المیزان

وہ گھر کا مرکزی دروازہ کھول کر باہر نکل رہا تھا۔ جب اس کے عقب سے ذونی احمد بولیں تھیں۔کہاں جارہے ہو۔وہ پریشان تھیں۔

مسجد۔سفیر سپاٹ لہجے میں کہہ کر باہر نکل گیا۔ جب کہ کچن کانٹر کے پاس کھڑی ذونی احمد اپنی جگہ ساکت رہ گئیں تھیں۔

سفیر کو مکمل طور پر صحت یاب ہونے میں پورے دو دن لگے تھے اور ان گزشتہ دنوں وہ ہر شے سے کٹ کر اپنے کمرے میں بند رہا۔ یہاں تک کہ شہمین سے بھی۔

یہ اب سے کچھ دیر قبل کی بات تھی جب سفیر اپنے بیڈ پر چت لیٹا اس لڑکے کے متعلق سوچ رہا تھا۔ جسے نہایت بے دردی سے قتل کردیا گیا تھا۔ جب اچانک ہی اس کے ذہن میں جھماکے کے ساتھ کوئی خیال آیا جس کی صداقت کو پرکھنے کے لیے اس نے اپنے برابر میں رکھی چھوٹی میز کی جانب دیکھا اور پھر اُسے جیسے اپنی بینائی پر شبہ سا ہوا تھا۔ اس کی پژمردگی یک دم ہی غائب ہوگئی اور وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ اس نے میز پر رکھی چیزوں کو ہاتھ مار کر ادھر اُدھر کیا، مگر اپنی مطلوبہ شے نہ پاکر اسی بوکھلاہٹ میں بیڈ سے نیچے اتر گیا۔ اس نے میز کے اردگرد دیکھا، تو وہ چوڑی پٹی والا فریم جس میں شہمین کی تصویر تھی وہ دائیں جانب فرش پر اوندھا پڑا ملا۔ سفیر نے تیزی سے فریم اٹھایا اور بوکھلاہٹ کے باعث تیز ہوتے تنفس کے درمیان اس تصویر کو بے تحاشا چومتے ہوئے اپنے سینے سے لگالیا۔

دو دن۔ پورے دو دن ۔ میں کیسے اُسے دیکھے، سوچے بغیر زندہ رہ لیا؟

کیا وہ Addiction وقتی تھی؟ کیا اب اس کی طلب میرے دل سے ختم ہوگئی ہے۔وہ فرش پر اکڑوں بیٹھا، اس تصویر کو سینے سے لگائے بے یقینی کے عالم میں سوچ تارہا اور پھر کتنی ہی دیر ایسے ہی بیٹھا سوچتا رہا تھا۔

پھر اس نے وہ تصویر بے حد احتیاط سے واپس اُسی جگہ پر رکھی اور کمرے سے باہر آگیا۔ ذونی احمد کے سوال کا جواب دے کر گھر سے باہر نکل گیا جب کہ اس کے پیچھے کھڑی ذونی احمد بالکل ساکن رہ گئیں تھیں ۔

انہیں گزشتہ چند ماہ سے سفیر کے انداز میں کچھ تبدیلیاں محسوس ہورہی تھیں، مگر اس کے باوجود وہ یہ بات نہیں سوچ سکتیں تھیں کہ وہ پھر سے مسجد جانے لگا ہے۔ یہاں تک کہ جب ایک پورا دن سفیر کو مسجد میں غیر حاضر پاکر اسفند یار اس کی خیریت دریافت کرنے گھر آئے تھے۔ تب بھی ذونی احمد اور مبشر احمد اس بات پر یقین نہیں کر پارہے تھے کہ وہ واقعی مسجد جانے لگا ہے، مگر اب سفیر کے خود اقرار کرنے کے بعد ذونی احمد مکمل سکتے میں آگئیں تھیں۔

