المیزان

وہ کمرے سے نکلا تو پانی پینے بیٹھ گیا مگر اب ہاتھ میں لیپ ٹاپ تھامے سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔ پانی کی بوتل اب بھی وہیں سلیپ پر دھری تھی۔

کمرے میں ایک مدھم سا نائٹ بلب روشن تھا ، اس نے لیپ ٹاپ بیڈ پر رکھا اور خود کھڑکی کے نزدیک آگیا۔ یہ کھڑکی باغ میں کھلتی تھی اور اسی کھڑکی سے روز صبح اٹھ کر شہمین سب سے پہلے باغ میں پھولو ں کو دیکھتی تھی۔

سفیر نے کھڑکی کا کلپ ہٹا کر اسے کھول دیا، باہر باغ میں پھیلے سبزے سے پھولوں کی مہک اٹھ رہی تھی اور اوپر حد نگاہ تک پھیلے سرمئی اُفق پر ہلکی سفیدی پھیلنے لگی تھی۔

اس نے ان دونوں کو نظر انداز کیے اپنی جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکالا اور ایک سگریٹ ہونٹوں میں دبا کر سلگالیا۔ وہ اب بے حد مضطرب سا اپنے دائیں ہاتھ میں سگریٹ تھامے بائیں ہاتھ سے گلے میں ڈلے لاکٹ کو چھو رہا تھا۔

کیسے فیس کروںگا میں اُن لوگوں کو؟اس نے اسی کیفیت میں سوچتے ہوئے سگریٹ کا گہرا کش لیا۔

سفیر احمد، ذونی احمد(زینب احمد) اور مبشر احمد کی سب سے بڑی اولاد تھی۔ ایک Typical امریکی لڑکا جس کی پہلی Priority اس کی اپنی ذات تھی گھر اور گھر والے، تو دوسرے یا تیسرے نمبر پر آتے تھے۔ سات سال کی عمر تک وہ ماں کی انگلی پکڑ کر چلا تھا، مگر سات سال کے بعد جب ذونی احمد کے ہاتھ سے سفیر کا ہاتھ چھوٹا، تو وہ کبھی چاہ کر بھی اسے واپس نہ تھام سکیں اور سفیر نے تو خیر کبھی اس کے لیے کوشش ہی نہیں کی۔ اب اسے ذونی احمد کی بدقسمتی کہا جائے یا کم عقلی یہ کہنا تھوڑا مشکل ہے۔

ذونی احمد ایک اچھی مذہبی خاتون تھیں، مگر انہوں نے کبھی دنیاوی علم حاصل کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ جب کہ ایک اچھی ماں بننے کے لیے محض ایک اچھی مذہبی خاتون ہونا کافی نہیں ہوتا اور امریکا جیسے مادہ پرست ملک میں تو بالکل بھی نہیں۔

نتیجتاً سفیر بھی ان سائنس کے شہدائیوں کے ساتھ رہ رہ کر بظاہر ان جیسا ہی ہوگیا جوہر چیز کے لیے دلیل مانگتے ہیں کہ سیب درخت سے گر کر زمین پر آیا ہے، تو کیوں آیا ہے، لیکن وہ آج تک ا س کی دلیل نہیں ڈھونڈ سکے کہ یہ جو آسمان سر پر کھڑا ہے یہ کس کے سہارے کھڑا ہے…. سفیر کی فطرت میں ہمیشہ سے شدت پسندی نمایاں رہی تھی ، وہ جب ماں کا فرماں بردار تھا، تو بھی بے مثل تھا، وہ جب ماں سے باغی ہوا تب بے مثل رہا۔

