”اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل، بلکہ اُن کا خرچ دونوں انتہاﺅں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔“ (الفرقان–۶۷)مولوی صاحب کی آواز کے ارتعاش سے پرندے کی پرواز میں لغزش آئی تھی۔
”اور وہ لوگ جو نہیں پکارتے اللہ کے سوا کسی اور معبود کو اور نہ وہ قتل کرتے ہیں کسی جان کو جسے اللہ نے مجرم ٹھہرایا ہو، مگر حق کے ساتھ، اور نہ ہی وہ زنا کرتے ہیں اور جو کوئی یہ کام کرے گا وہ اس کی سزا پائے گا ، دو گنا کر دیا جائے گا اس کے لیے عذاب قیامت کے دن اور وہ اس میں ہمیشہ ذلیل و خوار ہو کر رہے گا۔“ (الفرقان–۶۸)
”کتنی اچھی آیتیں ہیں ، اظفر تو بالکل عباد الرحمن میں سے ہے۔ جب ہی تو اس میں سب خصوصیات ہیں۔ سب اِسے پسند بھی کتنا کرتے ہیں۔ اس میں تو کوئی برائی ہے ہی نہیں۔“ سوچ کے آوارہ پرندے نے جلد ہی لغزش پر قابو پا لیا تھا۔
”بس کچھ بھی ہوجائے میں ابو جی کو راضی کر کے ہی رہوں گی۔ پتا نہیں کیا برائی دکھتی ہے انہیں اظفر میں، اتنا اچھا ہے وہ خوبیوں سے بھرپور۔ جب ابو جی کو یقین ہوجائے گا کہ اظفر مجھ پر کتنی جان چھڑکتا ہے تو وہ انکار نہ کر سکیں گے۔“
”گھر والے ہرگز نہیں مانیں گے، تم اپنے ابو کو سمجھاﺅ کہ وہ مجھ پر بھروسا رکھیں۔“ ہم اسی شہر میں رہ کرنئی زندگی شروع کریں گے۔ میری فیملی بہت روایت پرست ہے روشنی۔ ہمارے خاندان میں جو بھی خاندان اور ذات سے باہر شادی کرتا ہے وہ عاق کر دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ زندگی بھر اس کا منہ دیکھنا کوئی گوارا نہیں کرتا۔“ اظفر اسے سمجھا رہا تھا۔
”میری اپنی فیملی کے خیالات پھر بھی تھوڑے تبدیل ہوگئے ہیں لیکن خاندان والوں کے بیچ رہ کر میری فیملی بھی میرا ساتھ نہیں دے گی۔میں نے امی سے صرف تمہارا ذکر کیا تھاتو انہوں نے کہا کہ آئندہ میں ایسا سوچوں بھی نہ۔“ کچھ دن پہلے کی کی گئی باتیں اس کے ذہن میں تازہ ہو رہی تھیں۔ کتنا مجبور ہے اظفر پھر بھی میرے لیے اتنا بڑا قدم اٹھانے کو تیار ہے۔
”اور وہ لوگ (عبادالرحمن) جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب کسی بے ہودہ کام کے پاس سے ان کا گزر ہوتا ہے تو وقار سے گزر جاتے ہیں۔ اور وہ لوگ جن کو ان کی رب کی آیات سے سمجھایا جاتا ہے تو ان پر بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گر پڑتے۔“ (الفرقان ۷۲،۷۳) مولوی صاحب بولے اور سوچوں کا سلسلہ ٹوٹا۔ پرندے نے مایوسی سے پرواز نیچی کردی۔
”جھوٹ! ڈیڑھ سال ہوگیا مجھے اور اظفر کو ساتھ ساتھ، اس نے آج تک مجھ سے جھوٹ نہیں بولا۔ ہر بات کتنی صاف صاف بتا دیتا ہے تاکہ ہمارا رشتہ بھروسے کی ڈور سے بندھا رہے۔ اللہ جی آپ مجھے اپنے عباد الرحمن میں سے ایک بندہ نہیں دے سکتے کیا؟ پلیز اللہ جی اظفر کو میرا ہم سفر بنا دیں۔“ وہ دعا سے پہلے ہی دعا مانگنے لگی تھی۔
مولوی صاحب بیان کے آخری مراحل میں تھے۔
”اور وہ لوگ جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ہماری بیویوں اور اولاد کی طرف سے ہمیں آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا۔ ان ہی لوگوں کو جنت کے بالا خانے ملیں گے کیوں کہ انہوں نے صبر سے زندگی گزاری اور فرشتے ان کو دعا و سلام کہتے ہوئے ملیں گے۔ ہمیشہ رہیں گے اس میں اور وہ ٹھہرنے اور رہنے کی بہترین جگہ ہے۔ اے نبی! کہہ دیجیے میرے رب کو تمہاری کوئی پروا نہیں اگر تمہاری پکار نہ ہوتی، تم نے اُس کے حکموں کو جھٹلایا ہے، اب جلد ہی اس کی سزا پاﺅ گے۔“ (الفرقان –۷۴ تا ۷۷) درس کے چند آخری کلمات مولوی صاحب نے ادا کیے تھے۔
سوچ کا پرندہ واپس اپنے گھونسلے میں آکر آنکھیں موندے بیٹھ گیا تھا۔
