المیزان

وہ قدم قدم چلتی اس ٹوٹے بریسلٹ کے نزدیک آئی پھر وہیں فرش پر بیٹھ گئی۔ اس کا کامدار دوپٹا سفید ماربل کے فرش پر پھیل گیا۔ وہ خاموش بیٹھی تھی۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر بریسلٹ کو چھوا بھی نہیں۔ اس کی ہمت ہی نہیں ہورہی تھی۔ 

اکرم چاچا میری چائے کدھر ہے۔

نین، جہاں جاتو رہی ہے تمہارے ساتھ۔

میں نے کہا نہ میں کرلوں گی۔“ 

میری چاہ تھی کہ وہ بریسلٹ میں خود تمہارے لیے لوں۔

دو آنسوں کے قطرے ایک ساتھ اس کی آنکھوں سے ٹپکے اور پھر لڑھی سی بندھ گئی۔ وہ اپنی آواز کو دبا دبا کر سسک رہی تھی اور اس کا سارا جسم ہلکورے لے رہا تھا۔ اسے اپنے کانوں میں اب بھی ان جملوں کی باز گشت سنائی دے رہی تھی پھر یک دم ہی ان پر کوئی میٹھی سی آواز غالب آگئی۔

اپنے غصے کی آگ میں دوسروں کو نہیں جلایا کرتے جانِ بابا۔

”I am sorry baba ، میں آج غصے میں اتنی اندھی کیسے ہوگئی کہ آپ کا پڑھایا سبق بھول گئی۔وہ سسکتے ہوئے خود کلامی کے سے انداز میں بولی۔

آج صبح سے ہی اسے اپنے ضمیر سے کچھ غلط ہونے کا الارم مل تو رہا تھا، مگر وہ ہی بات غصہ اتنا غالب تھا کہ وہ اسے مستقل snooze کیے چلی جارہی تھی، مگر اب بالآخر وہ الارم پر جاگ گئی۔

چھوٹی بیٹی بڑے صاحب جاچکے ہیں۔ میں بھی اب جارہا ہوں۔ آپ سفیر بابا کے ساتھ جلدی آجایئے گا اور ہاں گیٹ لاک کردیجیے گا۔دروازے کی چوکھٹ پے کھڑے اکرم خان کہہ رہے تھے۔ شہمین کی اس جانب پیٹھ تھی۔ اکرم خان نے اس کا بھیگا چہرہ نہیں دیکھا تھا، مگر باپ کے ذکر پر اس نے فوراً ہی ٹھٹک کر اپنا رخ بدلا تھا۔

اکرم چاچا بابا مجھے چھوڑ کر چلے گئے؟وہ جب بولی تو اس کی آواز میں صدمہ نمایاں تھا۔ اکرم خان ٹھٹکے تھے۔

وہ بیٹی سفیر بابا کو راستہ معلوم نہیں ہے نہ اس لیے آپ کو ان کے پاس چھوڑ کر گئے ہیں۔اکرم خان نے اسے مطمئن کرنے کو کہا۔

وہ آپ کو اس کے پاس چھوڑ جاتے، مگر انہیں مجھے ساتھ لے کر جانا چاہیے تھا۔وہ ترکی بہ ترکی بولی تھی۔ وہ اپنے باپ کے معاملے میں ایسی ہی تھی بغیر لگی لپٹی رکھے سیدھی بات کرنے والی۔ 

بیٹی انہوں نے کہا تھا جانِ بابا کو بتادینا بابا کا جانا ضروری تھا ورنہ نہیں جاتے۔

اکرم خان نے مزید اسے حوصلہ دیا۔ پھر وہ شہمین کو خاموش دیکھ کر پلٹنے لگے جب شہمین دھیمے سے پھر بولی۔

مجھے معاف کردیجیے گا اکرم چاچا۔ میں نے صبح آپ سے بدتمیزی کی تھی۔وہ واپس مڑے پھر مسکرائے۔

کوئی بات نہیں بیٹا۔ کبھی کبھار غلطی ہو جاتی ہے، لیکن ان کی سمجھ داری یہ ہی ہوتی ہے کہ وہ غلطی کا علم ہوجانے پر فوراً معذرت کرلیتے ہیں۔ اپنی عمر اور رشتے کو خاطر میں لائے بغیر۔وہ شفیق لہجے میں کہہ کر باہر کو مڑگئے۔ انہیں دیر ہورہی تھی۔

