”مس روشنی! اظفر علی ملک آپ کے شوہر ہیں؟“ پولیس افسر اس سے بیان لینے آیا ہوا تھا۔
”جی۔“
”آپ لوگوں کے تعلقات کیسے تھے؟“
”صحیح تھے۔“
”صحیح کسے کہتے ہیں؟“
”جیسے میاں بیوی میں تعلق ہوتا ہے۔“
”محلے کے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ لوگوں کے درمیان اکثر جھگڑا رہتا تھا۔“
”جھگڑا، تو ہر میاں بیوی میں ہوتا ہے۔“
”لیکن اتنا نہیں کہ کوئی شوہر اپنی بیوی پر تیزاب پھینک دے۔“
وہ خاموش ہوگئی۔
”دیکھیں بی بی آپ سچ جواب دیں ، کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔“
”انہوں نے مجھ پر تیزاب نہیں پھینکا۔“
”بی بی….“
”یہ ایک حادثہ تھا۔“
”حادثے کے وقت آپ کے شوہر کہاں تھے؟“
وہ سوچنے لگی کیا جواب دے۔پھر بولی۔
”ابھی کہاں ہیں وہ؟“
”سوال کرنا میرا کام ہے آپ کا نہیں۔“
وہ خاموش ہوگئی کیا کہے، اگر جھوٹ پکڑا گیا، تو سب کچھ الٹا نا ہوجائے۔
”جس طرح یہ بچی تمہاری اکلوتی اولاد ہے اس طرح اظفر بھی میری اولاد ہے۔ اگر اسے تکلیف میں نہیں دیکھنا چاہتی، تو میرے بیٹے کو بھی تکلیف مت دینا۔“ اسے اپنی ساس کی بات یاد آگئی۔
”وہ،وہ گھر پر نہیں تھے۔“
”ہمم ۔۔۔۔تو یہ حادثہ کیسے پیش آیا؟“
”میں تیزاب سے واش روم دھونے والی تھی، تو وہ میرے ہاتھ سے گر گیا۔“ اُف جھوٹ بولنا کتنا مشکل ہے۔
”لیکن آپ تو اپنے گھر کے کمرے میں گری ہوئی ملی تھیں۔ تیزاب وہاں کیسے آگیا؟“ وہ پھر چپ ہوگئی۔
”اظفر نے تیزاب شیشے والی برتنوں کی الماری سے نکالا تھا۔ اب کیا کروں۔“
”مس روشنی آپ گھبرائیں نہیں کھل کر جواب دیں۔“
”ہمارا واش روم کافی چھوٹا ہے اس لیے تیزاب….“ کمرے کی برتن والی الماری میں رکھا تھا اندر کی طرف تاکہ، تاکہ کوئی زخمی نہ ہوجائے۔“
”تیزاب الماری میں اوپر رکھا تھا یا نیچے؟“
”اوپر….اور اس کا ڈھکن ڈھیلا تھا۔ الماری سے نکالتے ہوئے گر گیا۔“
”اچھا اس کاپی پہ کچھ لکھ کر دکھائیں۔“ افسر نے ایک پین اور کاپی اس کے سامنے رکھ دی۔
وہ بیڈ پر تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھی تھی۔
”لکھنا تو آتا ہے نا؟“ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
”تو لکھیں۔“ اس نے کاپی اس کی گود میں رکھ کر پین اس کی طرف بڑھایا۔ وہ اس کشمکش میں تھی پین تھامے یا نہیں۔ اس کا سیدھا ہاتھ کافی حد تک صحیح سلامت تھا، لیکن وہ الٹے ہاتھ سے لکھتی تھی جو کہ جل چکا تھا اور اس پر بھی پٹیاں بندھی تھیں۔
”جو بھی بیان دینا سوچ سمجھ کر دینا تاکہ تمہارے حق میں بہتر ہو۔ ہمیں ہمارے بیٹے کی جان سے زیادہ کچھ عزیز نہیں۔ تمہارا تو صرف جسم جلا ہے نا۔ ہم تو….“
”مس….“ افسر نے پھر پین بڑھایا۔
”میں، میں….میں نہیں لکھ سکتی۔ میں لیفٹ ہینڈر ہوں۔“ پورے بیان میں اس نے پہلی بار سچ بولا تھا۔
افسر مسکرایا۔جیسے کہہ رہا ہو۔ ”مجھے پہلے ہی پتا تھا۔“
اسے خوف آیا اس کی بچی کا کیا ہوگا۔ اگر اظفر کے گھر والے اسے بالا کوٹ لے گئے تو؟
”اوکے مس روشنی گیٹ ویل سون۔“ پولیس افسراپنا کاپی پین سنبھالتا وہاں سے چلا گیا۔
روشنی کے بیان کے بعد وہ ایف آئی آر جو کہ محلے والوں نے اظفر کے خلاف کٹوائی تھی، خارج کر دی گئی۔
روشنی کے بیان سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ یہ سب حادثاتی طور پر ہوا تھا۔ ایسڈ سے واش روم دھونا عام بات تھی۔ ایسڈ کا کمرے کی الماری میں ہونا غیرمعمولی بات تو تھی، لیکن قابل قبول تھی۔ روشنی کی میڈیکل رپورٹ سے بھی یہ ظاہر ہوتا تھا کہ تیزاب پھینکنے کی شدت زیادہ نہیں تھی کیوں کہ ہمارے ہاں اگر کوئی غصے ، بدلے یا کسی اور وجہ سے ہی تیزاب پھینکتا ہے تو اس کا ٹارگٹ چہرہ ہوتا ہے اور اس پھینکنے میں شدت اس قدر ہوتی ہے کہ بعض اوقات ہڈیاں تک گل جاتی ہیں۔ روشنی کے زخموں کے گہرے ہونے کی وجہ تیزاب کو شدت سے پھینکنا نہیں بلکہ اس کا علاج دیر سے ہونا ہے۔ جب تک تیزاب اندر تک سرایت کر چکا تھا۔ حقیقتاً بات بھی ایسی ہی تھی اظفر روشنی پر تیزاب پھینکنا تو چاہتا ہی تھا، لیکن اس کے ایسا کرنے سے پہلے ہی روشنی کا اپنا ہاتھ ٹکرانے کی وجہ سے تیزاب کی بوتل پہلے ہی اس پر الٹ گئی تھی۔ روشنی بائیں ہاتھ سے کام کرتی تھی اس لیے الماری میں سے الٹے ہاتھ سے ایسڈ نکالنے کی وجہ سے وہ اس کے الٹے حصے پر ہی گرا تھا، جب کہ حقیقتاً اظفر کے سیدھے ہاتھ میں تیزاب کی بوتل ہونے کی وجہ سے روشنی کے جسم کے الٹے حصے پر تیزاب گرا تھا۔