عبادالرحمن

خود کو مکھی سے تشبیہ نہ دو۔ وہ بے چاری تو رقیق البطن ہوتی ہے، تمہاری طرح نہیں ہوتی ۔

وہ میری طرح بدقسمت بھی تو نہیں ہوتی۔اس نے آہستگی سے کہا۔

مجھ سے شادی کرلوگی تو تمہاری یہ غلط فہمی بھی دور ہوجائے گی۔اس نے جواب دیا۔

وہ خاموش رہی۔

روشنی اکیلی عورت کا اس معاشرے میں گزارا مشکل ہے تم جانتی ہو۔

میں ایسا نہیں سمجھتی۔اس نے پھر بات کاٹی۔

تم ایسا نہیں سمجھتیں کیوں کہ تم اچھی ہو، لیکن پورا معاشرہ تمہاری طرح اچھا نہیں ہے۔ ہم بدل سکتے ہیں، ہماری سوچ بدل سکتی ہے، پورے سماج کی تو نہیں بدل سکتی نا۔ بدلنے میں وقت لگتا ہے، ویسے بھی شادی شدہ عورت دین کی رو سے بھی افضل ہے جو گھر سنبھالے، بچوں کودیکھے، شوہر کے ساتھ ہنسی خوشی رہے۔اسے ہنسی آگئی یہ سب باتیں صبح اس سے خالہ جی بھی کر کے گئی تھیں۔

دیکھو روشنی اکیلے بھی کب تک رہوگی۔ عائشہ چھوٹی ہے ابھی، کل بڑی ہوگی تم سے سوال کرے گی ، بہت مشکل ہو جائے گا تمہارے لیے اور ہمارے لیے بھی۔ ہم تمہیں اس طرح زمانے کے رحم و کرم پر تو نہیں چھوڑ سکتے نا۔وہ اُسے کو سمجھانے لگا۔

تم ایسی عورت کو کیوں اپنانا چاہتے ہو جو طلاق یافتہ ہو، بچے کی ماں ہو اور اس طلاق کا دھبا اس کے دل کے ساتھ ساتھ اس کے جسم پر بھی ثبت ہو۔داغ دار عورت سے کیوں شادی کرنا چاہتے ہو؟اس نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔

روشنی میں پہلے بھی چاہتا تھا تم سے…. لیکن پھر تمہاری شادی ہوگئی ۔ اب ابا جی نے کہا، تومیں ابا اماں کو انکار نہیں کر سکتا۔وہ بولا۔

میں وہ روشنی نہیں رہی جیسی تم سوچتے ہو، روشنی بدل گئی ہے۔وہ بولی تو آنسوں کی نمی اس کے لہجے سے نمایاں تھی۔

روشنی کبھی بدلتی نہیں ہے۔ روشنی کا کام ہوتا ہےاجالاکرنااور میں اب تمہارے ساتھ اجالا بانٹنا چاہتا ہوں۔اس نے عائشہ کی طرف دیکھا۔

روشنی نے ایک اور عبادالرحمن کو اپنے سامنے بیٹھا دیکھا۔

اس کی آنکھیں نم ہونے لگیں۔

میں ہمیشہ سوچتی تھی کہ مجھے اس دنیا میں عباد الرحمن کیوں نہیں ملتے، میں نے اظفر کو عباد الرحمن سمجھا تھا پر اس نے….اور میری تلاش نامکمل رہی۔اس نے سر جھکا کر کہا۔

عبادالرحمن کو اِدھر اُدھر نہیں اپنے اندر تلاش کرو، تمہاری تلاش ختم ہوجائے گی ۔اس نے کہا۔

وہ ہادی کو دیکھنے لگی کتنا فرق تھا ہادی اور اظفر میں وہ بس لینا جانتا تھا اور یہ بس دینا۔وہ ہی فرق جو عباد الرحمن اور نافرمان میں ہوتا ہے۔

میری تلاش تو آج ختم ہوگئی۔اس نے آنسو صاف کیے۔

ہادی مسکرایا ڈاڑھی تلے ایک گڑھا سا نمودار ہوا۔ پھر وہ جانے کے لیے کھڑا ہوگیا۔

روشنی بھی اپنی جگہ سے کھڑی ہوگئی۔

ہادی دروازے پر آکر کھڑا ہوا اور اس نے رُخ موڑ کر پوچھا۔

روشنی تم ابھی بھی اُلٹے ہاتھ سے کام کرتی ہو اور سیدھے ہاتھ سے کام کرنے میں چیزیں توڑ دیتی ہو؟روشنی نے اپنا اُلٹا ہاتھ کالی چادر کے اندر چھپا لیا۔

اور ابھی بھی ہر کھانے کی چیز میں کڑی پتے ڈالتی ہو کیا؟وہ پوچھ رہا تھا۔

تمہیں ابھی تک یاد ہے۔وہ پوچھ نہیں رہی تھی۔ 

ہاں مجھے ساری پرانی باتیں یاد ہیں، پر اب نئی یادیں بنانا چاہتا ہوں۔وہ بتا رہا تھا۔

روشنی عائشہ کو دیکھنے لگی اور ہادی کمرے سے باہر نکل گیا۔

اور اس طرح روشنی افراز چھبیس سال کی عمر میں عبد الہادی سے منسوب ہوگئی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!