المیزان

ابھی رات کا پہلا پہر شروع ہو ا تھا۔ دور تک اُفق گہرا سیاہ اور جاڑے کی ہوا بھی تیز چل رہی تھی جو اس کمرے میں موجود کھڑکی کے یک دم ہی کھل جانے کے با عث اب کمرے کے اندر تک آنے لگی تھی۔ جب کہ بیڈ پر بیٹھی عروسی لباس پہنے ضوٹی جاڑے کی اس سرد ترین ہوا سے بے نیاز ایک گھنٹے میں اب تیسری بار دیوار پر ٹنگی اس گھڑی کو بے چینی سے دیکھ رہی تھی۔ جب یک دم ایک کلک کے ساتھ کمرے کا دروازہ کھلا اور وہ اندر داخل ہوا تھا۔ ضوٹی نے فوراً اپنی نگاہیں جھکالیں اور سنبھل کر بیٹھ گئی۔ 

کمرے میں داخل ہوتے ہی اسے شدید ٹھنڈ کا احساس ہوا تھا۔ اس نے پہلی نگاہ اٹھا کر آتش دان کو دیکھا جو سرد پڑ چکا تھا۔ دوسری کھڑکی کو جو کھلی ہوئی تھی اور تیسری بیڈ پر بیٹھی ضوٹی کو جو بے حد گھبراہٹ میں اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ سے مسل رہی تھی۔ پھر وہ ضوٹی سے نظریں ہٹا کر کھلی کھڑکی کے نزدیک آیا۔ اس نے کھڑکی کا کلپ چڑھایا پھر وہاں سے آتش دان کے قریب گیا۔ اس نے اسٹینڈ میں سے چند لکڑیاں نکال کرآتش دان میں ڈالیں اور اس کی بجھی ہوئی آگ کو دھکادیا۔ پھر وہ ضوٹی کے پاس بیڈ پر ہی بیٹھ گیا۔ ضوٹی نے ہلکی سی نگاہ اُٹھا کر اس کے تاثرات دیکھے جو بالکل بے تاثر تھے، اس کا دل عجیب وہم میں گھر گیا۔

چند لمحے وہ دونوں خاموش رہے۔ پھر اس نے اپنی جیب سے ایک مخملی ڈبیا نکال کر ضوٹی کی سمت بڑھائی۔ ضوٹی نے بغیر کچھ کہے اس کے ہاتھ سے ڈبیا تھام لی۔

میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔اس نے بالآخر بے حد دھیمے لہجے میں بات کا آغاز کیا۔

جی۔ضوٹی نے ہاتھ میں پکڑی ڈبیا پر گرفت مضبوط کرتے ہوئے کہا۔

ہمارا نکاح بے شک دین کی بنیاد پر ہوا ہے، لیکن تم اپنے دنیاوی مسئلوں میں بھی مجھے کبھی خود سے الگ نہیں پاگی۔ میں جانتا ہوں کسی انسان کا اپنے مذہب کو چھوڑ کر دوسرے مذہب کی جانب آنا بے حد مشکل کام ہے۔ ایسے میں اُسے صرف معاشرے کی مخالفت کا سامنا ہی نہیں کرنا ہوتا بلکہ کبھی اس کے اپنے قدم بھی ڈگمگا سکتے ہیں، تو تم بے فکر رہنا میں اس وقت میں بھی تمہارے ساتھ کھڑا رہوں گا اور تمہیں گرنے نہیں دوں گا۔ تم میرے اس فیصلے کو کوئی جذباتی فیصلہ مت سمجھ لینا بلکہ یقین مانو میں نے بے حدسوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے اور میں اسے اپنی خوش بختی سمجھتا ہوں کہ اس کام کو انجام دینے کے لیے اللہ نے میرا انتخاب کیا۔‘ ‘ عمر اسفندیار نے بے حد نرم مسکراہٹ کے ساتھ اپنے برابر میں بیٹھی خدیجہ(ضوٹی) کو دیکھا جو اپنے وہموں کے دور ہوجانے کے بعد اب بے حد پرسکون دکھ رہی تھی۔

کھلی کھڑکی کے بند ہوجانے اور آتش دان کے روشن ہونے سے کمرے میں موجود ٹھنڈ کااحساس ختم ہونے لگا تھا اور وہ دونوں اس پر سکون ماحول میں بے حدمطمئن بیٹھے ایک دوسرے سے ہم کلام تھے۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

گل موہر اور یوکلپٹس

Read Next

اوپرا ونفرے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!