المیزان

باجی آپ کا جوڑا تو بہت خوب صورت ہے۔

یہ پتلی دبلی سی سولہ برس کی جہاں آرا تھی جو ان کے ملازم اکرم خان کی اکلوتی بیٹی تھی اور ان کی شادی کے پورے بیس برس بعد پیدا ہوئی تھی۔

جہاں آرا کی پیدائش کے فوراً بعد ہی اس کی والدہ وفات پاگئی تھی اور اپنی بیوی کی یادیں اکرم خان نے اس کا نام بھی اپنی بیوی کے نام پر جہاں آرا ہی رکھا تھا جس پر وہ سخت چڑتی تھی کہ 

ابا نے کیا بی اماں والانام رکھا ہے میرا۔“ 

لڑکی جوڑے پر تبصرہ بعد میں کرنا پہلے مجھے ایک کپ چائے لاکر دو۔ یہ بازاروں کے چکر لگا لگا کر تو میری ٹانگیں درد کر نے لگی ہیں۔

نین نے اپنی گود میں رکھے شاپنگ بیگ سمیٹتے ہوئے کہا، ساتھ شہمین بھی بیٹھی تھی جس کی حساس طبیعت جہاں آرا کی نگاہوں کی حسرت دیکھ کر یک دم ہی بوجھل ہوگئی تھی۔

نین اور شہمین تقریباً دو ہفتوں سے مارکیٹ کے چکر لگا رہی تھیں، مگر نین کی شادی کی تیاریاں تھیں کہ سمٹنے میں ہی نہیں آرہی تھیں اور ہر بار مارکیٹ سے لوٹتے ہوئے نین کا ایک ہی جملہ ہوتا تھا۔

ابھی بھی اتنی چیزیں رہتی ہیں۔

وہ دونوں ابھی بھی مارکیٹ سے ہی لوٹی تھیں جب جہاں آرا نے ان کے پاس آکر شہمین کے جوڑے کی تعریف کی تھی۔

یہ لیں باجی۔چند لمحوں بعد جہاں آرا ہاتھ میں چائے کا کپ لیے ان کے پاس واپس آئی تو شہمین فوراً بولی۔

جہاں آرا اگر تمہیں یہ جوڑا زیادہ اچھا لگ رہا ہے، تو تم رکھ لو میں دوسرا لے لوں گی۔

ارے نہیں نہیں باجی…. ابا کو معلوم ہوا، تو سخت خفا ہوںگے ۔جہاں آرا بدک کر اس جوڑے سے دور ہٹ کھڑی ہوئی جب کہ ماہ نین ان سب سے لاتعلق اپنے موبائل میں کچھ ڈھونڈ نے میں مصروف تھی۔

جہاں آرا ہم تمہارے لیے ایک نئی کتاب لے کر آئے ہیں۔ اس کا مطالعہ کرکے بتاتمہیں کیسی لگی۔مسعود خان نے کوریڈور میں داخل ہوتے ہوئے جہاں آرا کی سمت ایک کتاب بڑھائی۔ نین اور شہمین نے بھی نگاہ اٹھا کر مسعود خان کو دیکھا۔

صاحب ابھی میرا کوئی کام تو نہیں ہے کیا میں باغ میں بیٹھ کر یہ پڑھ سکتی ہوں۔

جہاں آرا نے چہکتے ہوئے مسعود خان سے وہ کتاب لے کر ان سے اجازت چاہی تھی۔

ٹھیک ہے۔

شکریہ صاحب۔جہاں آرا کتاب لے کر باغ میں چلی گئی اور مسعود خان ان دونوں کے قریب بیٹھ گئے تھے۔ پھر انہوں نے شہمین کے مرجھائے ہوئے چہرے کو دیکھا اور بولے:

کیا آپ اُداس ہیں۔

اداس؟ معلوم نہیں۔ بس مجھے جہاں آرا کی آنکھوں کی حسرت اچھی نہیں لگتی۔شہمین وہ جوڑا طے کرتے ہوئے بے دلی سے بولی۔

پھر کیا کیا جائے۔

میں یہ جوڑا اسے دے دوں گی ۔شہمین نے سوچ کر کہا۔

صحیح ۔ پھر جب اُسے آپ کا کوئی دوسرا جوڑا اچھا لگے گا یا کوئی اور چیز۔ پھر کیا کریں گی؟ وہ بھی اسے دے دیں گی؟مسعود خان نے نرمی سے پوچھا۔ شہمین لاجواب ہوئی اور ان دونوں سے تھوڑا دور بیٹھی ماہ نین نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے ایک نگاہ ان پر ڈالی اور پھر اپنے موبائل پرجھک گئی۔