بائیس سال ایک لمبا عرصہ ہوتا ہے، کیا اتنے طویل عرصے کے بعد بھی واپسی ممکن تھی؟ اور پھر لوٹنے کی وجہ کیا بنی؟وہ کچن کانٹر کے پاس کھڑی ابھی بھی سوچ رہی تھیں۔ دس منٹ سفر میں رہنے کے بعد سفیر اب اس چھوٹی سی مسجد کے سامنے کھڑا تھا۔ اس نے آج بھی ہمیشہ کی طرح سراٹھا کر مسجد کے منار کو دیکھا۔ جس کے ساتھ لگے لاڈ اسپیکر سے مغرب کی اذان کی صدا گونج رہی تھی۔ سفیر نے عادتاً اپنی مٹھیاں کس کر بھینچی تھیں۔ اسے آج بھی اپنے جسم کا رواں رواں اذان کی سمت کھینچتا ہوا محسوس ہوا تھا، مگر آج اس نے خود سے کوئی اعتراف نہیں کیا بلکہ وہ خالی دل کے ساتھ مسجد میں داخل ہوا تھا۔ مغرب کی ادائیگی کے بعد وہ وہیں مسجد کے ایک قدرے خاموش کونے میں بیٹھ گیا۔ جہاں سے دور اُفق پر چڑھتا چاند واضح نظر آرہا تھا۔ سفیر خاموش سرجھکائے بیٹھا تھا جب اسفند یار اپنے کاموں سے فراغت پاکر اس کے نزدیک ہی آکر بیٹھ گئے۔

میں دو روز مسجد نہیں آیا، تو آپ نے یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کی کہ میں زندہ ہوں یا مر گیا ہوں۔سفیر نے ہنوزسرجھکائے اسفندیار سے شکوہ کیا۔ اسفندیار دھیما سا مسکرائے تھے۔

یہ اتفاق تھا کہ ان دنوں اسفند یار اس سے جتنی بار بھی ملنے آئے وہ سو رہا تھا اور گھر میں سے بھی کسی نے اسے ان کی آمد کا نہیں بتایا تھا۔

اوہ تو خفا ہو ہم سے۔اسفند یار نرمی سے بولے۔

جی۔

حالاں کہ ہم تو ملنے آئے تھے، تم سو رہے تھے۔ اس لیے تمہیں ہمارے آنے کی خبر نہیں ہوئی۔انہوں نے بتایا، تو سفیر نے گردن اٹھا کر انہیں دیکھا۔

مگر مجھے تو کسی نے آپ کے آنے کا نہیں بتایا۔

شاید بھول گئے ہوں گے۔

اچھا….“ وہ کہہ کر خاموش ہوا پھر دوبارہ بولا۔آپ پوچھیں گے نہیں مجھے ہوا کیا تھا۔

تمہاری ممی نے بتایا تھا تمہیں بخارتھا۔اسفند یار آہستگی سے بولے۔

مگر یہ تو نہیں بتایا کہ بخار کیوں ہوا۔

تو یہ تم بتادو۔اسفندیار کو اندازہ ہوگیا تھا جیسے وہ ان سے کچھ کہنا چاہ رہا ہے، مگر کہہ نہیں پارہا اور اگر سفیر احمد کے لیے اپنی بات کا اظہار کرنا مشکل ہورہا تھا، تو یقینا واقعہ بڑا ہی سنگین تھا۔

اس دن فجر کے بعد جب میں گھر لوٹ رہا تھا، تو مجھے وہ لڑکا ملا تھا۔

سفیر نے اُس دن کا سارا واقعہ اسفندیار کو سنادیا۔ وہ اپنے والدین کو بھی بتانا چاہتا تھا، مگر ان سے بات کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔

پھر؟اسفندیار واقعہ سن کر دھیمے سے بولے۔ سفیر نے حیرت سے ان کے مطمئن چہرے کو دیکھا۔

انکل آپ کو ذرا بھی دکھ نہیں ہوا اس لڑکے کی موت کا؟

تم نے مجھے یہ اس لیے بتایا تاکہ میں اس کے لیے دکھی ہوں؟سفیر کو ان سے اس ردعمل کی توقع نہیں تھی۔ وہ گڑبڑ اگیا۔