و ہ پہلے ماں کو عقلِ کل سمجھتا تھا۔ اب اس کے نزدیک ماں کے پاس تو جیسے عقل ہی نہ تھی۔ اس لیے ذونی احمد اسے جس کام سے روکتیں وہ جان بوجھ کر ہر وہ کام کرنے کی کوشش کرتا وہ کہتی رات جلدی آتو وہ دیر سے آتا، وہ کہتیں فلاں لڑکے سے بات نہ کرو، تو وہ سب سے زیادہ یاری ہی اسی سے لگاتا، آہستہ آہستہ یہ ہوا کہ ذونی احمد نے اسے ٹوکنا ہی چھوڑ دیا اور سفیر کے والد مبشر احمد، وہ ایک سلجھے ہوئے مزاج کے آدمی تھے، نہ مذہب سے زیادہ قریب نہ زیادہ دور۔ ان کے لیے سب سے اہم اپنے گھر کے معاشی مسائل کو دیکھنا تھا۔ بیوی بچوں کا کھانا، پینا، پڑھنا، لکھانا، اوڑھنا، پہننا۔ انہوں نے کبھی بھی بچوں کی ذاتی سرگرمیوں میں اتنی دل چسپی نہیںلی تھی۔

سفیر سے تین سال چھوٹا اس کا بھائی سیف احمد، وہ پچھتر فیصد سفیرکے برعکس تھا۔ وہ مذہب اور ماں دونوں سے ہی کافی قریب تھا جب کہ اس کی نسبت ان کی چھوٹی بہن، امل احمد جس کے اور سفیر کے درمیان تو سال کا فرق تھا۔ وہ پچھتر فیصد سفیر کا عکس تھی، ہاں لیکن وہ سفیر کی طرح ماں سے باغی نہیں تھی۔

سفیر کے ہاتھ میں پکڑے سگریٹ کا سارا تمبا کو راکھ ہوگیا، تو وہ آخر کے بچے ہوئے حصے کو کھڑکی کے کنارے مسلتا، باہر اچھال کر وہاں سے ہٹ گیا۔

اس نے ان لوگوںکا سامنا کرنے کی ہمت جمع کرلی تھی اور اب اپنا فیس بک اکانٹ کھول کر اپنے باپ کو میسج بھیج رہا تھا۔

“Wanna talk, come on skype, alone….”

اس نے فیس بک اکانٹ Logout کرکے اسکائپ اکانٹ Log in کرکے، لیپ ٹاپ کو خود سے تھوڑا پیچھے کھسکا دیا، مگر اس کی نظریں اسکرین پر ہی جمی ہوئی تھیں۔ جہاں اگلے چند لمحوں بعد ہی مبشر احمد کی کال آتی نظر آنے لگی۔ اس نے ٹچ پیڈ پر ہاتھ پھیر کا کال ریسیو کی اور یک دم ہی اس کے سامنے مبشر احمد کا چہرہ نمودار ہوگیا۔

گندمی رنگت اور سرمئی بالوں والے مبشر احمدکی آنکھیں بالکل سفیر جیسی تھیں، نیلی۔ 

وہ دونوں کتنی ہی دیر بغیر کچھ کہے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ دونوں کی ہی آنکھیں نم تھیں اور گلے میں آنسوں کا پھندا سا بندھا ہوا تھا۔ بالآخر مبشر احمد نے ہی گلا کھنکار کر بات کا آغاز کیا۔

کیسے ہو؟

ٹھیک ہوں…. اور آپ؟

میںبھی۔

وہ دونوں اور …. ممی کیسی ہیں؟وہ بولتے ہوئے جھجکا تھا۔

سیف مجھ سے کم ٹھیک ہے، امل اس سے کم اور تمہاری ممی۔ ہم سب سے کم۔

سفیر کے گلے میں آنسوں کا پھندا مزید کس گیا تھا ۔ وہ پھر چند لمحے کچھ بول نہیں سکا۔ 

آپ پوچھیں گے نہیںمیں کہاں ہوں؟وہ گلا کھنکارتے ہوئے بولا۔

تم پاکستان میں ہو۔سفیر کو شاک لگا تھا۔

کیا آپ کو معلوم تھا۔

نہیں…. ابھی ابھی ہوا۔

کیسے؟

تمہاری دائیں سمت رکھے لیمپ کو آن کرنے کے لیے جس قدر بھدے انداز میں wire extension استعمال کیا گیا ہے اسے دیکھ کر۔ ایسے بھدے جگاڑ پاکستانی بہت کرتے ہیں۔سفیر نے یک دم ہی ٹھٹک کر اپنی دائیں سمت دیکھا۔ چوں کہ لیپ ٹاپ ترچھا ہوکر رکھا ہو اتھا اس لیے کیمر ا لینز میں سفیر کے پیچھے کی دیوار نہیں بلکہ بائیں جانب کا منظر دکھا رہا تھا۔ اس کے بجھے ہوئے چہرے پر یک دم ہی مسکراہٹ آگئی تھی۔ اس نے واپس رخ اسکرین کی سمت کیا۔ مبشر احمد بھی مسکرا رہے تھے۔

