المیزان

تم کل سے میرے گھر کے باہر کیوں بیٹھے ہو۔کچھ لمحے اس سارے معاملے کو سوچنے کے بعد شہمین نے اکرم خان کو بھیج کر سفیر کو گھر بلالیا۔ وہ ا س سے بات کرکے یہ مسئلہ حل کرنا چاہتی تھی۔

تمہیں دیکھنے کے لیے۔سفیر اسے اپنی نیلی آنکھوں سے تکتے ہوئے بولا، اس کا لہجہ آج بھی دھیما تھا۔

کل تم نے دیکھا، تو تھا مجھے۔شہمین نے سخت لہجے میں کہا۔

ہاں لیکن میںنے بتایا تھانا کہ میں ہمیشہ دیکھنا چاہتا ہوں ۔ اگر اس مقدار میں کمی ہوئی تو میں مرجاں گا۔وہ بے بسی سے بولا۔

سفیر یہ اسٹیٹ نہیں پاکستان ہے، یہاں کوئی لڑکا کسی لڑکی کے گھر کے باہر یوں نہیں بیٹھتا۔شہمین نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔

پھر کس طرح بیٹھتا ہے ، تم مجھے وہ بتادو ، میں ویسے بیٹھ جاں گا۔سفیر نے سہولت سے کہا۔

اُف ۔شہمین نے ایک گہرا سانس لے کراپنا غصہ قابو کیا پھر بولی۔ 

یہاں ایسے ویسے کیسے بھی کوئی لڑکا کسی کے گھر کے باہر نہیں بیٹھتا، یہاں یہ سب چیزیں اچھی نہیں سمجھی جاتیں۔

پھر یہاں اس بیماری کا کیا علاج ہے؟ کیا کسی اور طرح کئیرہوسکتی ہے؟وہ پرامید ہوا تھا۔

تم بیمار نہیں ہو سفیر، بالکل ٹھیک ہو۔شہمین نے اسے عقل دلانی چاہی۔

میں ہوں…. تمہیں نہیں معلوم۔وہ چڑکر بولا۔ شہمین پریشان ہونے لگی۔ اسے یہ مسئلہ باتوں سے حل ہونے والا نہیں لگ رہا تھا، پھر کیا لاتوں کا استعمال کیا جائے؟ اس نے سوچا پھر سرجھٹک دیا۔

اچھا ویزا کتنے دن کا ہے تمہارا۔شہمین کو یک دم ہی خیال آیا تھا۔

پندرہ دن کا۔سفیر نے اپنے دائیں کندھے پر لٹکا ایک چھوٹا سا تھیلے نما بیگ اتارتے ہوئے کہا۔

ویزا پندرہ دن کا ہے رہنا تم ہمیشہ کے لیے چاہتے ہو، پتا بھی ہے بغیر ویزا کسی ملک میں رہنے والوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے۔شہمین چڑ کر بولی۔

وہ بعد کی بات ہے…. میں پندرہ دن تو تمہیں دیکھ سکتا ہوں۔سفیر کا انداز بےپروا تھا جب کہ شہمین کو اب معاملہ بے حد سنگین معلوم ہونے لگا تھا۔

سفیر یہ سوائے حماقت کے اور کچھ نہیں ہے۔

شاید ہو لیکن میں کیا کروں۔ میں یہ حماقت کرنے کے لیے مجبور ہوں۔ میرا خود پر کوئی اختیار نہیں رہتا۔ میں چاہ کے بھی خود کو نہیں روک سکتا۔وہ اب بے بسی کی انتہا کو چھو رہا تھا۔

اُف ! کیا کروں۔اس نے ایک گہرا سانس لے کر سر صوفے کی پشت سے ٹکا لیا۔

صحیح ، غلط میں سیکھاں گا، لیکن فیصلہ آپ کا ہوگا۔مسعود خان کے الفاظ نے اس کے کان میں سرگوشی کی تھی، اس نے اپنی آنکھیں کس کر بھینچ لیں۔

صحیح یہ ہے کہ تم اسے اسی وقت گھر سے نکال دو۔ضمیر اس سے بولا تھا۔

لیکن پھر وہ جائے گا کہاں؟شہمین نے کہا۔

کہیں بھی جائے یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔انداز میں سختی تھی۔

