المیزان

کمرے میں دیوار پر لگے بلب کی تیز روشنی و ہ اپنی بند آنکھوں سے بھی اپنے چہرے پر پڑتی محسوس کرسکتا تھا۔ وہ ابھی چند لمحے پہلے ہی اپنے حواس میں لوٹا اور اب کسی نرم احساس کے تحت اس نے اپنے جسم کو حرکت دیے بغیر بند آنکھوں کو لمحہ بھر کے لیے کھولا تھا۔

ذونی احمد اس کا سر اپنی گود میں رکھے، بے حد نرمی سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیر رہی تھیں، ان کے چہرے کے گرد دوپٹا لپٹا ہوا تھا اور ہونٹ مستقل جنبش میں تھے، وہ غالباً کسی دعا کا ورد کررہی تھیں۔

سفیر ہمیشہ کی طرح بغیر حرکت کیے خاموش لیٹا ماں کے چہرے کو تک رہا تھا جس کا رُخ بھی ہمیشہ کی طرح سامنے کی اور تھا۔

یہ عمل گزشتہ بائیس سالوں سے چلا آرہا تھا۔ وہ اپنی ماں کا باغی بیٹا بیمار ہونے پر ماں کی گود ہی ڈھونڈتا تھا۔ ذونی احمد جانتی تھیں وہ بلا کا ضدی ہے ان کے لیے تڑپتا رہے گا، لیکن انہیں پکارے گا نہیں۔ اس لیے وہ اس کی پکار کا انتظار کیے بغیر ہر بار اس کے بیمار ہوجانے پر خود اس کے قریب آجاتی تھیں اور سفیر کو یہ غلط فہمی تھی کہ وہ ماں کی گود میں لیٹا بہ ظاہر یہ دکھاتا ہے کہ وہ اب بھی سورہا ہے اور ماں کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ اٹھ گیا ہے جبکہ ذونی احمد اس کی نظروں کو اپنے چہرے پر پڑتے ہی یہ جان جاتی تھیں کہ وہ اٹھ چکا ہے اور وہ ہمیشہ اپنا رخ بھی سامنے کی اور صرف اس لیے رکھتی تھیں تاکہ اس کا بھرم قائم رہے کیوں کہ اگر غلطی سے بھی ان دونوں کی نگاہیں ٹکرا گئیں، تو وہ فوراً ماں کی گود چھوڑ دے گا۔ کل رات بھی وہ شدید ڈپریشن کی وجہ سے تیز بخار میں مبتلا ہوگیا تھا اور اس لیے ذونی احمد رات بھر ہر چیز سے غافل اس کے سرہانے بیٹھی تیمارداری کررہی تھیں۔ سفیر نے اب اپنی لمحہ بھر کو کھولی آنکھوں کو واپس موند لیا تھا۔ اس کا ارادہ ابھی دیر تک ماں کی گود میں ہی لیٹے رہنے کا تھا۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

گل موہر اور یوکلپٹس

Read Next

اوپرا ونفرے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!