المیزان

اس نے کھڑکی کا کلپ ہٹاکر اسے کھول دیا اور ایک دم ہی باغ میں پھیلے سبزے سے اُٹھتی پھولوں کی مہک کمرے میں داخل ہونے لگی تھی۔ اس نے سبزے سے نظریں اٹھا کر اوپر حد نگاہ تک پھیلے اُفق کودیکھا، جہاں صبح کی ہلکی سفیدی پھیل رہی تھی۔

شہمین نے بوجھل سے انداز میں نگاہیں نیچے سبزے پر کرلیں تھیں۔

گزشتہ دو روز سے سفیر کی طرف سے کوئی پیغام نہ پاکر وہ کچھ بجھ سی گئی تھی۔ یہ گزرے سات ماہ میں پہلی بار تھا کہ سفیر نے کوئی ایک بھی پیغام نہ بھیجا ہو۔ورنہ وہ اور کوئی بات نہ کرے تب بھی۔ 

I miss you، dieing without you، waiting for you، اس طرح کے چھوٹے چھوٹے پیغام اسے روز کے معمول پر بھیجتا ہی رہتا تھا، مگر اس سلسلے کے رکنے نے شہمین کی سانسوں کی رفتار کو مدھم کردیا تھا۔

یوں ہی کھڑکی میں کھڑے باہر دیکھتے شہمین کی نگاہ گھر کے مرکزی دروازے کے ساتھ لگے ان پھولوں پر پڑی جو سات ماہ قبل سفیر نے لگائے تھے جن پر اب رنگ برنگی مہکتے پھول کھلنے لگے تھے۔ وہ چند لمحے یوں ہی کھڑی انہیں تکتی رہی پھر یک دم ہی اس کے دل میں ان پھولوں کو چھو کے دیکھنے کی اتنی شدید طلب جاگی کہ وہ ننگے پیر، ننگے سر عجیب سی کیفیت میں کمرے سے نکل کر سیڑھیاں اترتی باغ میں آگئی، جہاں اب صبح کی سفیدی سے مکمل روشنی پھیل چکی تھی۔ ان پھولوں تک پہنچتے شہمین کے قدموں کی تیزی بالکل غائب ہوگئی تھی۔ وہ اب ان کے بالکل قریب کھڑی تھی اور پھولوں سے اُٹھتی مہک اس کے رگ وپے میں اتر رہی تھی۔ شہمین نے لمحہ بھر کو آنکھیں بند کرکے گہرا سانس لے کر اس خوشبو کو محسوس کیا تھا۔ پھر اس نے کن انکھیوں سے ایک بار اردگرد کا جائزہ لیا، وہاں دور تک کوئی نہیں تھا۔ شہمین دھڑکتے دل کے ساتھ وہ فاصلہ عبور کرکے آگے آئی اور اس نے بے ترتیب ہوتی دھڑکنوں کے ساتھ اپنی ابتدائی دو انگلیوں کے پوروں سے ان میں سے ایک پھول کی کھلتی پتی کو ہلکا سا چھوا تھا۔ جب یک دم ہی اسے اپنے کندھے پر کسی کے ہاتھ کا دبامحسوس ہوا۔ شہمین نے گھبرا کر فوراً مڑ کر دیکھا تھا۔ مسعود خان اس کے پیچھے کھڑے اس کو تک رہے تھے۔

بابا۔شہمین کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ وہ باپ کو دیکھ کر بے حد شرمندہ سی ہوگئی تھی۔

موسم اچھا ہے نا آج۔مسعو د خان نے اس کے سفید پڑتے چہرے کو نظر انداز کرکے آسمان کو دیکھتے ہوئے تبصرہ کیا۔

وہ پہلے سے اپنی حرکت پر شرمندہ کھڑے بچی کو مزید کوئی سوال جواب کرکے شرمندہ کرنے کے قائل ہرگزنہیں تھے۔ کیوں کہ اس کا خود سے شرمندہ ہوجانا ہی اس بات کی دلیل تھا کہ وہ اپنی غلطی سے واقف ہے اور یہ واقفیت ہی تو اصل ضرورت تھی۔

آ ج مارننگ واک پر چلیں؟مسعود خان نے اس کی خاموشی کو محسوس کرکے خود ہی سوال کیا، تو شہمین دھیمے سےجی۔کہہ کر غائب دماغی سے مرکزی دروازے کی جانب بڑھنے لگی۔ جب اس پیچھے کھڑے مسعود خان اس کے قریب آکر دوبارہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بے حد رازداری سے بولے۔

بھئی ویسے تو انسان کا جرات مند ہونا بڑی اچھی بات ہے، لیکن آپ کا نہیں خیال اس پتھریلے روڈ پر ننگے پیر چلنا کچھ زیادہ ہی جرات مندی کا مظاہرہ ہوجائے گا۔

مسعود خان نے نرمی سے مسکراتے ہوئے اس کے ننگے پیروں کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔ شہمین نے بھی فوراً ٹھٹک کر اپنے پیروں کو دیکھا۔ وہ جوتے تو کمرے میں ہی چھوڑ آئی تھی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

گل موہر اور یوکلپٹس

Read Next

اوپرا ونفرے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!