المیزان

اب شام ہوچکی تھی، مگر موسم میں موجود خنکی ہنوز برقرار تھی۔ شہمین اس خنکی سے بے نیاز بوجھل دل لیے سفیر کے کمرے کی واحد کھڑکی کو کھولے اس کے سامنے کھڑی تھی اور باہر سڑک کنارے لگے درختوں کو دیکھ رہی تھی۔ جب کہ پتوں پر گزشتہ شب ہوئی برف باری کے آثار سفید ٹھنڈی گیلی روئی کی صورت اب بھی موجود تھے۔ جو ڈھلتے سورج کی ہلکی ہلکی حدت پاکر قطرہ قطرہ پگھل کر پتوںسے لڑھک رہے تھے۔

شہمین ان پتوں پر نظریں جمائے سفیر کی منتظر تھی۔ اس کی دائیں جانب اس کا مکمل پیک ہینڈ کیری رکھا تھا اور وہ سفر کے لیے بالکل تیاری تھی۔ ظاہری طور پر۔

اُس شام سفیر نے شہمین کو صرف ضوٹی (خدیجہ) اور عمر کے نکاح کے متعلق بتایا تھا۔ اس نکاح سے پہلے اپنی اور ضوٹی کی گفتگو کے متعلق نہیں، وہ اس بات کو چھپا نہیں رہا تھا بس اسے بتانا ضروری نہیں سمجھا۔

اور اس طرح پہلے ضوٹی اور عمر کا نکاح ہوا پھر سفیر اور شہمین کا۔ نکاح کے بعد سفیر نے بے حد ڈرتے ڈرتے شہمین سے پوچھا کہ کیا وہ ا ن کے درمیانی differences کو مٹانے میں کامیاب ہوپایا ہے یا نہیں،جب کہ نکاح سے پہلے تو وہ یہ سوال زبان پر لانے کی ہمت ہی نہیں کرپایا تھا کہ کہیں وہ منع نہ کردے۔

اب شہمین اسے کیا بتاتی کہ تم نہ بھی کرتے تب بھی میں تمہیں اپنا لیتی کیوں کہ یہ آزمائش تو میری فطرت کا حصہ تھی اور کچھ نہیں ، اس نے محض ہاں کہہ دیا تھا، مگر ساتھ ہی سفیر سے ایک نیا شکوہ بھی کر ڈالا تھا وہ اس شام اس سے اتنی اجنبیت سے کیوں ملا؟ جواباً سفیر نے محض چند لفظوں ہی میں ساری بات مکمل کردی۔

جب موسیٰؑ کو طور پر اچانک ہی نورکی جھلک دکھائی گئی تو وہ بوکھلاتے نہیں، تو کیا کرتے؟

پلیز سفیر یوں اس طرح ان کا نام نہ لو اور اپنے جذبات کے اظہار کے لیے کسی اور تشبیہ کا سہارا لے لو، مگر یوں ان کا ذکر نہ کرو۔

اس کی باتیں آج بھی اتنی ہی ہلانے والی تھیں اور شہمین دہل ہی تو گئی تھی۔

یہ نام ورثہ ہیں میرا، میری پہچان ہیں یہ، ان پر حق ہے میرا، میں جب چاہوں انہیں اتنی ہی محبت سے پکار سکتا ہوں کہ وہ موسیٰؑ بھی میرا ہے….وہ اللہ بھی میرا ہے۔ کوئی بھی انہیں میری زندگی، میری سوچ، میری زبان سے الگ نہیں کرسکتا۔

اس کے لہجے میں کیا مان تھا، کیا اپنائیت تھی۔ شہمین تو بس اسے دیکھتی رہ گئی۔

تمہیں سمجھنا بہت مشکل ہے سفیر۔ا س نے آج پہلی بار اس کے سامنے ا س بات کا اعتراف کیا تھا۔ سفیر بے فکری سے مسکراتا رہا۔

تم کوشش کرنا میں ساتھ دوں گا۔وہ بولاتھا۔

یہ تب کی بات تھی جب سفیر ان کے نکاح کے تیسرے روز شہمین کو ساتھ لیے یونیورسٹی گیا اور وہاں گھومتے ہوئے اسے ہجر میں آپ بیتی سناتا رہا تھا۔ پہلے کبھی اس نے سفیر سے اس موضوع پر زیادہ سوال جواب نہیں کیے تھے کہ بات طویل ہوجائے گی اور اس کا دل اسے ملامت کرتا رہے گا کہ وہ ایک نامحرم سے بات کررہی ہے، مگر آج…. آج تو وہ محرم تھا کہیں کوئی ملامت نہیں تھی۔

