عبادالرحمن

یونٹ برن پرے اینڈ پیس میں صبح سویرے ہی ایک ہلچل سی مچ گئی تھی۔

ایمرجنسی کی اطلاعات تھیں اور وہ جو بیس گھنٹوں کی تکان زدہ ڈیوٹی کے بعد گھر جا کر ماما کے ہاتھ کے ناشتے اور پھر لمبی تان کر سونے کا سوچ سوچ کر ہی مسرور سی ہوئی جا رہی تھی۔ ایک انٹرنی فیضان کی دی جانے والی اس اطلاع پر رک گئی۔ 

میم اجالا!میم سحر کا فون آیا تھا کہ ان کی گاڑی خراب ہوگئی ہے کیس آپ کو ہینڈل کرنا پڑے گا۔

اس نے سامان واپس رکھا اور لیب کوٹ پہن کر روم میں آگئی۔

وہاں تیزاب سے جلی ہوئی ایک لڑکی لائی گئی تھی۔ اس کی حالت بے حد خراب تھی۔ جلنے کی شدت اس کی حالت سے واضح ہو رہی تھی۔ یہاں تک کہ اس کا لباس بھی تار تار ہوگیا تھا۔ درد اور جلن سے تڑپ کر اب وہ ادھ موئی ہوگئی تھی۔

”ABCDEاسیسمنٹ کریں۔اس نے ہدایت دی اور ساتھ ہی اس لڑکی کی سانس دیکھنے لگی جو کہ اکھڑ رہی تھی۔ اس نے آکسیجن ماسک لگا دیا۔ اس کی سانسیں بحال نہیں ہو رہی تھیں۔

واش کرو اسے بہت سارے پانی سے۔

“the first aid for burn patient with acid is water water and water”

اس کے ذہن میں ایسے کیسکے وقت ہمیشہ اپنے سر کی کہی ہوئی یہ بات گونج جاتی تھی۔

میم وی کانٹ واش!سلفیورک ایسڈ ہے، پانی لگے گا تو۔اس کے ساتھ اس وقت تین جونیئرز تھے اور تینوں کی ہی حالت خراب تھی۔ شروع میں وہ بھی ایسے ہی ڈر جایا کرتی تھی۔

پانی کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو تو پانی ہی ڈالنا ہوتا ہے۔ بھول گئے کیا ؟اس نے جونیئر کو ڈپٹا۔

وہ گھبرایا ہوا تھا، اس نے پانی کا سپرے کھول کر واش کا عمل شروع کر دیا۔ متاثرہ حصوں پر تقریباً بیس پچیس منٹ تک اس عمل کو جاری رکھنے کے بعد پھر اس کی دوسری ٹریٹمنٹ شروع ہوئی۔

اجالا کو اپنی زندگی کا پہلا کیس ذہن میں آنے لگا جب وہ ہاس جاب پر تھی ۔اس کی بھی فیضان جیسی بری حالت تھی۔وہ گھر جا کر بہت روئی تھی اور یہ ضد باندھ لی تھی کہ وہ آئندہ برن یونٹ میں نہیں جائے گی۔ اس کے بابا نے اسے خوب تسلی دی لیکن اس کی ماما نے اس کی اس کم ہمتی کے بعد اس ہی دن ایک رٹ لگا دی تھی کہ وہپلاسٹک سرجن ہی بن جائے ۔

ڈاکٹر اجالا گل! میں نے تمہارا نام اجالا اس لیے ہی رکھا تھا کہ تم دوسروں کی زندگی میں اجالا لے آ، اس لیے نہیں رکھا کہ ماں باپ کے پہلو میں آکر روتی بیٹھی رہو۔ تم اجالا گل ہو، تمہارا کام ہے مرجھائے ہوے گلوں کی تاریک زندگی میں روشنی پھیلانا، ان میں رنگ بھرنا۔تم اللہ کی چنی ہوئی بندی ہو جنہیں اللہ نے مسیحائی دی ہے۔یہ سب کو نہیں ملتی۔ اس دن اس کی ماما نے اسے بہت سمجھایا اور اتنا سمجھایا کہ وہ سمجھ ہی گئی۔

میم! سانس بحال نہیں ہو رہی اب تک۔فیضان نے اسے اطلاع دی۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔

تم سلائن لگاجلدی۔اس نے پھر کہا۔جونیئرز ڈرپ لگانے لگے۔

کچھ دیر بعد اُس کا سانس بحال ہوا۔

اُس کی مردہ کھال اُتارنے کا عمل شروع ہو چکا تھا اور کھال تھی ہی کہاں، اب وہاں بس پھٹا ہوا گوشت تھا جیسے کسی ریشمی کپڑے کو خاردار جھاڑیوں پر رکھ کر رگید دیا ہو یا ہڈیاں تھیں۔

ڈیڑھ گھنٹے کی تگ ودو کے بعد بالآخر اس لڑکی کی جان بچا لی گئی تھی، لیکن جو اس نے گنوا دیا تھا اس کی کہانی الگ ہے ۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!