المیزان

امل بیٹا مغرب کا وقت ہونے والا ہے گانے بند کردو۔سفیر نے اپنی آستین فولڈ کرتے پاس بیٹھی آئی پیڈ پر گانے سنتی امل کو ٹوکا۔ وہ دونوں اس وقت سفیر کے کمرے میں موجود تھے۔

مغرب کا وقت ہونے والا ہے تو کیا ہوا بھائی۔امل عادتاً اپنے بالوں کو کان کے پیچھے کرتی بےپروائی سے بولی۔ سفیرنے اُسے دیکھ کر ایک گہرا سانس لیا۔

یہ وہ دوسر اانسان تھا جو سفیر کے ظاہر سے شدید گمراہ ہوا تھا۔

اذان کے وقت گانے سننے سے اللہ خفاہوتا ہے۔سفیرنے اس کے ہاتھ سے آئی پیڈ لے کر بند کرتے ہوئے سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔ امل اسے خفگی سے دیکھنے لگی۔

تم بالکل ممی اور سیف بھائی کے جیسے ہوتے جارہے ہو۔وہ ابرو سکیڑ کر بولی۔

اور ممی اور سیف کیسا ہے؟سفیر نے اسے گود میں اٹھاتے ہوئے پوچھا۔

“Narrow Minded.” 

یہ آپ سے کس نے کہا؟سفیر کو اس کے جواب پر بالکل حیرت نہیں ہوئی تھی۔ وہ اس سے ایسے ہی کسی جملے کی امیدکررہا تھا۔

میں نے پڑھا ہے بلاوجہ روک ٹوک کرنے والے کو Narrow Minded کہتے ہیں۔وہ عادتاً اس کے بالوں کی پونی کھولتے ہوئے آرا م سے بولی تھی۔

آپ نے پڑھا تو صحیح ہے، لیکن سمجھا غلط ہے اور ابھی اس کو سمجھنے کے لیے آپ کو وقت چاہیے۔

تمہارا کہنے کا مطلب ہے میں ڈفر ہوں؟امل نے پھر آنکھیں سکیڑ کر اسے خفگی سے دیکھا۔

نہیں بالکل نہیں، لیکن کچھ باتوں کو سمجھنے کے لیے عقل سے زیادہ تجربے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس میں وقت لگتا ہے۔سفیر مسکراتے ہوئے بولا۔

بھائی تم کچھ دنوں سے عجیب باتیں کرنے لگے ہو۔امل کو ا س کی بات بالکل سمجھ نہیں آئی۔ وہ اکتاہٹ سے بولی تھی۔

مگر آپ کو تو بھائی کی ہر بات اچھی لگتی ہے نا، عجیب بھی؟

“Yes.” وہ اپنی خفگی بھلا کر مسکرا کر بولی۔ اس کے لیے اس کا بھائی سب سے اہم تھا، سفیر Thank you کہہ کر اس کے ماتھے پر بوسا دیتا اسے کمرے سے باہر لے آیا تھا۔ امل ضوٹی کی طرح Mature نہیں تھی جو اتنی آسانی سے اس کی بات سمجھ جاتی، بلکہ وہ تو ایک Immature ضدی بچی تھی۔ جس کو اس کے من پسند لائف اسٹائل سے ایک ناپسندیدہ لائف اسٹائل کی طرف لے کر جانا، بے حد دقت طلب کام تھا۔ اس لیے اس کام کو انجام دینے کے لیے سفیر کو ایک لمبا وقت چاہیے تھا۔

کمرے سے باہر آکر وہ لانج سے گزرتا کچن کی طرف بڑھ رہا تھا جب اس نے لانج میں رکھے صوفے پر بیٹھی ذونی احمد کو دیکھا جو ایک ہاتھ میں تسبیح پکڑے ہوئے تھیں اور دوسرا ہاتھ انہوں نے ماتھے پر رکھا ہوا تھا۔ کچن میں آکر اس نے امل کو گود سے اتار کر کانٹر پر بیٹھایا اور خود وہ برنر کے آگے آکر کھڑا ہوگیا۔ اگلے دس منٹ سفیر کچن میں ہی کام کرتا رہا اور کانٹر پر بیٹھی امل مستقل اسے اپنے اسکول کے قصے سناتی رہی۔

باہر آجا۔کام سے فارغ ہوکر سفیر نے امل کو کانٹر سے اتار کر ٹرے اُٹھاتے ہوئے کہا۔ وہ دونوں کچن سے نکل کر لانج میں بیٹھی ذونی احمد کے پاس آگئے۔ ذونی احمد نے ٹھٹک کر ان دونوں کی جانب دیکھا ۔ سفیر نے ٹرے سینٹر میز پر رکھی اور امل کو ساتھ لیے ان کے پاس ہی بیٹھ گیا۔ وہ اب خاموشی سے ٹرے میں رکھا چائے کا کپ اٹھا کر ان کی جانب بڑھا رہا تھا۔

میرے لیے؟ذونی احمد بہ مشکل بول پائی تھیں۔

و ہ آ پ کے سر میں ۔ درد تھا۔ اس لیے۔سفیر نے نظریں جھکا کر اٹکتے ہوئے کہا۔ امل اپنا دودھ کا گلاس پہلے ہی اٹھا چکی تھی اور اب خاموشی سے بیٹھی دودھ پیتی انہیں دیکھ رہی تھی۔

شکریہ بیٹا۔ذونی احمد نے اس سے کپ تھا متے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ سفیر کے دل کو کچھ ہوا تھا۔ اس نے اپنا سر مزید جھکالیا۔ پھر وہ بہت دیر تک اپنے سامنے رکھے دوسرے کپ کو بغیر چھوئے یونہی ماں کے پہلو میں خاموش بیٹھا رہا۔ یہاں تک کہ مغرب کی اذان سنائی دینے لگی۔

بیٹا جماعت نکل جائے گی جلدی سے چائے پی لو۔ذونی احمد اذان کی آواز سن کر بولی تھیں۔

آج نماز گھر پر ہی پڑھوں گا ۔ آپ کے ساتھ۔وہ سرجھکائے دھیمے لہجے میں بولا جب کہ ذونی احمد کے ہاتھ سے چائے کا کپ چھوٹتے چھوٹتے بچا تھا۔

سفیر۔ذونی احمد نے بے یقینی کے عالم میں اسے پکارا تھا، انہیں یقین نہیں آرہا تھاکہ یہ ان کا وہی بیٹا تھا جو بائیس سال سے ان سے خفا تھا ور اب اچانک و ہ یوں برتاکررہا تھا جیسے بائیس سال کا وقفہ تو بیچ میں آیا ہی نہیں تھا۔

“I am sorry Mummy.” اگلے ہی لمحے سفیر ان کی گود میں سررکھے ہچکیوں سے روتا کہہ رہا تھا جب کہ کچھ فاصلے پربیٹھی امل بڑی بے نیازی سے ہاتھ میں پکڑا خالی گلاس ٹرے میں رکھتی یہ کہہ کر وہاں سے اٹھ گئی کہ….

اُف بھائی پچھلے ایک سال سے تم جتنا رونے لگے ہو نہ۔ اُسے دیکھ کر اب میں سچ میں تمہیں Robita کہہ کر بلانے والی ہوں۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

گل موہر اور یوکلپٹس

Read Next

اوپرا ونفرے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!