عبادالرحمن

سروس روڈ پار کر کے اس نے کھانے کی دکان کا رُخ کیا جہاں نسبتاً ہجوم کم تھا۔ ویسے بھی سردیاں آرہی تھیں، لوگ مغرب ہوتے ہی

گھروں میں دبک کر بیٹھ جاتے تھے۔

ایک برگر۔اسے دیکھتے ہی دکان دار اٹھا تو اس نے فوراً ہی مطلوبہ چیز مانگ لی۔

چکن یا بغیر چکن؟ کیچ اپ ڈالوں یا؟“ 

سادہ چکن کا۔اس نے دکان دار کا جملہ مکمل نہیں ہونے دیاتھا، وہ جلد از جلد وہاں سے جانا چاہتی تھی۔

دکان دار نے عجیب نظروں سے اسے دیکھا اور برگر بنانے لگا۔ پہلے کی بات ہوتی، تو وہ اپنی مرضی سے ایک ایک چیز ڈلواتی، دس باتیں سناتی پھر دکان سے رخصت ہوتی۔ وہ ویسی نہیں تھی جیسے پہلے تھی، پہلے وہباتوں کی دکانتھی اور اب اسے بات کرنا ہی بھول گیا تھا۔

دکان دار نے شاپر پکڑایا، اس نے پیسے دیے اور فوراً وہاں سے ہٹ گئی۔

تیز تیز قدموں سے وہ روشنی سے پھر اندھیرے کی جانب چل دی۔ وہ گھر کے بہ جائے مقامی پارک آگئی۔ وہاں اندھیرا تھا۔ صرف سٹریٹ لائٹس جل رہی تھیں جن سے ان لائٹس کے نیچے کا حصہ روشن تھا۔ وہ درخت کے نیچے نسب ایک بنچ پر بیٹھ گئی۔ یہ کونا نسبتاً تاریک تھا۔ اس نے شال چہرے سے ہٹائی اور برگر کھانے لگی۔

اسے برگر کا ذائقہ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ اسے اب کسی کھانے کا ذائقہ سمجھ نہیں آتا تھا۔ وہ کھانا کھاتی تھی تاکہ زندہ رہ سکے، چند دن یا چند سال اور۔ اس کی سوچوں کا تسلسل کسی بچی کی ہنسی کی آواز سے ٹوٹا۔ دور روشنی میں دو تین سالہ بچی اپنی امی ابو کے ساتھ ٹہلتے ہوئے باتیں کررہی تھی۔

اسےوہیاد آئی جس کی وجہ سے وہ جینا چاہتی تھی، چند دن اور چند سال اور!

کیوں تنگ کررہی ہو روشنی؟اپو جان نے جھلا کر کہا۔

اس نے کھیرے کاٹتے ہوئے ایک نگاہ اپنی پھوپھو کو دیکھا،کھیرے کے دو سلائس منہ میں ڈالے اور چھری ایک طرف رکھ کر اپو جان کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔

اگر یہ ہی میں آپ سے اور ابو جی سے کہوں پیاری اپوجان تو؟اس نے بڑے پیار سے ان کی بات ان ہی کو لوٹا دی تھی۔

انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کے ہاتھوں کے بانہوں کے ہار کو توڑا اور پلٹ کر اسے غصے سے دیکھا۔

بہت بگاڑ دیا ہے تمہیں بھائی جان نے۔اس نے ایک لمحہ سنجیدگی سے انہیں دیکھا اور سر جھٹک کر پھر کھیرے کاٹنے لگی۔

صرف بھائی جان نے تو نہیں بگاڑا۔اس کی سنجیدگی برقرار تھی۔

تو ان کے ساتھ اور کس نے بگاڑا ہے؟انہوں نے ٹھوڑی پر انگلی ٹکائی۔

ابو جی کے ساتھ آپ نے بھی تو بگاڑا ہے۔اس نے کہا اور قہقہہ لگایا اور ساتھ میں کھیرے کے دو سلائس منہ میں غائب کیے۔

ٹھہر جا! ابھی تجھے بتاتی ہوں۔انہوں نے اِدھر اُدھر متلاشی نگاہوں سے دیکھا اور سامنے پڑا بیلن اٹھا لیا۔ اس نے اپنی شامت آتی دیکھ ایک چھلانگ کچن سے باہر لگائی اور صحن میں آگئی۔ تب تک پھپھو بیلن سے اپنا کام تمام کرچکی تھیں۔ اس نے اپنا بازو سہلایا جہاں بیلن اپنی نشانی چھوڑ چکا تھا۔

باجی زور سے تو نہیں لگی؟ایک متفکر سا جملہ اس کے کانوں میں پڑا اور ساتھ ہی چھے سات قہقہے گونجے۔