شہمین کے دل پر دھر ا بوجھ کچھ ہلکا ہوا، مگر مکمل نہیں ہٹا تھا۔ اس نے اب ہاتھ بڑھا کر وہ Akoya pearl کا بریسلٹ اٹھایا اور اسے جوڑنے کی سعی کرنے لگی۔

سفیر اپنے گیلے بالوں کو تولیے سے رگڑتا ابھی ابھی واش روم سے آیا تھا ۔ باہر آکر اس نے شہمین کو مخاطب کیا نہ ہی اس کی جانب دیکھا بلکہ وہ بے نیازی سے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آکھڑا ہوا۔ شہمین بھی اسے مکمل نظر انداز کیے بریسلٹ جوڑنے کی سعی میں مصروف رہی۔

سفیر نے آئینے میں خود کو دیکھتے ہوئے گیلا تولیا بیڈ کی طرف اچھالا۔ وہ اب اپنے بالوں میں برش پھیر رہا تھا۔ شہمین کی بھی کوشش جاری تھی۔

اب وہ ڈریسنگ ٹیبل پر سے پرفیوم کی بوتل اٹھا کر خو دپر اسپرے کررہا تھا۔ پھر اس نے اپنی گھڑی اٹھائی اور اسے کلائی پر کسنے لگا۔ گھڑی باندھ کر اس نے ایک نگاہ آئینے میں دکھتے شہمین کے عکس کو دیکھا اور گہرا سانس لیا۔

وہ اب قدم قدم اس کے نزدیک آگیا۔ پھر وہیں اس کے برابر فرش پر بیٹھ گیا۔ وہ اسے گہری نگاہوں سے تک رہا تھا جب شہمین رندھے ہوئے لہجے میں بولی۔

تمہیں دکھ نہیں رہا ۔ یہ مجھ سے جڑ نہیں رہا۔سفیر نے اس کے آگے ہاتھ پھیلا یا۔ شہمین نے احتیاط سے بریسلٹ اس کے ہاتھ میں رکھ دیا، تو سفیر اس کا معائنہ کرنے لگا۔

یہ ایسے نہیں جڑے گا۔ میں کل شاپ سے جڑوا لاں گا ۔اس نے پاس ہی گری مخمل کی ڈبیا اٹھائی اور بریسلٹ کو اس میں رکھتےہوئے بولا جب شہمین یک دم ٹھٹکی۔

یہ کیسے ہوا۔اس نے سفیر کے ہاتھ کی جانب اشارہ کیا۔ جہاں بڑے بڑے چھالے پڑے تھے۔ شہمین نے ان پر ابھی غور کیا تھا۔

کام کرتے ہوئے ۔وہ شہمین کی جانب ڈبیا بڑھاتا ہوا آہستگی سے بولا ۔ شہمین کے گلے میں آنسوں کا گولہ سا اٹکا تھا۔

اور یہ۔اس بار اس کا اشارہ اس کے پیروں کی جانب تھا۔ وہاں بھی ایسے ہی چھالے پڑے تھے۔

یہ بھی۔وہ ابھی تک ہاتھ بڑھائے بیٹھا تھا۔ شہمین نے اس کے ہاتھ سے ڈبیا نہیں تھامی تھی۔

لیکن تم نے کام کیا کیوں تھا۔وہ الجھ کر بولی۔

بقیہ دو ہزار روپے کمانے کے لیے۔وہ اب اس کی آنکھوں میں دیکھتا ڈبیا پر چڑھے مخمل کو اپنے انگوٹھے سے سہلا رہا تھا۔ شہمین بہت دیر تک کچھ بول ہی نہیں سکی۔ وہ تو ان دو ہزار روپوں کو مکمل فراموش کرچکی تھی۔

کیا کام کیا تھا تم نے؟وہ اپنے گلے میں اٹکتا آنسوں کا پھندا نگلتے ہوئے بہ مشکل بولی تھی۔

مزدوری۔سفیر ابھی بھی اسی انداز میں ڈبیا کو اپنے انگوٹھے سے سہلا رہا تھا۔ شہمین کو اگلی سانس لینا مشکل لگا۔

اس کی ضرورت نہیں تھی سفیر۔

پھر کیا ادھار پر چیز لے کر تمہیں دیتا؟سفیر نے انگوٹھے کی حرکت کو روک کر ابرو اچکائی تھی۔

جب پیسے نہیں تھے تو نہ لیتے نا۔

جب پیسے نہیں ہوتے تو بندہ کماتا ہے تاکہ ضرورتوں کو پورا کرسکے۔سفیر نے سرجھٹکا۔ انگوٹھا واپس حرکت میں آگیا تھا۔

