”آپ کو لگی تو نہیں ؟“ کسی چیز سے زور دارٹکرکھا کر وہ دو قدم پیچھے ہٹی ہی تھی کہ بھاری سی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔
آج فارم جمع کروانے کا آخری دن تھا اور وہ اپو جان کے شہر سے چھٹیاں منا کر واپس آئی تو اسے اس بات کا علم ہوا تھا۔
”نہیں! میں تو پھول سے ٹکرائی ہوں نا لگے گی بھلا کیوں؟“ اس نے غصے سے طنز کیا اور سر سہلانے لگی۔
”معاف کیجیے گا، غلطی میری ہی ہے۔“ اس کی شرمندہ سی آواز نکلی۔
”جانے دیجیے آپ جیسے تو ….“ اس نے سر اٹھایا اور سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر زبان کو تالے سے لگ گئے۔ روشنی کی زبان کو تالے لگ جانے کا مطلب کچھ تو بات تھی نہ سامنے والے میں۔
دراز قد، گندمی رنگت، سیاہ بال پیشانی پر بکھرے ہوئے۔ گرمی اور پسینے کی وجہ سے ماتھے پر کچھ بال چپک کر اور دل کشی بخش رہے تھے۔ آنکھوں پر دھوپ کا سیاہ چشمہ اُس کی وجاہت کو الگ سا ہی رنگ دے رہا تھا۔
”جی….؟“ مخاطب نے اسی نرمی سے سوالیہ جی کہا۔
”کک…. کچھ نہیں ۔“ وہ سنبھل گئی تھی۔
”میں واقعی شرمندہ ہوں۔“
”لائیے میں آپ کا فارم جمع کروا دوں۔“ اس نے ہاتھ بڑھایا۔
”نہیں! میں جمع کروا لوں گی۔“ روشنی نے نہ چاہتے ہوئے بھی انکار کر دیا۔
”اجی دیجیے نا۔ میں ابھی جمع کروا دوں گا۔“ وہ بہ ضد تھا۔
روشنی نے فارم اسے تھما دیا اور خود قطار سے الگ ہو کر کھڑی ہوگئی۔ وہ مسلسل اُسی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔
”روشنی!“وہ چونکی، سامنے وہ ہی کھڑا تھا ۔ وہ حیران سی اسے تکنے لگی۔ اس کی سب سے نمایاں بات اُس کا دراز قد تھا۔
”وہ دراصل فارم میں ہی آپ کا نام دیکھا۔یہ لیجیے۔“ اس نے سلپ اس کی طرف بڑھائی۔
”شکریہ!بہت شکریہ۔“اس نے جلدی سے کہا۔اس نے مسکراہٹ کے ساتھ شکریہ قبول کیا۔
”آپ؟“ روشنی اتنا کہہ کر چپ ہوگئی۔
”میرا نام اظفر علی ملک ہے ، فائنل ائیر کا اسٹوڈنٹ ہوں۔“ وہ مسکرایا۔
”اظفر علی ملک۔“اس نے دل ہی دل میں دہرایا۔ یہ پہلی ملاقات آخری نہ رہی بلکہ دوسری تیسری، چوتھی پھر ایک کے بعد ایک ملاقات اور یہ ملاقاتیں آخر محبت میں تبدیل ہو ہی گئیں۔ وہ گریجوایٹ ہورہی تھی اور اظفر ماسٹرز۔ بس ایک سال میں ہی انہوں نے ایک دوسرے کو اپنے لیے بہترین سمجھا اور شادی کا فیصلہ کر لیا۔
٭….٭….٭