نہیں۔

پھر کیوں بتایا؟“ 

کیوں کہ یہ واقعہ میں آپ سے شیئر کرنا چاہتا تھا۔سفیر کی آواز دھیمی تھی۔

وہ ہی پوچھ رہا ہوں ۔ کیوں تمہارا دل یہ چاہا کہ تم مجھے یہ بتا۔

شاید میں کسی کے سامنے اپنے گناہ کا اقرار کرنا چاہتا تھا…. کہ اس لڑکے نے مجھے مدد کے لیے پکارا۔ میں اس کی مدد کر بھی سکتا تھا، مگر میں نے اس کی مدد نہیں کی۔وہ بے حد شرمندہ تھا۔

کیسے کرتے تم اس کی مدد…. وہ مسلح تھے اور تم کیا کرلیتے؟اسفندیار نے اس سے پوچھا۔

شاید نہتا ہونے کے باوجود بھی کچھ کرلیتا۔اسے رہ رہ کر پچھتاوا ہورہا تھا۔

میرا نہیں خیال کہ تم نے کچھ غلط کیا ہے۔ بہت سے لمحے ایسے آتے ہیں جہاں دوسرے ہم سے مدد مانگتے ہیں اور ہم ان کی مدد کرنا بھی چاہتے ہیں، مگر ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے اور ایسی صورت حال میں جذباتی ہوکر نہتا میدان میں اترجانا حماقت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔“ 

اسفند یار نے اسے سمجھانے کی کوشش کی، مگر سفیر پھر بھی مطمئن نہیں ہوا، تو وہ کہنے لگے۔

لیکن اگر پھر بھی تمہیں لگتا ہے کہ تم نے غلط کیا تو آئندہ ایسی صورت حال میں پیچھے نہ ہٹنا۔ شاید اس کام کے لیے تمہیں چنا گیا ہو اس لیے اس کی تڑپ تمہارے دل میں بڑھائی جارہی ہے۔

انکل اُنہوں نے کیوں اسے اتنی بری طرح مارا۔یہ ایک بچگانہ سوال تھا، لیکن خیر انسان ایسی بچگانہ حرکتیں کرتا ہی رہا ہے۔

کیوں کہ اس نے اپنے آباءاجداد کا مذہب چھوڑا تھا۔اسفند یار نے اسی کے الفاظ دہرائے۔

ان آدمیوں نے آخری وقت تک اس سے کہا تھا کہ وہ اسلام ترک کردے۔ انہوں نے اسے وارننگ بھی دی مگر میں نے اسے کہتے سنا تھا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔اسے بات کرتے ہوئے بالکل اندازہ نہیں رہا کہ اس کی آنکھیں اور لہجہ کتنا بھیگ چکا تھا۔

انکل اس نے مذہب کے لیے اپنی جان قربان کردی۔وہ شاید بے یقین ہورہا تھا۔ 

بالکل…. اس نے اس ہی مذہب کے لیے اپنی جان قربان کردی جسے تم بائیس سال سے بھولے بیٹھے ہو۔اسفندیار کا لہجہ طنزیہ نہیں تھا، مگر سفیر کو اُن کی بات خنجر کی طرح دل کو چیرتی محسوس ہوئی۔

سفیر تم نے وہ مشہور کہاوت سنی ہے، جو چیز انسان کو بغیر مانگے مل جائے اسے اس کی قدر نہیں رہتی۔ بالکل یہ ہی مسئلہ ہم مسلمانوں کے ساتھ بھی ہے۔ یہ مذہب ہمیں بغیر کسی جدوجہد کے مل گیا۔ اس لیے ہم اسے اپنا حق سمجھنے لگے ہیں۔ جیسے یہ تو ہمیں ملنا طے تھا۔ ہم اس جانب سوچتے ہی نہیں کہ اگر اللہ ہمیں مسلمان پیدا نہ کرتا، اگر ہماری نسبت حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے نہ ہوتی تو؟ تو ہم کیا کرلیتے؟ کچھ بھی نہیں وہ لڑکا محض اس لیے ہلاک کردیا گیا کیوں کہ اس نے اسلام قبول کیا تھا مگر اسی اسلام کو ماننے پرکوئی تمہیں اور مجھے کیوں نہیں ہلاک کرتا۔ کوئی ہم سے کیوں نہیں کہتا کہ اسلام کو ترک کردو ورنہ تمہیں ختم کردیا جائے گا؟ کیوں کہ اللہ نے ہماری نسبت اتنی اعلیٰ رکھی؟ ایسی کیا خاصیت تھی ہم میں؟ کچھ بھی نہیں۔ یہ صرف اس کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس جدوجہد سے آزاد رکھا۔ ہمیں صرف اتنی جدوجہد دی کہ اب تم اس مذہب پر قائم رہو، لیکن اس کے باوجود بھی ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر دل برداشتہ ہوکر اللہ کی نافرمانی شروع کردیتے ہیں۔وہ بے حد ٹھہرے ہوئے لہجے میںاسے سمجھا رہے تھے اور سفیر خاموشی سے سن رہا تھا۔

