عبادالرحمن

بابا آج میں نے ایک ٹوٹا ہوا مرد دیکھا ۔اجالا گھر آگئی تھی سب بیٹھ کر رات کا کھانا کھا رہے تھے کہ اس نے اچانک ہادی کو مخاطب کیا۔

مرد ٹوٹا ہوا۔ پتھر کا تھا کیا؟ولید نے کہا۔

پتھر ٹوٹتا نہیں ہے، یہ بات یاد رکھنی چاہیے۔اسامہ نے اپنی فلاسفی جھاڑی۔

اجالا کو بات تو کرنے دو۔ہادی نے اجالا کو آج غیر معمولی طور پر چپ پایا، تو ان دونوں کو ٹوک دیا۔

بابا وہ اتنی رعب دار شخصیت کا مالک تھا، لیکن جب رویا تو….تو جیسے ایک ہارے ہوئے انسان کی طرح رویا۔ ٹوٹا بکھرا خود کو سمیٹنے سے بھی قاصر۔ جیسے اپنی زندگی جوئے میں ہار دی ہو اس نے۔مائدہ آہستہ آہستہ بولی، پھر چمچے میں تھوڑے سے چاول لے کر اپنے منہ میں ڈالے۔

ایسے ہوتے ہیں کچھ لوگ۔وہ بولے۔

بابا اس کی بیٹی اتنی جل گئی ہے کہ وہ اسے پہچان بھی نہیں پایا۔ اس کے ایک ہاتھ سے اس نے پہچانا کہ اس کی بیٹی ہے۔اجالا پھر بولی۔

بیٹا آپ کھانا کھا لو پھر ہم بات کریں گے۔اس نے محسوس کیا تھا وہ کھانا نہیں کھا رہی تھی۔

وہ مطمئن ہو کر کھانا کھانے لگی ، روشنی بھی اسے کھانا کھاتا دیکھ کر تھوڑی مطمئن ہوئی کیوں کہ وہ بھی نوٹ کر چکی تھیں اجالا اپ سیٹ ہے۔

کھانے کے بعد عبدالہادی خود اجالا کے کمرے میں آگیا۔

ہاں تو اب بتابھئی ہماری گڑیا کیوں اداسی کی پڑیا بن گئی ہے ؟اس نے اس کے کمرے میں آکر صوفے پر بیٹھتے ہوئے اسے چھیڑا۔ اجالا اس کی سگی اولاد نہیں تھی، لیکن اس سے اسے محبت بالکل پلوٹھی کی اولاد جیسی ہی تھی۔ اجالا کو یہ بات بتا دی گئی تھی کہ وہ اس کی بیٹی نہیں اور اس کے اصلی باپ نے اپنے گھر والوں کی وجہ سے روشنی کو چھوڑ دیا تھا۔ اجالا کو یہ سب بتانے کے لیے مولوی عبدالقدیر نے زور دیا تھا تاکہ وہ بڑی ہو، تو حقیقت معلوم ہونے کی وجہ سے کسی بدگمانی کا شکار نا ہو۔ بعد میں اُجالا اپنے ڈاکومنٹ میں باپ کے نام کے خانے میں جب اظفر علی دیکھتی تو کوئی سوال نا کرتی تھی۔ وہ اس ہی خیال کے ساتھ بڑی ہوئی تھی اس لیے اب اس کے ذہن میں یہ سب باتیں آتی بھی نہیں تھیں۔ نا ہی اس نے کبھی سوال کیا میرا باپ کہاں ہے اور نا ہی کبھی روشنی یا ہادی نے اسے اس طرح کی باتوں میں پڑنے دیا تھا۔ روشنی اور ہادی نے ایک بار بازار میں اظفر کو دیکھا تھا اور روشنی نے ضد کر کے اس کا نام بھی تبدیل کروا دیا تھا تاکہ کبھی اظفر یا اس کے گھر والے اس کی بیٹی کو ڈھونڈیں بھی تو اس تک رسائی نہ حاصل کر سکیں۔ وہ اسے ڈھونڈیں ایسی خوش فہمی اسے تھی بھی نہیں۔

ہادی نے جس طرح اس کا خیال رکھا ، اس کی پرورش کی روشنی کو کبھی احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ اس کا سوتیلا باپ ہے۔ روشنی سے زیادہ وہ اس کی پڑھائی اس کے کھانے، سونے، امتحانات میں اس کی تیاری کروانے کی پروا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ اسے پڑھا لکھا کر زندگی کی اس کامیاب سٹیج تک لے آیا۔ اُجالا کے بعد اس کے دو بیٹوں کی پیدائش بھی اِس کی اہمیت و محبت کم نہ کر سکی اور اس سب کو دیکھ کر روشنی اکثر کہتی تھی ہادی تم واقعی عباد الرحمن ہو رحمن کے کامیاب بندے ہو۔

بابا آج صبح ایمرجنسی میں کیس آیا۔ وہ بہت خوب صورت تھی، لیکن اب وہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کے چہرے پر سوائے جھلسی ہوئی کھال کے کچھ نہیں بچا۔وہ اسے دھیرے دھیرے ساری تفصیلات بتانے لگی۔

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!