روشنی کا کپکپاتا وجود گھٹنوں کے بل زمین پر آ گرا اس کا وجود تو یہیں تھا، لیکن اس کی سوچیں ماضی میں کہیں کھو گئی تھیں۔
وہ صدمے کی سی کیفیت میں اظفر کے بے جان و ساکت جسم کو دیکھ رہی تھی۔ اظفر نے اجالا کو بچا کر اپنی جان دے دی تھی، روشنی کبھی بھی ایسا نہیں چاہتی تھی مگر….
لوگ اظفر کو اٹھا کر اسپتال لے گئے، روشنی اُجالا کو گلے لگا کر رونے لگی۔
عباد الرحمن ہم سب میں کہیں نہ کہیں موجود ہوتا ہے۔ بس ضرورت ہوتی ہے اُسے پہچاننے کی، اُسے احساس دلانے کی، اسے اپنی صفات کا دوسروں کو بھی فائدہ پہنچانا ہے اور خود کو بھی۔
اظفر کی زندگی عبادالرحمن جیسی نہ تھی، لیکن اس کی موت ایسی ہی تھی۔ اس نے اپنی جان دے کر ایک عبادالرحمن کو بچایا ، اس نے ساری زندگی برائی کر کے اپنی موت کو اچھا بنایا۔ ایک انسان کو بچا کر پوری انسانیت کو بچایا اور انسان بھی وہ جو مسیحا تھا، دوسروں کی جان بچانے والا۔
مائدہ کا کیس ڈیڑھ سال عدالت میں چلتا رہا اور پھر آخر کار فتح حق کی ہوئی یعنی ہادی کی ہوئی راستہ دکھانے والے کی ہوئی، سعد کو عمر قید اور اس کے دوست کو چند سال کی جیل مع جرمانہ ہوئی۔
اجالا نے ریان، ردا اور اپنے کچھ اور مخلص دوستوں کے ساتھ مل کر این جی او کھول لی جس کا نام روشنی نے ”عبادالرحمن فاﺅنڈیشن“ تجویز کیا۔
اُجالا کے سب دوست بلا معاوضہ کام کرنے کے لیے تیار تھے ، لیکن ریان راضی نا ہوا اور تنخواہ کے طور پر اس نے روشنی اور ہادی سے اجالا کا زندگی بھرکا ساتھ مانگ لیا۔
مائدہ نے مختلف سرجریز کے تکلیف دہ عمل سے گزرنے کے بعد بھی ہمت نہیں ہاری اور پڑھائی جاری رکھی۔ وہ سول انجینئر بن رہی ہے۔ اس نے اپنے ادھورے جسم و چہرے کے ساتھ اپنے خوابوں کو مکمل کیا۔ آج وہ پڑھ بھی رہی ہے اور اجالا کے ساتھ کام بھی کرتی ہے۔ اسے اُجالا کی این جی او کی پہلی پیشنٹ اوراس پیشنٹ کا کامیاب علاج ہونے کا اعزاز حاصل ہے جس کی مکمل سرجریز ”عبادالرحمن فاﺅنڈیشن“ کے تحت ہوئیں۔
آپ کے ساتھ برائی ہو اور آپ بھی برے بن جائیں اور برے بن کر دوسروں کے ساتھ پیش آئیں یہ عام بات ہے۔ ایسا سب کرتے ہیں، لیکن جن کی ساتھ برا ہو وہ اس کے باوجود بھی اچھے بن جائیں اور اپنی اچھائی سے اس برائی کو مار دیں، ایسے ہی لوگوں کو کہتے ہیں۔”عبادالرحمن۔“
٭….٭….٭