المیزان

میرا خیال ہے مجھے اب چلنا چاہیے۔ ورنہ پروفیسر مارک چلے جائیں گے۔اس روز کے بعد ضوٹی کی اس سے آج ملاقات ہورہی تھی۔ سفیر کا انداز اس قدر روکھائی لیے ہوتا کہ ضوٹی نے نہ تو دوبارہ اس سے شہمین کی بات کی اور نہ ہی کوئی دوسری بات کی تھی۔ وہ دونوں اس وقت بھی کیمپس کے باہر سیڑھیوں پر بیٹھے اپنے آج کے کوئز کی تیاری کررہے تھے جس کے لیے انہیں پروفیسر مارک سے کسی ٹاپک کا کوئی پوائنٹ کلیئر کرنا تھا جب ضوٹی بولی۔

میرا خیال ہے مجھے اب چلنا چاہیے۔ ورنہ پروفیسر مارک چلے جائیں گے۔

دو منٹ رکو میں لیپ ٹاپ آف کرلوں۔وہ اپنی گود میں رکھے لیپ ٹاپ میں کھلی ونڈوز بند کرتے ہوئے عجلت میں بولا۔

تمہیں وقت لگے گا۔ میں اکیلے چلی جاتی ہوں ۔ضوٹی نے سہولت سے کہا۔

نہیں۔ بس ہوگیا ۔ چلو۔وہ سیڑھیوں سے اُٹھتے ہوئے ٹھہر ٹھہر کر بولا تھا۔

اب تم کیوں رکی ہوئی ہو؟سفیر نے چند قدم آگے بڑھتے ہوئے مڑ کر اسے دیکھا جو ہنوز اپنی جگہ پر کھڑی تھی۔ 

تم ابھی میرے ساتھ چلو گے؟ضوٹی کچھ جزبزسی بولی تھی۔

ظاہر سی بات ہے۔سفیر کو اس کے اس بے تکے سوال کی کچھ سمجھ نہیں آئی تھی۔ وہ تیوری پر بل لیے بولا۔

لیکن یہ تو تمہاری عبادت کا وقت ہے۔ضوٹی نے دور اُفق کی جانب دیکھتے ہوئے اسے اپنی الجھن سمجھائی اب شام ڈھل رہی تھی۔ سفیر کی تیوری پر چند سلوٹیں اُبھر آئیں۔ پھر وہ سپاٹ لہجے میں بولا۔

میں عبادت نہیں کرتا۔وہ کہہ کر رُکا نہیں بلکہ تیزی سے آگے بڑھ گیا جب کہ ضوٹی اپنی جگہ ساکت کھڑی رہ گئی۔ اسے شہمین کے منہ سے سنی ایک بات یاد آئی تھی۔

مسلمان اور کافر کے درمیان فرق نمازہے۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

گل موہر اور یوکلپٹس

Read Next

اوپرا ونفرے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!