہ اس کے لفظوں سے یہ نام اخذ کرلیتی۔

شہمین اب بھرائی ہوئی آواز میں جہاں سے مزید کہہ رہی تھی۔

جہاں میں پاگل نہیں ہونا چاہتی۔ تم دعا کرنا وہ مجھ سے دور نہ ہو۔“ 

جی باجی میں دعا کروں گی آپ پریشان نہ ہوں۔جہاں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی۔ پھر وہ کپڑوں کی خالی بالٹی اٹھا کر اندر جانے لگی۔ جب یک دم ہی اس نے رک کر جہاں نے کہا۔

باجی کیا آپ بھی میرے لیے اللہ سے ایک دعا کریں گی۔شہمین اس کے چہرے کی سنجیدگی کو حیرت سے دیکھ کر بولی۔

کیا۔

اللہ سے کہیے گا آج بارش نہ کرے۔جہاں نے کپڑے بڑی محنت سے دھوئے ہیں۔“ 

جہاں تار پر لٹکتے کپڑوں کی جانب دیکھ کر معصومیت سے بولی تھی۔ شہمین کو بے اختیا ر اُس کی معصومیت پر پیار آیا تھا۔

ضرور کروں گی جہاں۔شہمین نے مسکرا کر کہا۔

انسانوں کی زندگی کے دائرے بھی کتنے مختلف ہوتے ہیں اور ان کی خواہشات بھی۔وہ دوبارہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے دور آسمان کو دیکھتے سوچ رہی تھی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

گل موہر اور یوکلپٹس

Read Next

اوپرا ونفرے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!