یہ ضرورت تو نہیں تھی، خواہش تھی۔

میرے لیے یہ ضرورت ہی تھی۔

کیوں؟

اس دکان دار نے کہا تھا یہ تمہیں بہت پسند آیا تھا ، تم اسے ضرور پہنتی اور بہت زیادہ پہنتی ۔ اس لیے اسے میں تمہارے لیے خریدنا چاہتا تھا تاکہ تم اسے پہنو اور مجھے یاد رکھو۔

اور تمہیں یقین تھا میں یہ بریسلٹ پہن کر تمہیں یاد رکھوں گی۔

ہاں! یہ حقیقت ہے۔اس نے کسی احساس کے تحت اپنے گلے میں پڑے لاکٹ کو دیکھا تھا۔

اور اس سے ہوتا کیا۔

اس سے یہ ہوتا کہ تم مجھے یاد کرتے کرتے میرے لیے ویسی ہی پاگل ہوجاتیں جیسا میں تمہارے لیے ہوں۔

اوہ تو تم مجھے پاگل کرنا چاہتے ہو۔شہمین نے خفگی سے اسے گھورا۔

ہاں! میں چاہتا ہوں تم بھی میرے لیے ایسی ہی پاگل ہوجاجیسا میں تمہارے لیے ہوں تاکہ تمہیں میری اذیت کا کچھ احساس تو ہو۔ جو ابھی تو تمہیں بالکل نہیں ہے۔اس نے صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ کسی کے بھی معاملے میں بالکل بھی لگی لپٹی رکھنے کا عادی نہیں تھا اور ان سب کے درمیان یہ بات تو آئی گئی ہوگئی تھی کہ سفیر کو مزدوری کرنے کا مشورہ کس نے دیا تھا اور اچھا ہی تھا ورنہ وہ مسعود خان کا نام سن کر پھر خفا ہوجاتی۔

اچھا چلو اب …. بابا انتظار کررہے ہوں گے۔وہ بالآخر اس کے ہاتھ سے ڈبیا لے کر اٹھتے ہوئے بولی۔

تمہیں کبھی خود سے یہ خیال نہیں آتا کہ مجھے بھوک بھی لگتی ہے۔وہ اس کو اٹھتا دیکھ کر پہلی بار خفگی سے بولا تھا۔ شہمین اس کی خفگی پر لمحہ بھر کو حیران رہ گئی۔

کیا مطلب۔وہ اس کی بات بھی نہیں سمجھ سکی تھی۔

مطلب یہ کہ میں نے صبح سے کچھ نہیں کھایا اور اب مجھے بھوک لگی ہے۔

کیوں نہیں کھایا؟

کیوں کہ کھانا پیسوں کا ملتا ہے اور میرے پاس وہ تھے نہیں۔وہ دو ٹوک بولا۔

تم بھی عجیب ہو سفیر امریکا سے پاکستان محض اتنی سی رقم لے کر آگئے ۔ یہ امریکا کے تو چند ہزار ڈالرز ہوں گے۔وہ سر کو نفی میں ہلاتے ہوئے اس کی عقل پر بڑبڑائی تھی۔

شہمین کیا تم ایک مرتبہ بھی خود کومیری جگہ رکھ کر یہ محسوس کرسکتی ہو کہ میں کس حالت میں پاکستان آیا تھا۔جو بات وہ ہمیشہ سوچتا تھا آج کہہ گیا۔

نہیں….میں کبھی تمہاری جگہ نہیں آنا چاہتی سفیر اس جگہ میں بہت اذیت ہے۔میں جانتی ہوں۔وہ خود سے کہتی بات بدل گئی تھی۔

جہاں مزدوری کی تھی انہوں نے نہیں دیا تھا کھانا؟

انہوں نے کہا تھا اپنے گھر جاکر کھا کے آجا۔وہ سرجھٹک کر بولا۔

تو آئے کیوں نہیں۔

آجاتا تو تم واپس جانے دیتیں؟اس نے ابرو اچکا کر پوچھا۔

تمہیں واپس تو نہ جانے دیتی البتہ تمہارا گلا ضرور دبا دیتی۔وہ پھر خود سے کہتی بات بدل گئی تھی۔

آتمہیں کھانا دوں۔ پھر جانا بھی ہے۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

گل موہر اور یوکلپٹس

Read Next

اوپرا ونفرے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!