
سزا — مریم مرتضیٰ
میں اسے سمجھاتی تھی کہ ملازم کو اس کا حق دیا کرو۔ اسے بلا ضرورت مت جھڑکا کرو۔ آخر وہ بھی انسان ہے۔ اس کے
میں اسے سمجھاتی تھی کہ ملازم کو اس کا حق دیا کرو۔ اسے بلا ضرورت مت جھڑکا کرو۔ آخر وہ بھی انسان ہے۔ اس کے
”آپ اسے کسی عامل کے پاس لے کر کیوں نہیں جاتیں؟ضرور کوئی آسیب ہے اس پر ورنہ کوئی نارمل انسان بھی ایسا رویہ اختیار کرتا
آسماں کو چھوتے برف پوش پہاڑی سلسلے کے بیچ زندگی مصلو ب تھی، کچھ ایسے کہ سانس تک گروی معلوم ہوتی تھی ۔صدیوں سے کھڑے
”اری او بے شرم، بے حیا، بدلحاظ اپنے بہنوئی پر ایسا گھٹیا الزام لگاتے ہوئے تجھے شرم نہ آئی، تجھے اپنی بہن سمجھتا ہے کلموہی
آج کل گھر میں ایک ہی”ہاٹ ٹاپک” تھا اور وہ تھا ارسل بھائی کی شادی، بھاوج ہونے کے ناطے مجھ پر جیٹھانی ڈھونڈنے کا دباؤ
محمدۖہمارے بنتِ محمد رفیق (کراچی) محبت کی معراج پالینے والے نمازوں کا تحفہ ہیں وہ لانے والے سراپا صداقت سراپا امانت امین اور صادق وہ
نعت رسولِ مقبولۖ سید عطاالمصطفیٰ اے کاش کبھی ہو جو رسائی ترے در کی کرتا رہوں دن رات گدائی ترے در کی آنکھوں کے لیے
آؤ کھانا کھائیں نظیر فاطمہ آؤ بچو! کھانا کھائیں مل کر دسترخوان بچھائیں اپنے ہاتھوں کو دھولیں شروع میں بسم اللہ پڑھ لیں پلیٹ میں
رات کو دیکھوں! صوبیہ اطہر رات کو دیکھوں، جی للچائے کوئی تارا ہاتھ میں آئے امی بولیں بیٹے پیارے تم بھی تو ہو میرے تارے
ہمیں اُن سے عقیدت ہے نوشین فاطمہ عبدالحق ہے خوش قسمت وہ وادی جس کا مکہ نام ہے بچو! وہاں کا ذرّہ ذرہ قابلِ اکرام
Alif Kitab Publications Dismiss