میں اب تک خاموش تھا، تمہاری طرف سے پہل کا انتظار کررہا تھا، مگر چوں کہ تم پہل نہیں کررہے اس لیے میں ہی بات شروع کردیتا ہوں، لیکن ایک بات یاد رکھنا یہ سوال جواب صرف تمہارے خود کو جاننے کے لیے ہیں۔ ورنہ میں تو تمہیں ایسے جانتا ہوں جیسے میری سگی اولاد۔وہ کہہ کر ایک لمحے کو رکے پھر دوبارہ بولے۔

بائیس سال پہلے تم نے کیوں چھوڑا تھا مذہب کو؟سفیر کا وجود لرزا، مگر آج بات تو کرنی ہی تھی۔

کیوں کہ میرے خالق کو مجھ سے محبت نہیں تھی۔ وہ میری بات کا جواب نہیں دیتا تھا۔ اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔

پھر سوچ لو سفیر…. کیا واقعی تم نے اُسے چھوڑ دیا تھا؟اسفندیار نے پھر سوال کیا ۔ سفیر نے لب کھولے کہ ہاں کہہ دوں، لیکن کہہ نہیں پایا۔

سفیر انسان خدا کی وہ تخلیق ہے جو اپنے خالق کے بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔ کتنا ہی بد سے بدانسان کیوں نہ ہو۔ وہ ایک وقت میں آکر خدا کو پکارتا ضرور ہے اور سفیر میں یہ بات ماننے پر رضا مند ہی نہیں ہوں کہ تم خدا کو نہیں پکارتے…. جولڑکا سات سال کی عمر میں مسجد کی چھت پر کھڑا خدا کو ایسی شدت سے پکارے جیسے موسیٰ اپنے رب کو طور پر پکارتا تھا۔ وہ خدا کو چھوڑ دے میں مان نہیں سکتا۔اسفند یار کی بات سن کر سفیر کی روتے روتے ہچکیاں بند ھ گئیں تھیں۔

ہاں پکارتا ہوں ۔ صرف اسے ہی پکارتا ہوں، کل بھی پکارتا تھا۔ آج بھی پکارتا ہوں۔ آئندہ بھی پکارتا رہوں گا، لیکن اس سے پوچھیں وہ میری پکار کا جواب کیوں نہیں دیتا۔ صرف اس لیے کہ میں موسیٰ نہیں ہوں؟سفیر شدت جذبات سے بپھر کر بولا۔ اسفندیار نے افسوس سے گردن ہلائی تھی۔

کیا تمہیں معلوم ہے سفیرکہ موسیٰ، موسیٰ ؑبننے کے لیے کتنی آزمائش سے گزرے تھے؟ کیا تم ان آزمائشوں سے گزرے؟ اور کیا تم ان آزمائشوں سے گزرنے کی سکت رکھتے ہو؟ نہیں سفیر…. یہ تمہارے یا میرے بس کی بات نہیں ہے۔ وہ موسیٰ تھے، تم موسیٰ نہیں بن سکتے، مگر اس کے باوجود میں یہ کہوں گا کہ اللہ اپنے ہر بندے کو عزیز رکھتا ہے اور ہر ایک کی پکار کا جواب دیتا ہے۔ بس اس جواب کو پانے کے لیے اس کے بندے کو انتظار کی سولی پر چڑھنا پڑتا ہے۔ تمہاری طرح بے صبرا ہو کر فرار نہیں اختیار کیاجاتا۔