”الحمد للہ رب العلمین۔“ مولوی صاحب نے اللہ کی حمد سے دعا کا آغاز کیا تھا۔
”یا اللہ آپ میری دعا ضرور قبول کیجیے گا۔ میں آپ کی ہر بات مانوں گی، نماز کی بھی پابندی کروں گی۔ میرے اللہ جی۔“ وہ بھی گڑگڑا کر دعا کرنے لگی تھی۔
”اللہ جی! ابو جی کے دل کو اظفر کے لیے نرم کر دیں۔ انہیں اظفر میں اچھائیاں بھی نظر آنا شروع ہوجائیں، یا اللہ اظفر کتنا اچھا ہے نا آپ کے نیک بندوں میں سے ہے۔ عبادالرحمن میں سے ہے نا۔ اس میں تو آپ کے بندوں والی کتنی خوبیاں ہیں۔ یا اللہ مجھے مایوس نہ کیجیے گا۔“ آنسو اس کی آنکھوں سے رواں ہوگئے، وہ بہت جذب سے دعا مانگ رہی تھی۔
اس نے منہ پر ہاتھ پھیر لیا۔ نگاہ دوڑائی تو اکثر خواتین فارغ ہو کر اب مصافحے اور ایک دوسرے کی خیریت دریافت کرنے میں مشغول تھیں۔ وہ اِدھر اُدھر مولوی انکل کی بیوی کو تلاش کرنے لگی۔ ایک کونے میں وہ کسی خاتون سے گفت گو میں مصروف نظر آئیں تو اٹھ کر ان کے قریب آگئی۔
”السلام علیکم خالہ جی!“ اس نے ہاتھ بڑھایا۔
”وعلیکم السلام، کیسی ہو روشنی بیٹی؟“ انہوں نے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا۔ بچپن سے نکل کر اب وہ جوانی میں قدم رکھ چکی تھی لیکن روشنی نے ہمیشہ ان کا ایسا ہی دھیما دھیما محبت سے چور لہجہ ہی سنا تھا۔
”میں ہوں ٹھیک خالہ! آپ کی طبیعت کیسی ہے؟“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ان سے بات کرتے ہوئے اس کے ذہن سے اظفر، ابو جی سب محو ہوگئے تھے۔
”مالک کا احسان ہے میں بالکل ٹھیک ہوں۔ بیٹی تم کہاں مصروف رہتی ہو اب آتی ہی نہیں۔“ انہوں نے پیار سے پوچھا۔
”بس! گھر میں ہی ہوتی ہوں، ہادی کیسا ہے خالہ؟“ روشنی نے ان کے بیٹے کے متعلق سوال کیا۔
”عبدالہادی اچھا ہے، بس آخری سال ہے وکالت کا پھر گھر آ جائے گا وہ۔ فون پر بات ہوجاتی ہے اکثر۔“ انہوں نے جواب دیا۔
روشنی جب ان کے گھر پڑھنے آتی تو وہ اور عبدالہادی ساتھ مل کر خوب کھیلا کرتے۔ لڑتے بھی تھے پھر خالہ اُن کی صلح کروا کر انہیں چینی والا پراٹھا کھلایا کرتیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ بڑے ہوئے، مشغلے بدلے، عمر کے تقاضے بدلے تو ان کا سامنا کم ہوتے ہوتے نہ ہونے کے برابر رہ گیا اور میٹرک کے بعد وہ تعلیمی سلسلے کے لیے ہوسٹل میں ہی شفٹ ہوگیا۔ پھرمہینہ پندرہ دن میں آتا اور خالہ سے ہی پتا چلتا رہتا کہ ہادی اب اس جماعت میں ہے، ہادی کا اب یہ نتیجہ آیا، ہادی آیا تھا آکر چلا گیا وغیرہ وغیرہ ۔ اب تو اسے اس کا چہرہ بھی یاد نہیں تھا کہ وہ بڑا ہو کر کیسا دکھتا ہے۔
”اچھا ابھی بھی وہ آتا ہے تو چینی والے پراٹھے کھاتا ہے؟“ روشنی نے شرارت سے پوچھا۔
”ارے بیٹی! اب تو وہ گھی ہی نہیں کھاتا، کہتا ہے موٹا ہو جاﺅں گا۔“ خالہ نے مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔
”اچھا! لگتا ہے شہر کی ہوا لگ گئی ہے ہادی کو۔“ اس نے شوخی سے کہا۔
”اچھا! خالہ میں چلتی ہوں، اپو جان آئی ہوئی ہیں آج ان کی طبیعت اچھی نہیں تھی ورنہ وہ درس میں ضرور آتیں۔“روشنی نے ان کے ہاتھوں کو نرمی سے تھامتے ہوئے کہا۔
”اوہو! اگر تمہاری پھوپھو کا معاملہ نہ ہوتا تو میں ایسے تمہیں جانے نہیں دیتی، لیکن حقوق العباد سب سے پہلے پورے کرنے چاہئیں نا تو تم جاﺅ۔“ انہوں نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
”جی خالہ! دعاﺅں میں یاد رکھیے گا، اچھا اللہ حافظ۔“ وہ ہاتھ ملا کر باہر نکل آئی۔
یہاں آتے ہوئے اس کا ذہن جتنا بوجھل تھا، واپسی پر اتنا ہی ہلکا پھلکا تھا۔
کہتے ہیں دن کی کچھ گھڑیاں دعاﺅں کی قبولیت کی ہوتی ہیں اور روشنی نے دعا کب کی تھی۔ اس نے تو رو رو کر ضد کی تھی شاید وہ ہی گھڑیاں قبولیت کی تھیں۔
٭….٭….٭