وہ اب اُسے ہاسٹل کے اس حصے کہ سامنے لے آیا جہاں آخری شب اس نے شہمین کاانتظار کیا تھا۔ وہ جگہ آج بھی بالکل ویسی ہی تھی۔

اگر میں تمہیں ڈھونڈ تا ہوا نہیں آتا، تو آہستہ آہستہ تم مجھے بھول جاتی نا؟سفیر نے ہاسٹل کی عمارت میں اس مخصوص کھڑکی پر نظر جماتے ہوئے کہا جو شہمین کے کمرے کی تھی۔

بھول جاتی سے کیا مطلب ہے۔ تم کون سا مجھے یاد تھے۔وہ بے حد نروٹھے پن سے بولی اور سفیر نے عمارت سے نظریں ہٹا کر اُسے بہ غور دیکھا۔

بالکل میں تمہیں یاد تھوڑی تھا بلکہ حفظ تھا۔اس نے جتاکر کہا پھر اسے منہ کھولتا دیکھ کر بولا۔

ہاں اب کردو جلدی سے میری نفی کہ تم یونیورسٹی میں مجھے چھپ چھپ کر نہیں دیکھتی تھیں اور جب کبھی میں تمہیں دیکھ لیتا، تو فوراً ہی نگاہ چرالیتی۔

سفیر کے لگائے الزام پر شہمین کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا جب کہ یہ تھا بھی سچ۔

ٹھیک ہے اب اگر کوئی چوبیس گھنٹے تکتا رہے گا، تو اگلا تجسس میں ایک دو بار دیکھ ہی لیتا ہے نا۔اس نے منہ بناتے ہوئے اپنے دفاع میں ایک چھوٹی سی دلیل دی۔ سفیر نے ابرو اچکا کر اسے دیکھا۔

ایک دو بار….“ شہمین نے اپنی خفت چھپانے کے لیے اسے سامنے والی دکان سے پانی لانے کا کہا، تو وہ بڑبڑاتا ہوا آگے بڑھ گیا۔

یہ لڑکی ساری زندگی مجھے یونہی گھماتی رہے گی کبھی اس بات کو تسلیم نہیں کرے گی کہ یہ مجھ سے ہمیشہ سے محبت کرتی تھی۔وہ دل ہی دل میں بڑبڑایا۔

ایک رات نیند سے بیدار ہونے پر سفیر کو اپنے برابرمیںناپاکر شہمین بے قراری سے بیڈ روم سے نکلی، تو و ہ اسے کچن کے باہر فرش پر بیٹھاملا، اس کے سامنے ٹھوس مٹی کے کچھ ٹکڑے پڑے تھے اور وہ اُنہیں جوڑ کر کچھ بنانے کی کوشش کررہا تھا۔

یہ کیا کررہے ہو؟وہ شہمین کی آواز پر چونکا پھر مسکرایا۔

تم کیسے اُٹھ گئیں؟

بس آنکھ کھل گئی۔ یہ رات کے اس تم کیا کررہے ہو؟و ہ بے حد فکر مندی سے بولی۔ اسے سفیر کی یہ حرکت عجیب سی لگی تھی۔

اپنے ٹوٹے مجسمے کوجوڑ رہا ہوں۔سفیر کا سارا دھیان مجسمے پر تھا۔

ٹوٹے…. کیایہ وہی مجسمہ ہے جو اس رات ….۔شہمین بے یقینی سے بولی۔ سفیر نے اثبات میں گردن ہلائی۔ وہ بڑی محویت سے مجسمے کے بکھرے ٹکڑے جوڑ رہا تھا۔