لیکن وہ یہاں میری وجہ سے آیا ہے۔شہمین نے جواز دیا۔

ہاں ! مگر تم نے اسے نہیں بلایا۔ضمیر نے اسے آئینہ دکھایا۔

لیکن وجہ تو میں ہی تھی نا۔شہمین نے پھر جواز دیا۔

اچھا پھر اس طرح کتنےسفیروںکو اپنے گھر میںجگہ دوگی۔ضمیر نے طنز کیا۔

گھر میں جگہ۔وہ چونکی تھی۔

میں اسے گھر میں تو جگہ نہیں دے رہی۔اس نے بولا تھا۔

پھر یہ کیا کررہی ہو۔ضمیر پوچھ رہا تھا۔

میں تو بس اس مسئلے کو حل کرنا چاہ رہی ہوں۔

ہاں تو اس کا سیدھا سا حل یہ ہے کہ اسے گھر سے باہر نکال دو، ہوگیا مسئلہ حل۔ضمیر نے سہولت سے کہا۔

پچھلی بار نکالا تھا، مگر اس سے تو مسئلہ حل نہیں ہوا تھا۔شہمین تپ کربولی۔

پھر مسئلے کا حل کیا ہے۔ضمیر نے پوچھا۔

وہ اپنے ملک واپس چلا جائے۔شہمین نے بتایا۔

لیکن وہ تو جانے کے لیے رضا مند نہیں ہے۔

میں اسے اس بات پر ہی تو راضی کرنا چاہتی ہوں۔

اور یہ تم کیسے کروگی؟ اسے گھر میں رکھ کر؟ضمیر نے پھر طنز کیا۔

میں نے کہا نا میں اسے گھر میں رکھنے کا نہیں کہہ رہی۔شہمین جھلائی تھی۔

دیکھو دوسروں کی مدد کرنا اچھی بات ہے ، لیکن اس مدد کے لیے خود کو مشکل میں ڈال دینا یہ حماقت ہے۔

کیسی مشکل۔شہمین چونکی۔

وہ ایک نامحرم ہے اور مذہب تمہیں اس سے کسی تعلق کی گنجائش نہیں دیتا۔

پر وہ ہی مذہب یہ بھی تو کہتا ہے کہ زندگی بچانا واجب ہے، میدان کربلا میں جب مسلمانوں کے خیموں کو آگ لگ رہی تھی، تو وہ پاک بیبیاں یہاں بھی جان بچانے کی غرض سے اپنے خیموں سے باہر آگئیں تھیں اور ، میری پاک دامنی تو ان کے آگے ایک ذرے کی سی حیثیت بھی نہیں رکھتی۔

پھر کیاکروگی؟ سارے جہاں کو ترک کرکے اس کے سامنے سج کر بیٹھ جاگی کہ وہ مرے نہ۔اُنہہ۔

تم فضول مت بولو۔شہمین کو برا لگا۔

تو تم عقل کی بات کرلو نا۔ضمیر بھی چڑ گیا تھا۔

میں ان پندرہ دنوں میں اسے کسی بھی طرح واپس جانے پر قائل کرلوں گی۔

اور یہ پندرہ دن وہ کہاں گزارے گا۔ضمیر کی سوئی پھر اسی نقطے پر آگئی تھی۔

جہاں بابا کہیں گے۔‘ ‘ شہمین مطمئن سی بولی۔

پھر ٹھیک ہے۔ضمیر بھی خاموش ہوگیا۔

شہمین بیٹی…. صاحب کہہ رہے ہیں انہیں بھوک لگ رہی ہے۔اکرم خان کی آواز پر شہمین نے آنکھیں کھولیں تھیں، اس کے سامنے بیٹھی وہ نیلی آنکھیں ابھی بھی اسے تکنے میں مصروف تھیں۔

اکرم چاچا آپ کھانا لگائیں میں آرہی ہوں۔اس نے اکرم خان سے کہہ کر سفیر کی جانب دیکھا تھا۔

میں۔وہ کچھ کہتے کہتے رکی تھی۔

تم نے کل سے کچھ کھایا ہے؟اسے یک دم ہی خیال آیا، سفیر نے معصومیت سے نفی میں گردن ہلائی تھی۔

کیوں؟ Addiction کے وقت ڈاکٹر نے کھانے سے بھی منع کیا تھا کیا؟شہمین بلا ارادہ ہی طنز کرگئی۔ سفیر سرجھٹک کر کرب سے مسکرایا تھا۔

میں کھانا بھجوا رہی ہوں کھالینا۔وہ کہہ کر اٹھنے لگی، تو سفیر بے چین ہوگیا۔

میں چوبیس گھنٹے تمہارے سامنے بت بن کر نہیں بیٹھ سکتی، اس لیے سکون سے بیٹھے رہو۔وہ غصہ سے کہہ کر آگے بڑھ گئی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

گل موہر اور یوکلپٹس

Read Next

اوپرا ونفرے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!