المیزان

“I didn’t feel good last night that’s why

I couldn’t talk to you…. But can we talk now? 

I have a good news to share.”

سفیر نے My Addiction کے نام سے کھلے انباکس میں دیے گئے اپلائی کے آپشن میں ایک تفصیلی میسج لکھ کر سینڈ کیا۔ پھر موبائل اپنی جینز کی جیب میں اڑستا اپنے راستے پر آگے بڑھنے لگا۔

ڈھلتی عصر کا وقت اور سورج کی مدھم ہوتی شعاعیں دور عمارتوں اور درختوں کی چوٹیوں پر پڑرہی تھیں۔ موسم میں خنکی اب بھی تھی، مگر گزشتہ روز سے قدرے کم، وہ سفر میں تھا۔ ابھی بیس منٹ اسے مزید سفر میں رہنا تھا۔ سفیر نے دونوں ہاتھ جینز کی جیبوں میں ڈال لیے اور پُرسوچ انداز میں روڈ کو تک رہا تھا۔

نہ تو مجھے مذہب کو پڑھنا ہے، نہ ہی اُس پر عمل کرنا ہے اور نہ خدا سے بات کرنی ہے۔ مجھے تو محض ان سب کی اداکاری کرنی ہے۔ کیوں کہ وہ تو میرا ظاہر دیکھ رہی ہے۔ باطن کا اُسے کیا علم؟ اور جس کے پاس باطن کا علم ہے اُسے یہ سمجھانے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ میں یہ کیوں کررہا ہوں۔

منافقت میری فطرت کا حصہ نہیں ہے، لیکن شہمین ۔ اس کے لیے تو میں کچھ بھی کرسکتا ہوں۔وہ کل سے ایک مخمصے کا شکار تھا اور بالآخر اب وہ فیصلہ کرچکا تھا۔منافقت کا۔

اس نے ایک گہر اسانس لے کر سراٹھایا اور تب ہی وہ اچانک سے سامنے آئے پتھر کی ٹھوکر لگنے سے گرتے گرتے بچا تھا۔ سفیر نے سنبھلتے ہوئے غصے سے اس پتھر کو دیکھا اور اسے ایک زور دار ٹھوکر ماری…. پتھر اُچھل کر دور جاگرا تھا۔

چند لمحے اور مسافت کے بعد وہ بالآخر اپنی منزل تک پہنچ گیا۔ اس نے اپنا جھکا سراُٹھا کر اوپر دیکھا۔ عصر کا وقت ڈھل چکا تھا اور اس چھوٹی مسجد سے مغرب کی اذان کی صدا آ رہی تھی۔ سفیر نے یک دم ہی اپنی مٹھیاں کس کر بند کی تھیں اُسے اپنے جسم پر موجود رواں رواں اذان کی سمت کھینچتا ہوا محسوس ہوا تھا۔

مجھے صرف اداکاری کرنی ہے۔وہ خود سے کہتا کپکپاتے جسم کے ساتھ آج بائیس سال بعد اُسی مسجد میں داخل ہورہا تھا جہاں اُس نے اپنی زندگی کی پہلی نماز ادا کی تھی۔

و ہ مغرب ادا کرنے آئے نمازیوں کے ساتھ صف میں بیٹھنے کے بہ جائے مسجدکے وسط میں رکھے ایک بڑے سے بک ریک کے قریب آگیا۔ جس میں ڈھیروں ڈھیر کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ سفیر نے اپنے جسم کی کپکپاہٹ پر قابو پاتے ہوئے ریک میں رکھی ایک کتاب اٹھائی اور اسے بڑی احتیا ط سے پکڑے ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ اس نے کتاب کی فہرست میں اپنی مطلوبہ شے ڈھونڈی۔

نماز اور وضو کا طریقہ۔ صفحہ نمبر ۱۴۔

اس نے صفحے تیزی سے پلٹے اور صفحہ نمبر ۱۴پر آگیا۔ چند لمحوں میں تین چار صفحے پڑھے، پھر کتاب واپس اسی جگہ پر رکھ کر دوسرے کونے میں وضو خانے کے نزدیک آگیا۔ وہاں نل کے بالکل سامنے بیٹھنے کے لیے ایک چبوترا سا بنا ہوا تھا۔ سفیر جوتے اتار کر شرٹ کی آستین موڑتا اس پر بیٹھ گیا۔ سفیر ایک دو لمحے مضطرب سی کیفیت میں نل کو تکتا رہا۔ پھر سرجھٹک کر بالآخر وضو کرنا شروع کردیا۔ وہ وضو کرکے پلٹا، تو وہ اس کے عقب میں کھڑے تھے۔ سفید کرتا شلوار پہنے امامہ سر پر باندھے، سرمئی آنکھوں سے مسکراتے ہوئے اسے ہی تک رہے تھے اور سفیر بالکل وساکت کھڑا تھا۔

یہ واپسی تمہیں مبارک ہو بچے۔ان کا لہجہ سفیر کی طرح دھیما تھا، مگر اس سے زیادہ ٹھہرا ہوا تھا۔ اسفندیار خان نے اسے اپنے بازو میں بھر کر، اس کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہا تھا۔ وہ اب اُسے خود سے الگ کررہے تھے۔ وہ اس کے سامنے ہوئے تو سفیر نے ان کا چہرہ دیکھا۔ اسے بالکل احساس نہیں تھا کہ اس کی آنکھوں کے گوشے نم ہونے لگے ہیں۔

آپ آج بھی یہاں ہوتے ہیں۔وہ بہ مشکل بول پایا تھا۔

بالکل۔اسفندیار اثبات میں نے سرہلایا۔ وہ گزشتہ ستائیس سالوں سے اس مسجد کے امام تھے۔ مطلب سفیر کی زندگی کے حسین وقت کی ایک بہتر ین یاد…. وہ اُنہیں دیکھ کر ساکت نہ ہوتا، تو اور کیا کرتا؟

نماز ادا کرلو بچے وقت نکل رہا ہے۔وہ سفیر کی آنکھوں سے نمی صاف کرتے ہوئے بولے۔ سفیر اثبات میں سرہلا کر میکانکی انداز میں آگے بڑھنے لگا۔ جب وہ مزید بولے تھے۔

بائیس سالوں سے ہم نے بات نہیں کی ہے…. تم سوچ کر مجھے وقت دینا کہ ہم بات کب کرسکتے ہیں۔ان کے الفاظ سے سفیر کے دل کو کچھ ہوا۔ اس نے پھر خاموشی سے اثبات میں سرہلا دیا۔ وہ اب مسلے پر کھڑا تھا۔ اس نے نیت باندھی، پھر تکبیر کہی تھی۔ 

اللہ اکبر۔

اسے یک دم ہی یوں محسوس ہوا تھا جیسے کسی نے تیز نوکیلا خنجر اس کے دل کے پار کردیا ہو اور اس کا دل درد کی شدت سے پاش پاش ہوگیا ہو۔

اب وہ الحمدللہ پڑھ رہا تھا اور وہ جو اداکار ی کرنے کھڑا ہوا تھا اسے بالکل اندازہ نہیں تھا اس کی آنکھوں سے جو پانی بہ رہا ہے،وہ اداکاری نہیں۔

اسفندیار خان دور کھڑے مسکراتے ہوئے اس کے بھیگے چہرے کو دیکھ رہے تھے۔ 

وہ بلاناجانتا ہے بچے …. تو کیسے نہ آتا۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

گل موہر اور یوکلپٹس

Read Next

اوپرا ونفرے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!