المیزان

چوتھا باب:

وہ پتلون کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے بے حد مسرور انداز میں چل رہا تھا۔ فجر کی نماز کے بعد وہ گھر لوٹ رہا تھا۔ سفیر کو پاکستان سے آئے کم و بیش سات ماہ ہو گئے تھے اور اب جیسے جیسے ایک سال مکمل ہونے کو آرہا تھا۔ وہ بے حد خوش رہنے لگا تھا۔

وہ ابھی بھی اسٹریٹ لائٹ کی مدھم روشنی میں وصل یار کے حسین خیالوں میں گم آگے بڑھ رہا تھا جب یک دم ہی اس کے عقب سے کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ سفیر نے چونک کر مڑ کر دیکھا ۔

“Please save me, I need shelter.”

وہ کوئی پچیس چھبیس سالہ انگریز لڑکا تھا جو بے حد گھبراتے ہوئے بار بار مڑ کر پیچھے دیکھ رہا تھا۔ 

اس سے پہلے کہ سفیر اس سے کچھ پوچھتا یا اس کی بات سمجھنے کی کوشش کرتا گولی چلنے کی آواز آئی۔ سفیر بوکھلا کر فوراً ہی دائیں جانب والی گلی میں دوڑا تھا۔ تب ہی اس نے گولی چلنے کی دوسری آواز سنی تھی۔ 

سفیر اس گلی میں کھڑی ایک گاڑی کی اوٹ میں چھپ گیا۔ پہلی گلی میں اب تیزی سے دوڑتے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی تھی۔ وہ علاقہ مکمل سنسان تھا۔ اس لیے آواز بہت گونج رہی تھی۔ سفیر نے گاڑی کی اوٹ میں چھپے چھپے ذرا سی گردن آگے کرکے دیکھنے کی کوشش کی کہ آخر وہاں ہوکیا رہا ہے اور اس نے جو منظر دیکھا وہ دنگ رہ گیا تھا۔ 

وہ لڑکا وہیں روڈ پر زخمی پڑا تھا اور دو انگریز اس کی جانب لپک رہے تھے۔ ان میں سے ایک کے ہاتھ میں گن تھی۔ گولی یقینا اُسی نے چلائی ہوگی ۔ وہ دونوں اب اس زخمی لڑکے تک پہنچ چکے تھے اور ان میں سے وہ آدمی جس کے ہاتھ خالی تھے اس زخمی پڑے لڑکے کو لاتیں ماررہا تھا۔

تم نے یہ سوچا بھی کیسے کہ ہم تمہیں اتنی آسانی سے چھوڑ دیں گے؟ تم نے ہمارے پرکھوں کی عز ت مٹی میں ملادی ۔ سب ہم پر ہنس رہے ہیں اب جب تک ہم تمہیں مٹی میں نہیں ملادیںگے۔ ہمیں چین نہیں آئے گا۔وہ غضب ناک ہوکر بولا۔ پھر اس نے لڑکے کا کالر اپنی مٹھی میں دبو چا اور کہا ۔

میں تم سے آخری بار پوچھتا ہوں۔ تم اسلام ترک کروگے یا تمہیں ہلاک کردوں؟

میں کبھی ایسا نہیں کروں گا بلکہ میں آج بھی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کہ سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔وہ زخمی لڑکا شدید تکلیف کے باوجود بے خوفی سے چلا کر بولا، تو گاڑی کی اوٹ میں چھپے بیٹھے سفیر کو اپنی روح تک میں کپکپاہٹ سی محسوس ہوئی۔

اچھا تو ٹھیک ہے اب میں تمہیں بتاتا ہوں کہ اپنے مذہب اور آباءاجداد سے غداری کی سزا کیا ہوتی ہے۔اس بار بھی وہ خالی ہاتھ والا آدمی ہی بولا تھا۔ پھر اُس نے لڑکے کاکالر مزید دبوچ کر اُسے اپنے قریب کیا اور پھر اچانک ہی اس کے گلے پر اپنی جیب سے نکالا خنجر پھیر دیا۔ یک دم ہی وہ لڑکا بے ساختہ بلند آواز میں چلایا تھا۔

یا اللہ۔اور خون ایک فوارے کی صورت اُس کی شہ رگ سے پھوٹ کر قاتل کے چہرے پر گرا جسے اس آدمی نے آستین سے صاف کرتے ہوئے دوسرے ہاتھ میں پکڑا اس کا کالر چھوڑ دیا۔ دوسرا آدمی مستقل گالیاں بکتے ہوئے اُسے گولیوں سے چھلنی کررہا تھا اور پھر بھی اُن کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا تھا۔ اس کے بعد پہلے آدمی نے اپنی جیب سے شراب کی بوتل نکال کر اس لڑکے پر اُنڈیلی اور پھر جلتا ہوا لائٹر اس پر اُچھال کر وہ دونوں وہاں سے فرار ہوگئے۔

یہ تمام منظر دیکھ کر گاڑی کی اوٹ میں چھپے سفیر کو اپنے جسم سے جان نکلتی محسوس ہورہی تھی۔ اسے ٹھنڈے پسینے آرہے تھے اور پورے بدن پر لرزہ طاری تھا۔ اس کے حلق سے دبی دبی چیخیں نکل رہی تھیں جنہیں دبانے کے لیے اس نے اپنی گردن کے گرد لپٹے مفلر کو اپنے منہ میں ٹھونس لیا۔ سفیر نے اس تمام واقعے کے دوران لڑکے کو بچانے کا سوچا بھی، مگر خوف کی شدت اس قدر تھی کہ اس سے اٹھنا تو درکنار ہلا بھی نہیں گیا تھا۔

وہ لڑکا ابھی بھی تڑپ رہا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کا وجود بالکل ساکت ہوگیا۔ اس کے جسم سے جان نکل چکی تھی۔ تب ہی سفیر کو پولیس وین کا سائرن سنائی دیا پھر وین گلی میں آتی دکھائی دی جس سے نکلے کچھ سپاہی دو آدمیوں کے تعاقب میں آگے بڑھ گئے اور کچھ اس لڑکے کے مردہ وجود کو اٹھا کر وین میں رکھ رہے تھے۔ پھر چند لمحوں بعد وہ دونوں گاڑیاں وہاں سے چلی گئیں اور گلی ایک بار پھر سنسان ہوگئی تھی۔ سفیر ابھی تک اسی کیفیت میں اپنی جگہ دبکا ہوا تھا حالاں کہ وہ فوراً وہاں سے اٹھ کر بھاگ جانا چاہتا تھا، مگر اس کی ہمت ہی نہیں ہورہی تھی۔ چند لمحوں بعد اس نے خود پر قابو پالیا اور وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ اب باقاعدہ گلی میں دوڑتا ہوا گھر کی جانب بڑھ رہا تھا۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

گل موہر اور یوکلپٹس

Read Next

اوپرا ونفرے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!