یہ آپ کہہ رہے ہیں، میں نے فرار اختیار کیا۔ کیا آپ جانتے نہیں کہ میں نے کتنا انتظار کیا اور اب تک کرتا ہوں۔ یہ اُمید رکھتا ہوں کہ وہ ایک بار تو میری پکار کا جواب دے گا۔سفیرفوراً تڑپ کر بولا۔

لیکن صرف امید رکھنا کافی نہیں ہوتا۔ حوصلے کے ساتھ اُمید رکھنا پڑتی ہے، سفیر تم نے اس سے امید تو رکھی، مگر حوصلہ کھو بیٹھے اورتمہیں پتا ہے تم نے اپنا حوصلہ کھو کر کیا کیا؟تم اس سے خفا ہوگئے اور معلوم ہے تم نے خفگی کااظہار بھی کس طرح کیا؟ فرض چھوڑ کر ؟وہ فرض جس کو نواسہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے میدان جنگ میں بھی نہیں چھوڑا۔ پھر تم یا میں اسے چھوڑنے کا کیسے سوچ سکتے ہیں،لیکن تم نے یہ سب کیا۔ بالکل اسی طرح جس طرح بائیس سالوں سے تم اپنی ماں کی نافرمانی کرتے آرہے ہو، مگر اس سب کے باوجود بھی تمہاری ایک ادا ایسی ہے جو تمہاری طرف سے دل کو سخت نہیں ہونے دیتی۔ وہ یہ کہ تم ماں کی نافرمانی کرکے بھی ہر تیسری بات میں اس کا ذکر کرتے ہو کہ وہ ایسا کہتی ہے۔ ایسا کرتی ہے اور بالکل اسی طرح تم اللہ سے خفا ہوکر بھی یہ کہتے ہو کہ جو کام اللہ نہیں کرسکتا وہ اس کا بندہ کیسے کرسکتا ہے۔وہ کہہ کر کچھ دیر کو خاموش ہوئے ، سفیر بھی سرجھکائے خاموش بیٹھا رہا، پھر وہ دوبارہ بولنے لگے۔

جب تمہارے والد تمہیں میرے پاس پہلی بار قرآ ن پڑھانے کے لیے لے کر آئے تھے، اس وقت تم محض ساڑھے تین برس کے تھے، مگر پھر بھی تم دوسرے بچوں کی طرح قرآن سے بھاگتے نہیں تھے بلکہ اسے بہت دل لگا کر پڑھتے تھے اور وقت کے ساتھ جیسے جیسے تمہاری عمر میں اضافہ ہوتا گیا، تمہاری مذہب میں دل چسپی مزید بڑھتی گئی۔ مجھے یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی تھی، مگر ایک دن جب میں جمعے کی نماز کے بعد خطبہ دے رہا تھا، تو میں نے دیکھا کہ تم مسجد کے ایک خاموش گوشے میں تنہا بیٹھے رو رہے ہو۔ مجھے فکر ہونے لگی مجھے لگا شاید تمہاری کسی بچے سے لڑائی ہوگئی ہے اور کسی نے تمہیں کچھ سخت کہہ دیا ہے، مگر تم سے پوچھنے پر میں تمہارا جواب سن کر دنگ رہ گیا۔

بیٹا تم کیوں رو رہے ہو؟

مجھے اللہ کی باتیں اور پیغمبروں کی تکلیفیں سن کر رونا آتا ہے۔ میرا جی چاہتا ہے میں چیخ چیخ کر روں۔

مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ محض ساڑھے چار سال کا بچہ یہ کیسی باتیں کررہا ہے؟ لیکن میں نظر انداز کرگیا، پھر ایک روز تم قرآ ن پاک بند کرکے بیٹھے تھے میں نے تم سے پوچھا۔