مگر یہ تمہیں ملے کہاں سے؟

اُس شام مجسمہ توڑنے کے بعد اس کے بکھرے حصے بہت دنوں تک میرے کمرے میں پڑے رہے۔ میںنے انہیں نہیں سمیٹا اور کوئی میرے کمرے میں بغیر اجازت جاہی نہیں سکتا تھا، تو انہیں سمیٹنا تو دور کی بات تھی، مگر چند روز بعد جب کمرے کا فرش مھے صاف نظر آیا، تو میں نے سیف سے ان کے متعلق پوچھا۔ اس نے بتایا کہ ممی نے ان ٹکڑوں کو سمیٹ کر اپنے پاس رکھ لیا ہے۔ میںنے یہ جان کر کوئی ردعمل ظاہرنہ کیا۔ شاید میرا لاشعور یہ ہی چاہتا تھا کہ ممی اسے سمیٹ کر اپنے پاس رکھ لیں۔ وہ کچرے میں نہ پھینکے جائیں،پھر میری ماں تو میرے کہے بغیر میری بہت سی باتیں سمجھ لیتی تھی۔ اس لیے وہ جان گئی تھی کہ میرے دل میں ایک دن پھر ان کی طلب پیدا ہوگی۔ میں ایک روز پھر انہیںمانگوں گا۔

شہمین وہیں ا س کے نزدیک فرش پر ہی بیٹھ گئی ۔ سفیر بے حد مہارت سے ہاتھ چلاتا سنجیدگی سے اسے بتارہا تھا۔

مگر تم اب اسے پھر کیوں جوڑ رہے ہو؟شہمین نے استفسار کیا۔

کیوں کہ اس کے بعد ہی، تو میں نے جانا کہ خالق کیا ہوتا ہے اور وہ اپنی تخلیق سے کیسی محبت کرتا ہے؟

مگر اس بت نے پہلے تمہیں بہکایا تھا سفیر۔

پہلا تو میں بہکا نہیں تھا خفا ہوا تھا اور میری خفگی کا اس مجسمے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ تو محض ایک بچے کی اپنے خالق سے ضد تھی۔ فرمائش تھی، التجا تھی یا خواہش تھی تم اسے جو بھی سمجھنا چاہو، مگر یہ مجسمہ اس سے تو محبت ہے مجھے اس نے مجھے زندگی کا ایک اہم سبق پڑھایا تھا اسے میں بکھرا ہوا نہیں چھوڑ سکتا۔

شہمین کو اس کے ساتھ رہنے کے بعداس بات کا اور زیادہ اندازہ ہورہا تھا کہ و ہ کس قدر پیچیدہ انسان ہے اور اس کے ساتھ زندگی کتنی مشکل گزرے گی۔

تم نے مجھے کبھی بتایا نہیں کہ تمہیں اللہ کی محبت کا یقین کیسے آیا؟

وہ اس کے چہرے کو تکتے ہوئے بولی۔

یقین۔اس نے کہہ کر ایک گہرا سانس لیا۔ پھر اس شام کی ساری کہانی شہمین کو سنا ڈالی۔ شہمین چند لمحے، تو کچھ بول ہی نہ سکی پھر یک دم ہی ہنس پڑی۔

کیا ہوا؟سفیر اپنے ہاتھوں پر لگی مٹی صاف کرتے ہوئے حیرت سے بولا۔ مجسمہ اب مکمل جڑچکا تھا، مگر اس پرپڑی دراڑیں بے حد واضح تھیں۔

میری ایک خوش فہمی دور ہوگئی۔

کیسی خوش فہمی؟

مجھے لگا تھا شاید تم میری وجہ سے اس سے واپس ملے ہو۔وہ قدر جھجکتے ہوئے بولی اور اس بار وہ ہنس پڑا تھا۔ پھر گردن کو نفی میں حرکت دیتے ہوئے بولا۔

ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا شہمین، میں چاہے اس سے خفا ہوں یا راضی دونوں ہی صورتوں میں ہمارے درمیا ن کسی تیسرے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ تمہاری بھی نہیں۔

شہمین کو اس کے طرز مخاطب پر رشک آیا تھا۔ وہ تو کبھی خدا کو ایسے نہ پکار سکی تھی جیسے وہ پکارتا تھا اور بس اس طرح کبھی ڈرتے کبھی مسکراتے وہ دس دن گزر گئے اور شہمین اور مسعود خا ن کے ویزوں کی میعاد ختم ہوگئی۔ آج ان کی واپسی تھی او ر وہ ابھی بھی کھڑکی میں کھڑی سفیرکی منتظر تھی۔ جب دروازہ کھول کر وہ کمرے میں داخل ہوا۔ دونوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور مسکرائے۔

