المیزان

نہیں …. پلیز چھوڑدو۔ پلیز …. نہیں …. چھوڑ دو۔

یہ رات کا آخری پہر تھا۔ سفیر ذونی احمد کی گود میں سر رکھے شدید بخا ر میں تپتا نیم بے ہوشی کے عالم میں وقتاً فوقتاً بڑبڑارہا تھا۔ ذونی احمد ا س کے بالوں کو سہلاتی رندھی ہوئی آواز میں بولی تھیں۔

بیٹا میں ہوں تمہارے پاس۔ پریشان نہ ہو۔ان کے برابر بیڈ پر بیٹھے مبشر احمد نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر حوصلہ دیا۔

وہ ٹھیک ہوجائے گا۔

یہ سب کچھ بار بار میرے ہی بچے کے ساتھ کیوں ہوتا ہے۔ذونی احمد نے مبشر احمد کو دیکھتے ہوئے شکوہ کیا۔

پتا نہیں ذونی…. شاید یہ آزمائش ہے ہماری۔وہ سرجھکا کر گہرا سانس لے کر بولے تھے۔

گزشتہ صبح سفیر گھر لوٹتے ہی اپنے کمرے میں بند ہوگیا تھا۔ گھر کی ایک چابی اس کے پاس ہی ہوتی تھی۔ اس لیے کسی کو کسی بات کا علم نہیں ہوا تھا، مگر جب وہ شام تک اپنے کمرے سے باہر نہ نکلا تو ذونی احمد کو تشویش ہونے لگی۔ انہوں نے کمرے میں آکر دیکھا، تو وہ بیڈ پر اوندھا پڑا تھا۔ ذونی احمد سمجھیں سورہا ہے۔ انہوں نے اُسے جگانے کے لیے ہلایا، تو انہیں اندازہ ہوا کہ وہ شدید بخار میں تپ رہا ہے۔ انہوں نے گھبرا کر فوراً مبشر احمد کو کال کی اور وہ دونوں اسے لے کر اسپتال بھاگے۔ شام کا وقت تھا اس لیے امل اور سیف اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے گئے ہوئے تھے۔

اسپتال میں ڈاکٹر نے اس کا معائنہ کرنے کے بعد بتایا کہ یا تو ا س کے ساتھ کوئی درد ناک حادثہ ہوا ہے یا اس نے ایسا کچھ دیکھا ہے جس کے خوف کی وجہ سے اسے بخار ہوگیا ہے۔ وہ اس وقت بھی نیم بے ہوشی میں یوں ہی بڑبڑا رہا تھا۔

سفیر اٹھو میرابچہ مجھے بتاکیا ہوا ہے۔ پلیز بیٹا آنکھیں کھولو۔ذونی احمد ہنوز رندھی ہوئی آواز میں اسے ابھی بھی اٹھانے کی سعی کررہی تھیں۔ سفیر نے ایک دو بار آنکھیں کھول کر انہیں دیکھا پھر پلکیں جھکالیں۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

گل موہر اور یوکلپٹس

Read Next

اوپرا ونفرے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!