سفیر تم سبق کیوں نہیں پڑھتے۔تم نے کہا۔

میں اللہ سے خفا ہوں۔ کل اس نے میری چاکلیٹ ڈھونڈ کرنہیں دی۔ آج میں سبق نہیں پڑھوں گا۔

تمہاری بات سن کر میرے برابر میں بیٹھے میرے چچا نے تمہیں ایک زور دار تھپڑ لگایا ۔ مدرسے میں بیٹھے سارے بچے یک دم ہی سہم گئے مگر تم نہیں سہمے بلکہ تم اُٹھے اور تم نے میرے چچا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔

تم نے مجھے اذیت دی ہے۔ میں تمہاری شکایت اپنے اللہ سے کروں گا۔تم یہ کہہ کر اپنے گھر چلے گئے اور ادھر چچا تمہیں خوب لعنت ملامت کرتے رہے۔ جب کہ تم دونوں کے بیچ میں میری کیفیت عجیب تھی کہ جو چھے سال کا بچہ چند لمحے پہلے کہہ رہا تھا کہ میں اللہ سے خفا ہوں….وہ اگلے ہی لمحے یہ کہتا ہے کہ تم نے مجھے اذیت پہنچائی ہے میں تمہاری شکایت اپنے اللہ سے کروں گا۔ مطلب وہ اس بات سے بہ خوبی واقف ہے کہ اس کی خفگی کے باجوود بھی کون ہے جو اس کی سن لے گا اور اس دن کے بعد سے میں تمہیں نظر انداز نہیں کرسکا۔ میں نے تم سے پہلے بھی بے شمار بچوں کو قرآن پاک پڑھایا تھا، مگر ان میں سے کوئی بھی تم جیسا نہیں تھا۔ تم بے حد منفرد تھے، مختلف تھے، تمہارے سوال چونکا دینے والے ہوتے تھے اور جواب پریشان کرنے والے۔ کبھی مجھے لگتا تمہارا دماغ کفر کی طرف جارہا ہے اور کبھی لگتا تم سے زیادہ خیر کسی دوسرے میں نہیں ہے اور اس طرح میں ان دنوں تمہیں لے کر بے حد پریشان رہنے لگا۔ میں نے سوچا تمہارے والدین سے بات کروں، مگر تمہارے والد تو مجھ سے زیادہ لاعلم تھے اور تمہاری والدہ وہ اس بات پر خوش تھیں کہ ان کا بیٹا مذہب کو بے حد ترجیح دیتا ہے، لیکن میں نے تمہارے اندر جو ضدی پن دیکھا وہ مجھے سکون سے نہیں بیٹھنے دے رہا تھا، تو میں نے تمہارے متعلق اپنے والد اور چچا سے بات کرنے کا سوچا، مگر چچا تو پہلے ہی تمہیں باغی اور بدتمیز کہتے تھے اور میرے والد چچا کی بہت مانتے تھے اس لیے مجھے یہ بھی ٹھیک راستہ نہ لگا۔ اس دوران میری تم پر بھی نگاہ تھی میں دیکھتا تم اکثر و بیشتر مسجد کی چھت پر کھڑے ہوکر اللہ اللہ پکارتے ہو۔ میں نے تم سے پوچھا تم کیوں آوازیں دیتے ہو ۔تم نے کہا۔

میں اللہ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ بالکل ویسے جیسے موسیٰؑ کرتے تھے۔

میں نے کہا۔تم موسیٰؑ نہیں ہو۔تو تم نے کہا۔

مگر میں سفیر ہوں…. اور وہ میرا بھی تخلیق کار ہے۔ وہ مجھ سے بات ضرور کرے گا۔“ 

میں تمہارا یہ انداز دیکھ کر مزید پریشان ہوگیا۔ مجھے مزید ڈر لگا کہ تم گمراہ ہوجاگے، میں نے بہت راستہ تلاش کرنا چاہا، مگر مجھے کوئی راستہ نہ ملا۔

