المیزان

یہ رات کا ابتدائی وقت تھا اور خلاف معمو ل کمرے کی تمام روشنیاں بجھی ہوئی تھیں۔ کھڑکیوں کے پردے بھی برابر تھے۔

وہ کھڑکیوں کی دائیں جانب رکھے بیڈ کے پائینتی والے حصے سے ٹیک لگائے فرش پر بیٹھا تھا۔ اس کے بائیں ہاتھ میں موبائل اور دائیں ہاتھ کی ابتدائی دو انگلیوں میں سگریٹ دباہوا تھا جس کا سلگتا شعلہ کمرے میں پل دو پل کے لیے روشنی کا واحد ذریعہ تھا۔ سفیر نے سگریٹ کا گہرا کش لیا اور دھواں ہوا میں چھوڑا۔ پھر اس نے موبائل پر شہمین کا نمبر نکالا اور کال کے آپشن پر کلک کیا۔ اگلے لمحے ہی شہمین کو کال جانے لگی جسے اس نے چار پانچ بیلز کے بعد ریسیو کرلیا۔

ہیلو۔سفیر سیدھا ہوتے ہوئے بے تابی سے بولاتھا جب کہ دوسری جانب موبائل کان سے لگائے بیٹھی شہمین کا دل زور سے دھڑکا تھا۔ وہ پورے چھے ماہ بعد اس کی آواز سن رہی تھی۔ اسے اپنے ہاتھ پاں سے جان نکلتی محسوس ہوئی۔

شہمین۔اس کی طرف سے جواب نہ پاکر سفیر نے پھر بے چینی سے کہا تھا۔

کیسے ہو۔بالآخر اس نے اپنی عجیب و غریب کیفیت پر قابو پاکر کہا تھا۔

بے چین ہوں، بے زار ہوں، پریشان ہوں۔ تمہارے بغیر مررہا ہوں۔وہ ایک ہی سانس میں کہے چلا گیا۔ دوسری جانب شہمین بھی سانس روکے اسے سن رہی تھی۔ 

تم۔وہ پھر شہمین کو خاموش پاکر اپنے ہاتھ میں موجود جلتے سگریٹ کو بھلائے مزید بولا ۔

میں بھی۔اس نے سوچا تھا، مگر کہا کچھ اور ….

ٹھیک ہوں۔سفیر نے ایک گہرا سانس لے کر سرجھٹکا ۔

ہاں تم تو ٹھیک ہی رہتی ہو۔ ایک میں ہی ہوں جو ٹھیک نہیں ہو پارہا ہوں۔وہ خفا خفا سا بولا۔ شہمین اس کے انداز پر یک دم ہی مسکرائی تھی۔

یہ بتانے کے لیے کال کی تھی۔وہ اپنے گلے میں ڈلی سفیر کی چین کو عادتاً انگلی میں لپیٹتے ہوئے بولی۔

کیا بتانے کا کوئی فائدہ ہے۔وہ ابھی ابھی خفا تھا۔

نہیں۔اس نے اپنی مسکراہٹ دبا کر کہا۔

یہ ہی اُمید تھی مجھے تم سے۔سفیر نے کہہ کر سرجھٹکا۔

پھر میں لائن ڈراپ کردوں؟

پلیز شہمین ۔ ہم چھے ماہ بعد بات کررہے ہیں۔ کیا اب بھی تم مجھ سے بات نہیں کرنا چاہتی؟اس کی خفگی اب چڑچڑاہٹ میںبدل گئی تھی۔ شہمین اس کے جملے پر یک دم ہی سنجیدہ ہوئی۔

کیا بات کروں؟

کچھ بھی۔وہ پھر دھیما پڑ ا تھا۔

مجھے سمجھ نہیں آرہی تم کرلو۔وہ ابھی بھی چین کو انگلی میں لپیٹ رہی تھی۔

اچھا بتابریسلٹ منگوا لیاتھا۔

ہاں۔

کھانا کھالیا۔

ہاں۔“ 

انکل نے کھا لیا؟

ہاں۔

مجھے مس کررہی ہو؟

ہاں۔شہمین نے کہہ کر یک دم ہی اپنی انگلی کی حرکت کو روک کر زبان دانتوں میں دبائی۔ اُسے اتنی محویت سے سن رہی تھی کہ دماغ کے جھوٹ کہنے سے پہلے ہی دل سچ بول پڑا تھا اور دوسری جانب سفیر قہقہہ لگا کر ہنسا تھا۔

