المیزان
پیش لفظ
المیزان ، اس لفظ سے ہی یہ ظاہر ہورہا ہے کہ اس کہانی میں ”توازن“ کی بات کی گئی ہے، وہ توازن جس کے قائم کرنے سے انسان ایک پتلی رسی پر سے بھی بغیر گرے چل سکتا ہے، وہی توازن جس کو تھام کر انسان ہوا میں تیرنا سیکھ سکتا ہے اور وہی توازن جس کو برقرار رکھ کر انسان ایک بڑے اور وزنی پتھر کو ایک چھوٹے اور کمزور پتھر پر کھڑا کرسکتا ہے۔
یہ پڑھ کر شاید آپ کو ایسا لگے کہ یہ کسی سائنس فکشن پر لکھا کوئی ناول ہے۔ جیسا میں نے جب اپنی ایک دوست کو یہ نام بتایا ”المیزان “ تو اُس نے مجھ سے کہا، ”یار یہ تو کوئی کیمسٹری کی کتاب معلوم ہوتی ہے۔“ تو جواباً میں نے اُس سے کہا، ”بی بی پہلی بات بیلنس سکیل فزکس میں ہوتا ہے کیمسٹری میں نہیں لیکن اگر پھر بھی یہ آ پ کو کیمسٹری کی کتاب لگتی ہے تو میں کہونگی جی بالکل یہ ایک کیمسٹری کی کتاب ہی ہے لیکن یہاں جس ایلیمنٹ کی کیمسٹری دکھائی جارہی ہے وہ ”انسان“ ہے۔ وہی انسان جو جتنا ایک دوسرے سے مشابہت رکھتا ہے اتنا ہی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔“
میری اس تحریر کو لکھنے کی دو بنیادی وجوہات ہیں جن میں سے ایک میں آپ کو بتادیتی ہوں دوسری راز ہے، تو ایک وجہ یہ ہے کہ میں نے اکثر و بیشتر یہ محسوس کیا ہے کہ انسان اپنی زندگی کو دو انتہاﺅں پر گزار رہا ہے جبکہ میرا خیال ہے کہ انسان کو اپنی زندگی دو انتہاﺅں کے بیچ میں رہ کر گزارنی چاہیے اور اپنے اسی خیال کی بنیاد پر میں نے یہ ناول لکھا ہے جس کے تین مرکزی کردار ہیں۔
مسعود خان، وہ باپ جس نے لمحہ لمحہ اپنی بیٹیوں کی حفاظت کی لیکن کبھی بھی اُن کی زندگی کی بیساکھی نہیں بنا، انہیں ہمیشہ اپنی زندگی کے فیصلے کے لیے خود مختار رکھا۔
شہمین مسعود، وہ لڑکی جس نے بار بار غلطی کی مگر پھر سنبھل گئی۔ اور میرا تیسرا کردار سفیر احمد ، اس کردار کے متعلق کچھ بھی کہنامیرے لیے بہت مشکل ہے۔ اس لیے اسے میں آپ پر چھوڑتی ہوں۔ اسے آپ خود پڑھیں اسے سمجھیں اسے پرکھیں اس پر غور و فکر کریں پھر خود فیصلہ کرلیں یہ کیسا تھا۔
ہاں بس میں اتنا ضرور کہوں گی کہ یہ آپ کو لمحہ لمحہ چونکائے گا ضرور۔
فاطمہ شیخ