فلائٹ کا ٹائم ہورہا ہے۔وہ چلتا ہوا اس کے نزدیک ہی آگیا اور اب کھڑکی کی پشت سے ٹیک لگائے باہر دیکھتا ہوا کہہ رہا تھا۔ سورج مکمل ڈوب چکا اور شام گہری ہونے لگی تھی۔

نہیں ابھی د س منٹ اور رُکا جاسکتا ہے۔وہ بھی اسے دیکھتے ہوئے بولی۔ سفیر اس بات پر مسکرایا۔

صحیح۔ ویسے سوچ کیا رہی ہو؟

یہی کہ تم کتنی جلدی بدل گئے ہو؟سفیر نے حیرت سے اسے دیکھا۔

بدل گیاہوں سے کیا مطلب؟

مطلب پہلے تم مجھے آنکھ سے دور کرنے پر ایک منٹ تیار نہیں ہوتے تھے اور اب میں اتنے دن کے لیے دور جارہی ہوں اور تم مسکرا رہے ہو۔

پہلے اور اب میں فرق بھی تو ہے نا، پہلے تم میری بیوی نہیں تھیں، مگر اب تم میری شریک حیات ہو۔ میں جانتا ہوں اب اگر تم دور بھی ہو تب بھی میری ہی ہو۔

وہ اسے خود سے قریب کرتے ہوئے بولا۔ شہمین نے پرشکوہ نگاہوں سے اسے دیکھا۔ جیسے اس کی بات کو کوئی بہلاوا سمجھ رہی ہو۔

میں یاد نہیں آں گی تمہیں؟اس نے اپنے دل کی تسلی کے لیے پوچھا۔

آگی بہت زیادہ یاد آگی۔سفیر ابھی کچھ اور بھی کہتا، مگر شہمین کے موبائل پر ہوتی رنگ سن کر خاموش ہوگیا۔ شہمین نے سائیڈ ٹیبل پر رکھے موبائل کو دیکھا۔

حماد عبید کا لنگ۔

وہ دیکھ کر مسکرائی تھی پھراس نے کال ریسیو کرلی تھی۔

تم بات کرکے باہر آجانا میں وہی انتظار کررہا ہوں۔وہ شہمین سے کہہ کر اس کے بالوں پر بوسا دیتا باہر آگیا تھا۔ شہمین فو ن پر کہہ رہی تھی۔ 

کیسی ہو نین؟

صدا کی بے پروا نین کا موبائل اس کے ولیمے والے دن کھوگیا تھا اور وہ اس کے بعد سے اپنے شوہر حماد کا نمبر استعمال کررہی تھی جو ان باپ بیٹی کے پاسحماد عبیدکے نام سے محفوظ تھا۔

سفیر اس کا ہینڈ کیری Revolveکرتا ہوا کوریڈور میں آگیا جہاں اس وقت صرف مسعود خان موجود تھے۔ باقی امل اور سیف باہر اپنے دوستوں کے پاس گئے ہوئے تھے۔ مبشر احمد پڑوس والے ڈیوٹ مارک سے کوئی ضروری بات کرنے ان کے گھر گئے تھے اور ذونی احمد کچن میں تھیں۔

ادھر آتھوڑی دیر ہمارے پاس بیٹھو سفیر پھر تو ہم چلے جائیں گے۔

مسعود خان نے اسے اپنے قریب صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ سفیر ہینڈ کیری سائیڈ میں کھڑا کرکے ان کے پاس آکر بیٹھ گیا۔

تھینکس انکل۔ آپ بہت اچھے انسان ہیں۔وہ ان کے برابر میں بیٹھا انہیں دیکھتے ہوئے بولا۔ مسعود خان نے تعجب سے ابرو اچکائی تھی۔

اور وہ کیوں؟

کیوں کہ آپ نے مجھ پر اس وقت احسان کیا جس وقت میں مکمل طور پر آپ کا محتاج تھا۔ اگر اس شام آپ مجھے اپنے گھر میں پناہ نہ دیتے ،تو اب تک تو شاید میں مر گیا ہوتا۔

وہ پہلے کبھی ان کا شکریہ ادا نہیں کرسکا تھا جب کہ وہ ہمیشہ سے ان کا شکر گزار رہا تھا۔

