المیزان

“Tell me about any suitable time when we talk.” 

سفیر نے تیزی سے موبائل کی پیڈ پر انگلیاں چلاتے ہوئے میسج ٹائپ کیا۔ پھر اگلے ہی سیکنڈ اسے روانہ بھی کردیا۔ اس نے اب My Addiction کے نام سے کھلا انباکس بند کرکے موبائل اپنے سامنے میز پر رکھ دیا۔ وہ اس وقت یونیورسٹی کیفے ٹیریا میں بیٹھا تھا اور اس کے مقابل کرسی پر ہاتھ میں ہسٹری کی کتاب کھولے ضوٹی بیٹھی تھی۔ آج ان کے کوئز کا آخری دن تھا۔ سفیر نے اپنے بالوں کو جوڑے میں لپیٹ کر ، اپنی جینز کی جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکالا اور ایک سگریٹ لبوں میں دبائے اسے سلگا رہا تھا جب ضوٹی کتاب سے سراٹھا کر بولی۔

سفیر ۔ تم مجھے محمدکے متعلق کچھ بتا۔

کون محمد؟سفیر نے سگریٹ کا پیکٹ اور لائٹر میز پر رکھتے ہوئے کندھے اچکائے تھے۔

تمہارے پیغمبر۔ضوٹی سٹپٹا گئی تھی۔ اُسے اس ردِ عمل کی اُمید نہیں تھی۔

اوہ…. وہ ہمارے پیغمبر ہیں۔سفیر نے سگریٹ کا کش لیتے ہوئے دھواں فضا میں چھوڑا۔ ضوٹی کو کچھ اطمینا ن ہوا۔

وہ میںجانتی ہوں ۔ تم مجھے ان کے متعلق کچھ اور بتا۔سفیر نے نگاہ اٹھا کر سپاٹ چہرہ لیے ہونٹوں میں دبا سگریٹ ہاتھ میں منتقل کرتے ہوئے اسے دیکھا۔

تمہیں بیٹھے بیٹھے وہ کہاں سے یا دآگئے؟اس کے لہجے میں واضح اکتاہٹ تھی۔ ضوٹی کو برا محسوس ہوا۔

وہ یہاں کتاب میں محمدکا نام آیا تھا، تو اُس سے ذہن میں آیا۔

اچھا۔سفیر نے سگریٹ کا ایک اور کشن لیتے ہوئے بات سمیٹنے والے انداز میں کہا۔

تم بتانہ مجھے اُن کے متعلق کچھ۔وہ اس کے روکھے انداز کو نظر انداز کرکے پرجوش سی پھر بولی۔

مجھے بس اتنا ہی معلوم تھا۔ تمہیں مزید جاننا ہے، تو گوگل سے سرچ کرلو۔سفیر نے اپنا موبائل اٹھا کر پہلے سے زیادہ اکتاہٹ سے کہا۔ ضوٹی کی تیوری پر یک دم ہی بل نمودار ہوئے اور اس نے سخت لہجے میں وہ بات کہہ دی کہ سفیر کے ہاتھ سے موبائل چھوٹتے چھوٹتے بچا۔

تم شہمین سے بے حد مختلف ہو۔ اگر یہ ہی سوال میں نے اس سے کیا ہوتا، تو وہ مجھے پیغمبر کے متعلق اتنی باتیں بتاتی کہ ہمیں یہیں بیٹھے بیٹھے ساری رات گزر جاتی، لیکن تم…. تمہیں تو کچھ معلوم ہی نہیں ہے۔ تم دونوں ہی مسلمان ہو، مگر ایک دوسرے سے بالکل مختلف۔ تم عبادت نہیں کرتے، شراب پیتے ہو، زنا کرتے ہو، نائٹ کلب جاتے ہو۔ شہمین تو یہ سب نہیں کرتی تھی۔بولتے بولتے اس کا سانس پھولنے لگا۔ وہ لمحہ بھر کو رکی پھر دوبارہ بولی۔

مجھے اسلام بالکل پسند نہیں ہے۔ یہ مذہب عورتوں کے حقوق مارتا ہے اور مردوں کی طرف داری کرتا ہے۔وہ شدید غصے میں بالآخر آج وہ ساری باتیں کہہ گئی جو وہ اتنے دنوں سے نہیں کہہ پارہی تھی۔ سفیر گم صم بیٹھا اسے سن رہا تھا اسے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ شہمین کی دی گئی پہیلی کا جواب اسے ضوٹی سے ملے گا اور اس طرح آج وہ ایک بار پھر اس کی محسن بن گئی تھی۔

مطلب اگر میں یہ سب چھوڑدوں تو ہمارے درمیان کے Differences ختم ہوجائیں گے؟وہ اپنے حواس میں واپس آتے ہوئے بے چینی سے بولا۔ ضوٹی اس کا ردِ عمل دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی۔

کیا تمہارے نزدیک قابل غور بات صرف یہ ہی ہے۔وہ بے یقینی سے بولی۔ سفیر کا چہرہ یک دم ہی سپاٹ ہوا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑا جلتا سگریٹ نیچے فرش یہ پھیکا اورہاںکہہ کر ٹیبل پر رکھا اپنا سامان اٹھا کر اٹھ کھڑا ہوا تھا اور پھر وہ ہونق بنی ضوٹی کے دیکھتے ہی دیکھتے کیفے ٹیریا سے نکل کر کوریڈور میں غائب ہوگیا۔

فرش پر گرا آدھا پیا سگریٹ اب بھی سلگ رہا تھا۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

گل موہر اور یوکلپٹس

Read Next

اوپرا ونفرے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!