اپنی ہر خوشی کو دوسروں کے سپرد کردینا یا اپنی ہر آسائش کو ترک کردینا یہ ولیوں اور اولیا اللہ کی صفات ہیں عام انسانوں کی نہیں…. میں یہ نہیں کہتا کہ آپ کم ظر ف بن جایا اپنے دل میں دوسروں کے لیے ہمدردی نہ رکھو، بس اتنا کہہ رہا ہوں کہ اتنی خوش اخلاقی اپناجس پر آپ مستقل مزاجی سے قائم رہ سکو، کیوں کہ اللہ کو بھی وہ ہی عمل اچھا لگتا ہے جو مستقل مزاجی سے کیا جائے نہ کہ یہ کہ آپ ایک دن تو تہجد تک پڑھو اور چار دن فرض کے لیے بھی مصلے پر نہ کھڑے ہو سکو۔

لیکن بابا جب ہم کبھی کبھار انسان کو غلطی کی گنجائش دے سکتے ہیں، تو کیا کبھی کبھار تھوڑی زیادہ خوش اخلاقی دکھانے کی نہیں دے سکتے۔شہمین نے فوراً اعتراض کا نقطہ اٹھایا اور مسعود خان اس کی سوچ سے بے حد محظوظ ہوئے تھے۔

کبھی کبھار کی خوش اخلاقی بھی ایک غلطی ہی ہے جانِ بابا۔

وہ کیسے۔شہمین کو حیرت ہوئی بھلا خوش اخلاقی بھی غلطی ہوسکتی ہے کیا؟

وہ ایسے کہ جب آپ ایک بار اپنی خوش اخلاقی دکھا کر کسی کی جھولی بھروگے، تو وہ دوبارہ بھی آپ کے سامنے جھولی پھیلا ئے گا اور اگلی بار جب آپ نہیں بھروگے، تو اس کا دل دکھے گا۔ پھر بیٹا ہمیں یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ ہماری مدد واقعی میں دوسرے کے لیے مدد رہے گی یا آگے چل کر ایک زحمت بن جائے گی۔

اُف ۔ اب مدد زحمت کیسے بن سکتی ہے بابا۔وہ اکتائی۔ یہ بات تو مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی تھی۔

بیٹا جہاں آرا ایک ایسے طبقے سے تعلق رکھتی ہے جہاں اتنا مہنگا جوڑا خریدنا ایک ناممکن سی خواہش ہے اور جب آپ اس کی یہ خواہش بغیر کسی محنت یا مشقت کے پوری کردیں گی، تو آہستہ آہستہ اس کی خواہشات بڑھتی جائے گی اور اس کے اندر سے محنت کرکے پانے کی لگن بھی ختم ہوجائے گی۔

پھر بیٹا اللہ نے ہر رشتے میں ایک حد رکھی ہے، ایک فرق رکھا ہے جسے انسان نہیںمٹا سکتا۔ اس لیے بہتر ہے کہ اس حد کو ، اس فرق کو واضح رکھا جائے کیوں کہ اسی میں رشتوں کی خوبصورتی ہے۔

اب یہ فرق کیا ہے؟وہ پھر الجھ کر بولی جب کہ نین ابھی تک چائے کے گھونٹ بھرتی اپنے موبائل میں الجھی ہوئی تھی۔

فرق یہ ہے کہ آپ مالک ہیں اور جہاں آرا آپ کی ملازمہ ، اب آپ اس کے ساتھ کتنی ہی خوش اخلاقی سے کیوں نہ رہیں، اس سے وہ آپ کی مالکن یا آپ اس کی ملازمہ نہیں بن جاگی اور یہ بات آپ نے اسے سمجھانی ہے اپنے رویے کہ ذریعہ جو بالکل مہذب ہونا چاہیے۔

مسعود خان کہہ کر خاموش ہوئے تو وہ باقی شاپنگ بیگز سمیٹتی برا سا منہ بناکر بولی۔

بابا کبھی کبھار میں بہت کنفیوژ ہوجاتی ہوں، ایک طرف تو آپ کہتے ہیں لچک پیدا کرو اور دوسری سمت کہتے ہیں فرق واضح رکھو…. آپ مجھے ایک چیز بتادیں میں کروں تو کیاکروں؟

مسعود خان اس کی با ت پر قہقہہ لگا کر ہنسے۔ نین نے بھی چونک کر ان کی سمت دیکھا۔

یہ ہی تو سمجھنے والی بات ہے بیٹا کہ کہاں لچک پیدا کرنی ہے اور کہاں فرق کو واضح رکھنا ہے کیوں کہ زیادہ میٹھی چیز بھی قے کا باعث بن جاتی ہے اور زیادہ کڑوی بھی۔

وہ کہہ کر موبائل میں مصروف نین پر نگاہ ڈال کر اٹھ کھڑے ہوئے پھر چند قدم چلنے کے بعد پلٹ کر شہمین کو دیکھتے ہوئے بولے۔

ویسے جوڑا بڑا پیارا ہے میری بیٹی کا۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

گل موہر اور یوکلپٹس

Read Next

اوپرا ونفرے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!