آپ کو پتا ہے میں نے آپ کو اپنے گھر کیوں رکھا تھا؟سفیر نے اپنا اندازہ بتایا۔

میری حالت دیکھ کر۔

بالکل…. اس لیے کبھی یہ بات غلطی سے بھی مت سوچ لینا کہ میں نے اپنی بیٹی کے عاشق کو اپنے گھر میں پناہ دی تھی۔ نہیں، ہرگز ایسا نہیں تھا بلکہ میں نے ایک ایسے مریض کو اپنے گھر پناہ دی تھی جس کی شفا اللہ نے میرے گھر میں رکھی تھی۔ تم اگر آکر اس شام مجھ سے یہ کہتے کہ میں آپ کی بیٹی سے محبت کرتا ہوں، تو میں تمہیں اپنے گھر میں پناہ نہیں دیتا بلکہ تمہارے متعلق معلومات جمع کرتا، تم ٹھیک ہوتے تو اپنی بیٹی کی اجازت سے تمہارا نکاح اس سے کردیتا، کیوں کہ ایک باپ کو اپنی بیٹی کا نکاح کسی نہ کسی سے تو کرنا ہی ہوتا ہے، تو جو خود سامنے آکر عزت سے مانگ رہا ہو، اس سے کرنے میں کیا برائی ہے جب کہ آج کل تو ہم اپنی بیٹیوں کا اشتہار بناکر ان کے ہاتھ میں چائے کی ٹرے تھما کرگاہکوںکو ڈرائنگ روم میں بٹھا کر ان کے سامنے پیش کرکے پوچھتے ہیں کہ صاحب پسند آئی یا نہیں؟

بولتے بولتے مسعود خان کا لہجہ شدت جذبات سے بے حد تلخ ہوگیا تھا۔ سفیر کو حیرت ہوئی اس نے پہلے کبھی مسعود خان کو اس لہجے میں بولتے نہیں سنا تھا۔ وہ اندازہ کرسکتا تھا کہ یہ بات ان کی طبیعت پر کس قدر گرا گزر رہی تھی۔

پتا ہے تمہیں اپنے گھر پر رکھنے پر ملنے ملانے والوں نے مجھ سے کیسی کیسی باتیں کہیں تھیں۔

انہوں نے سفیر سے پوچھا، مگر پھر اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر خود ہی آگے بولنے لگے۔

دیکھ لو بھائی دو دو جوان بیٹیاں ہیںتمہارے گھر میں یوں کسی اجنبی جوان لڑکے کو گھر میں رکھنا ٹھیک نہیں ہے۔

کچھ نے تو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ یہ جو تم کررہ ہو لوگ اس پر تمہیں بے غیرت کہیں گے مسعود، مگر تمہیں پتا ہے ان تمام باتوں کے باوجود میں نے تمہیں گھر سے کیوں نہیں نکالا؟

اس بار بھی وہ بغیر ا س کی سنے خود ہی بولتے چلے گئے۔

تمہارا احترام دیکھ کر اس شام جب شہمین نے تم سے کہا کہ یہاں سے چلے جاتو تم بغیر ایک لفظ کہے خاموشی سے چلے گئے اور اس رات جب تم نے کہا تھا جو کام اللہ نہیں کرسکتا وہ اس کا بندہ کیسے کرے گا۔ اس وقت تو تم نے میرے دل میں گھر کرلیا تھاسفیر اور میں تب ہی یہ فیصلہ کرچکا تھا کہ شہمین کا نکاح تم سے ہی کروں گا کیوں کہ مجھے یقین تھا جسے اللہ کی اس حد تک پہچان ہو وہ بچہ بر ا نہیں ہوسکتا۔ بھٹکا ہوا ضرور ہوسکتا ہے، لیکن برا نہیں اور دوسری اہم بات یہ تھی کہ مجھے اپنی تربیت پر بھروسا تھا، میں نے اپنی بیٹی کو اکیلے ملک سے باہر بھیجا تھا۔ اسے اگر مجھے دھوکا دینا ہوتا، تو تب ہی دے دیتی، مگر جو بیٹی گھر کے باہر دھوکا نہیں دیتی وہ گھر کے اندر بھی دھوکا نہیں دیتی۔ مجھے سمجھ نہیں آتا وہ لوگ اپنی بیٹیوں کو گھر کے باہر پڑھنے کیسے بھیج دیتے ہیں جب کہ اُنہیں پر اتنا بھی بھروسا نہیں ہوتا کہ وہ گھر کی چار دیواری میں رہ کر ان کی عزت کی حفاظت نہیں کرپائیں گی۔وہ افسوس سے گردن ہلاتے اب سانس لینے کو رکے۔