فائنلی تم نے کہا تو….“ وہ بے حد مسرور لگ رہا تھا۔

وہ بس غلطی سے منہ سے نکل گیا؟اس نے سرجھٹک کر ہاتھ کو حرکت دیتے ہوئے کہا۔

اتنے فوری وہی جملے زبان پر آتے ہیں جو دل میں ہوں۔سفیرنے فوراً اسے جتایا اور شہمین نے ہمیشہ کی طرح بات کا موضوع ہی بدل دیا۔

گھر میں سب کیسے ہیں؟

بالکل ٹھیک ۔وہ سرجھٹک کر بولا۔ پھر یک دم ہی اس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی۔ 

کیا ہوا؟شہمین نے فوراً ہی گھبرا کر پوچھا۔

تم سے بات کرتے ہوئے سگریٹ پی رہا تھا اور باتوں میں بھول گیا، تو اس نے ہاتھ جلادیا۔سفیر نے جلے ہوئے حصے کو مسلتے ہوئے محظوظ ہوکر شہمین کو بتایا۔ شہمین کی تیوری پر ہلکے سے بل ابھرے تھے۔

سگریٹ پینے سے صحت خراب ہوتی ہے اپنی بھی اور دوسروں کی بھی۔وہ آج پہلی بار خلاف عادت کسی کی ذاتی سرگرمیوں پر اسے ٹوک رہی تھی۔ ورنہ وہ تو ان لوگوں میں سے تھی جو ہر انسان کو پرسنل اسپیس دینے کے ہامی تھے۔

اچھا۔سفیر نے اپنے مخصوص ٹالنے والے انداز میں کہا۔ وہ اس بات کو موضوع گفتگو بناکر چھے ماہ بعد ہوئی اس بات چیت کو لڑائی میںتبدیل نہیں کرنا چاہتا تھا، مگر شہمین تو اس کے اتنے واضح ٹالنے والے انداز پر سخت آگ بگولہ ہوگئی۔

اچھا سے کیا مطلب ہے تمہارا۔“ 

مطلب میں تمہاری بات سے متفق ہوں۔اس نے سنبھل کرکہا۔

ہاں تو پھر چھوڑ دو اُسے۔شہمین کی بات سن کر سفیر کا حیرت سے منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔

کیوں۔اس بار سفیر کی بات سن کر شہمین کا منہ حیرت سے کھل گیا۔ پھر وہ بے حد سنجیدگی سے بولی۔

کیوں کہ میں کہہ رہی ہوں۔

سوری مجھے اس کی عادت ہے میں نہیں چھوڑ سکتا۔سفیر نے آج پہلی بار اس کی کسی بات سے انکار کیا تھا اور شہمین کے لیے یہ ناقابل یقین تھا۔

اچھا اب تم میری باتیں ماننے سے بھی انکار کروگے؟اس کی آواز میں صدمہ اور غصہ بے حد واضح تھا، سفیر لمحہ بھر کو خاموش ہوا۔

ہر بات ماننے والا روبوٹ ہوتا ہے انسان نہیں اور تمہیں تو انسان چاہیے نا۔وہ دھیمی مسکراہٹ سے اسے جتا کر بے حد مزے سے بولا۔ شہمین ایک لمحے کو گڑبڑا گئی۔

انسان ہونے کامطلب یہ تو نہیں کہ تم میری صحیح بات سے بھی اختلاف کرو۔وہ اپنی خفت چھپا کر بولی۔

بھئی انسان تو ایسا ہی ہوتا ہے، لیکن میرا خیال ہے تمہیں انسان نہیں روبوٹ ہی چاہیے تھا۔سفیر نے اپنی ہنسی روک کر سنجیدگی سے کہا۔ وہ شہمین کی کیفیت سے محظوظ ہورہا تھا۔

اور پھر دونوں یونہی کافی دیر تک اسی بات پر بحث کرتے رہے اور بالآخر یہ ہوا کہ شہمین نے چڑکر لائن ہی ڈراپ کردی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

گل موہر اور یوکلپٹس

Read Next

اوپرا ونفرے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!