بہت جھوٹے ہیں آپ۔“ 

وہ کیوں؟مبشر احمد نے آنکھیں سکیڑتے ہوئے حیرت سے پوچھا۔

آپ کو علم extension wire سے نہیں ہوا بلکہ اس دیوار پر لگی پینٹنگ سے ہوا۔ جس پر لکھا ہے ۔ I love my country Pakistan ۔مبشر احمد یک دم ہی قہقہہ لگا کر ہنسے تھے۔

شکر ہے ایک ہفتہ دور رہ کر تم بدلے تو نہیں۔ آج بھی میرا جھوٹ پکڑ لیتے ہو۔وہ محظوظ ہوتے ہوئے بولے۔ سفیر کے چہرے کی مسکراہٹ تھوڑی پھیکی پڑی تھی۔

اب بتا بھی دو ایسا کیا کام تھا وہاں جو جانے سے پہلے تمہیں بتانے تک کا وقت نہیں ملا۔

شہمین پاکستان میں رہتی ہے۔وہ اپنے مخصوص مدھم لہجے میں بولا۔

شہمین…. اوہ تو کیا واقعی میں کوئی لڑکی ہے؟ مجھے تو لگا اس روز ٹھنڈ لگنے کی وجہ سے تم بہکی بہکی باتیں کررہے ہو۔مبشر احمد کو واقعی اپنے بیٹے کی اُس لڑکی کے لیے دیوانگی کا کوئی اندازہ نہیں تھا اور اگر ہوتا بھی تب بھی وہ اس سے اتنے ہی ہلکے پھلکے لہجے میں بات کرتے کیوں کہ وہ جانتے تھے اگر سفیر سے ہائپر ہوکر بات کی تو وہ کال ڈس کنکٹ کردے گا۔ پھر وہ اپنی اس اولاد کے معاملے میں ویسے بھی کوئی رسک نہیں لیتے تھے۔

پھر ملی وہ؟انہوں نے اپنے پاس رکھے چائے کے کپ سے ایک گھونٹ بھر کر پوچھا۔

جی۔“ 

کہاں رہتی ہے پاکستان میں؟

اسلام آبا د۔

ہمم۔ میں گیا ہوں وہاں بہت خوب صورت شہر ہے۔انہوں نے پھر کپ اٹھا کر ایک گھونٹ بھرا تھا۔

جی۔

پھر اب آگے کے لیے کیا سوچا ہے؟

میں اسے واپسی اسٹیٹ چلنے پر راضی کررہا ہوں…. بس جیسے ہی وہ مان جائے ہم لوٹ آئیں گے۔وہ آرام سے بولا۔ گویا یہ بڑا معمولی مسئلہ ہو۔

مبشر آپ۔یک دم ہی سفیر کو اسپیکر سے ذونی احمد کی آواز آتی سنائی دی اور اس نے گھبرا کر بجلی کی سی تیزی سے لیپ ٹاپ کی اسکرین پر ہاتھ مارا جو ایک کلک کی آواز کے ساتھ بند ہوگئی۔ وہ اب گہرے گہرے سانس لیتا بیڈ کی چادر کو اپنی مٹھیوں میں بھینچ رہا تھا پھر یک دم ہی کمرے میں اس کی دبی سی سسکیاں ابھریں اور چند لمحوں بعد وہ باقاعدہ ہچکیوں سے رونے لگا۔

“I am missing you a lot…. But I don’t want to talk to you.”

یہ مشکل ہے میرے لیے ۔ بہت مشکل۔

وہ اب ہذیانی انداز میں روتے ہوئے کہے چلا جارہا تھا۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

گل موہر اور یوکلپٹس

Read Next

اوپرا ونفرے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!