اور تب میرے پاس سب سے آسان حل وہ ہی تھا جو ہر دوسرے انسان کے پاس ہوتا ہے کہ میں تم پر یہ فتویٰ لگادوں کہ تم اللہ کے نافرمان ایک کافر بندے ہو۔

لیکن پھر مجھے یہ خیال آیا کہ اگر کل کو اللہ نے مجھ سے یہ کہہ دیا کہ 

اے اسفندیار تجھے کس نے یہ حق دیا تھا کہ تو میر انام لینے والے میرے بندے پر صرف اس لیے کفر کا فتویٰ لگا دے کیوں کہ اس کی سوچ تیری عقل میں نہیں آئی تھی۔ وہ بہت سے دوسرے انسانوں جیسا نہیں تھا؟

اور اس خیال کے آتے ہی میری روح تک کانپ گئی اور میں نے خود سے یہ کہا کہ :

اللہ کے سب بندے ایک سے نہیں ہوتے، ان میں سے کچھ سفیر احمد بھی ہوتے ہیں، ضدی ، باغی، خود سر، مگر اس کے آگے جھکے ہوئے۔ اب وہ صحیح ہیں یا غلط وہ صرف اللہ ہی بہتر جانتا ہے، مگر کسی کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ اللہ کا نام لینے والے اس کے بندے کو اس سے الگ کردے۔ کیوں کہ وہ صرف فرماں برداروں کا رب نہیں ہے بلکہ ضدیوں اور باغیوں کا بھی رب ہے اور انہیں کس طرح فرماں برداری پر لانا ہے یہ بھی بخوبی جانتا ہے ، مگر ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی محدود سوچ کی طرح اللہ کی ذات کو بھی کچھ لوگوں کے لیے محدود کردیتے ہیں جب کہ وہ تو لامحدود ہے۔وہ کہہ کر پھر سانس لینے کو رکے ، سفیر کا سر جھکا ہوا تھا۔

سفیر میں تمہاری منفرد سوچ کو تو غلط نہیں کہتا، مگر میں تمہارے خفا ہونے کے انداز کو ضرور غلط کہوں گا کیوں کہ بیٹا فرض کی ادائیگی میں ہی رشتوں کی بقا ہے۔ ورنہ رشتے کمزور پڑنے لگتے ہیں۔ پھر وہ چاہے اللہ اور بندے کے درمیان ہو یا بندوں کے آپسی رشتے ہوں۔ خفا ہونا ہے، تو دل میں ہو۔ اپنے اللہ سے دل میں بات کرو وہ تمہارا ہے تمہاری ضرور سنے گا۔ اس سے اپنے تعلق کو مضبوط بنامگر کبھی بھی فرض کو ترک نہ کرو۔ میں یہ بات تم سے اس لیے بھی کہہ رہا ہوں کیوں کہ انسان کو نہیں معلوم ہوتا کہ کتنے دوسرے لوگ اسے ideolize کرکے چل رہے ہیں اور اگر وہ غلط ہے، تو شاید کل کو اس کی تو اصلاح ہوجائے، وہ تو سنبھل جائے مگر اس کے ان اعمال ان اطوار سے جتنے لوگ گمراہ ہوئے ہیں ان کی بھی اصلاح ہوجائے یہ ضروری نہیں ہوتا۔

اسفند یار اپنی بات مکمل کرکے خاموش ہوئے تو سفیر نے سراٹھا کر بھیگی آنکھوں سے انہیں دیکھا اور بولا۔

پھر اب میں کیا کروں انکل؟“ 

اسے چھوڑتے وقت مجھ سے پوچھا تھا؟ نہیں نا تو اب بھی خود سے پوچھو کہ کیا کرنا ہے۔

کچھ لمحوں کے توقف کے بعد وہ آج بائیس سال بعد پھر مسجد کی چھت پر کھڑا پورے چاند کی چمکتی روشنی میں بلند آواز سے روتا اللہ کو پکار رہا تھا، اس سے معافی مانگ رہا تھا، اس سے پھر سے ویسے ہی ہم کلام تھا جیسے وہ ہوا کرتا تھا۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

گل موہر اور یوکلپٹس

Read Next

اوپرا ونفرے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!