اصل میں ساری بات ہوتی ہے تربیت کی اور یقین مانو بیٹا مجھے نہیں لگتا کہ ماں باپ آج بھی اس لفظ کے مفہوم کو سمجھے ہیں۔ عمل کرنا، تو دور کی بات ہے۔ یہ عمر بن خطابؓ کی طرح اپنی رعایا کے خیال میں راتوں کو روپ بدل کر گشت کرنے کی سی مشقت ہے اور فاطمہ بنت محمدکے احترام میں ابنِ عبداللہ کے کھڑے ہوجانے کی سی عقیدت ہے، یہ کوئی آسان عمل ہرگز نہیں ہے۔

اور میں نے اپنی بیٹیوں کی تربیت کرنے کے لیے ایسے ہی گشت کیا ہے اور اسی طرح ان سے عقیدت رکھی ہے، مگر پتا ہے ا س کے بعد بھی میں یہ نہیں کہہ سکتاکہ میں نے ان کا حق ادا کردیا۔

وہ خاموش ہوئے تو سفیر بے ساختہ بول پڑا۔

پھر آخر ان کا حق ادا کیسے کیا جائے؟گفتگو تھی ہی اس نوعیت کی کہ مسعود خان بے حد سنجیدہ موڈ میں بیٹھے تھے، مگر سفیر کی بے ساختگی دیکھ کر اُنہیں ہنسی آگئی ۔

لڑکے کیا ابھی سے اپنی اولاد کی فکر ستانے لگی؟وہ مسکراتے ہوئے بولے۔

جی بالکل۔وہ بھی سفیر احمد تھا بغیر جھجکے پٹاق سے جواب آیا تھا۔ وہ بھی بتیسی دکھانے کے ساتھ۔ مسعود خان بھی قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔

وہ فکر میں گھلنے لگے۔سفیر نے ا ن کی بات پر تعجب سے ابرو اچکائی۔

پھر انکل صحیح کون ہے اور غلط کون؟وہ ساتھ ہی بولا ۔

کون نہیں کیا ، یہ دیکھو کس کی کیا بات صحیح ہے اور کیا غلط، کیوں کہ دونوںہی کسی مقام پر صحیح ہیں اور کسی مقام پر غلط۔انہوں نے کندھے اچکائے۔ سفیر تھوڑا اُلجھ گیا۔

یہ کیسے جانا جائے کہ کہاں کون صحیح ہے اور کون غلط؟

ویسے ہی جیسے تم نے یہ جانا تھا کہ اپنی تخلیق سے سب سے زیادہ محبت صرف ایک خالق کرسکتا ہے۔“ 

مسعود خان شہمین کی طرح اسے بھی انگلی پکڑ کر نہیں چلارہے تھے بلکہ اُسے دماغ سے سوچنے پر مجبور کررہے تھے۔

مطلب غور و فکر کرکے۔وہ سمجھ کر بولا۔

بالکل۔مسعود خان نے مسکرا کر اثبات میں گردن ہلائی۔

اور اگر غلطی ہوگئی تو؟اس نے بھی اس وقت بالکل شہمین کی طرح کہا اور مسعود خان نے اسے بھی وہی جواب دیا تھا جو شہمین کو دیتے تھے۔

تو ہم بیٹھے ہیں نا بتانے کے لیے۔

”Ok۔وہ عادتاً اپنے بالوں کاجوڑا باندھتا ہوا بولا، مسعود خان نے محبت سے اس کی لمبی زلفوں کو دیکھا اور ان دونوں سے الگ شہمین اندر کمرے میںکھڑی چھڑتی شام کا منظر دیکھتے ہوئے یہ سوچ رہی تھی کہ یہ شام ناجانے اب کب تک اس کی زندگی میں رہے گی اور کتنے دن اسے اس دھوپ کا انتظار کرنا ہوگا جو ان پتوں پر جمی برف کی طرح ہجر کے لمحوں کو اس کی زندگی سے قطرہ قطرہ پگھلا کر بہادے گی۔ آخرکب تک؟

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

گل موہر اور یوکلپٹس

Read Next

اوپرا ونفرے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!