اس کا بازو سہلاتا ہاتھ رک گیا۔ اس نے بائیں جانب دیکھا تو وہاں بچوں کا ٹولہ کھڑا اس کی بے عزتی سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کے بعد اب پھر سے ہنسنے میں مصروف تھا۔

نالائقوں! میرا ساتھ دینے کے بہ جائے میرا مذاق اڑا رہے ہو۔ کیا اسی دن کے لیے تم لوگوں کو کھلا کھلا کر بڑا کیا تھا؟وہ گنوارعورتوں کی نقل کرنے لگی۔

ہاہاہاہاہاہا۔بچے ایک بار پھر ہنسنے لگے۔

روشنی اب جلدی سے انہیں فارغ کردو تمہارے ابو جی آتے ہوں گے۔پھپھو نے کھڑکی سے جھانک کر آواز لگائی اور پھر کسی کام میں جت گئیں۔

چلو تم لوگ جااب اور سنو، کل جلدی آنا۔ میں نے کہا تھا نا جمعہ والے دن میں سب کو کہانی سناں گی تو پہلے کہانی، پھر ٹیوشن پڑھیں گے۔وہ جلدی جلدی انہیں ہدایات دینے کے ساتھ انہیں ان کا سامان بھی دیتی جارہی تھی۔

ان کے جانے کے بعد وہ صحن دھونے لگی۔

ارے لڑکی! چھوڑ دے اس صحن کا پیچھا، کیوں ہر وقت اسے چمکاتی رہتی ہے؟اپو جان نے کچن سے اسے ٹوکا۔

اُف اپو جان! ہمیشہ ایک ہی بات کرتی ہیں۔ آپ کو معلوم ہے نا امی نے کبھی اس صحن کو گندا نہیں رکھا، تو بس عادت ہے مجھے بچپن سے اِسے صاف دیکھنے کی۔ امی تو زندہ نہیں ہیں مگر میں نے ان سے یہ کام ضرور سیکھ لیا ہے۔وہ جلدی جلدی ہاتھ چلانے لگی۔

اچھا اور کڑاہی گوشت میں کڑی پتّا ڈالنا بھی اپنی امی سے سیکھا تھا؟انہوں نے ابھی ہانڈی کا ڈھکن کھولا تھا اور کڑی پتے کی تیز مہک محسوس کرکے انہوں نے بھتیجی کو چھیڑا۔

ہا ہاہاہاہا! اپو آپ کو تو پتا ہے نا یہ کڑی پتّا میری کم زوری ہے۔ میرا بس چلے تو میں میٹھے میں بھی ڈال دوں۔ ہائے مجھے کیوں عشق ہے اتنا اس سے۔اس نے اس بار پاکستانی ہیروئن کی طرح ماتھے پر ہاتھ رکھ کر دہائی دی۔

اور اظفر سے جو عشق ہے اس کے بارے میں کچھ سوچا کہ کیوں ہے؟اپو جان اب کچن سے باہر آگئی تھیں۔

بس اپو جان! کچھ چیزیں سمجھ سے باہر ہوتی ہیں۔اس نے کہا۔

دیکھ روشنی! بھائی جان تیری ضد کی وجہ سے بہت پریشان رہنے لگے ہیں۔ اظفر انہیں ذرا بھی قابلِ اعتبار نہیں لگتا۔اپو نے اسے سمجھایا۔

کیوں؟ کیا خامی ہے اس میں؟وہ سیدھی کھڑی ہوگئی۔

خامی نہیں، کمی ہے اس میں۔ ماں باپ اس کے راضی نہیں۔ جاب وہ نہیں کرتا، گھر اس کا ہے نہیں۔ تم سے کس بنیاد پر شادی کرنا چاہتا ہے؟اپو نے صاف گوئی سے کام لیا۔

وہ یہ سب کرلے گا اپو جان!اس کے ماں باپ صرف خاندان والوں کی وجہ سے نہیں مان رہے، ورنہ وہ بہت اچھی سوچ کے مالک ہیں اور جاب تو مل جائے گی۔ ابھی اس نے ماسٹرز مکمل کیا ہے ڈھونڈ ہی رہا ہے جاب اور جاب ہوجائے گی تو گھر بھی وہ لے ہی لے گا۔ اپنا نہ سہی، کرائے پر سہی، مجھے کون سا محل جیسا گھر چاہیے۔اس نے ہر ممکن اپنی پسند کی وکالت کی۔

یہ سب تم اپنے باپ سے کہنا۔اپو جان سے اس کی بے وزن بات کا یہ ہی جواب بن پڑا۔

پلیز اپو جان! آپ بات کریں نا ابو جی سے۔ اپنے واپس جانے سے پہلے میرا مسئلہ حل کروادیں نا ورنہ آپ کے جانے کے بعد میں ہمت بھی نہیں کر سکوں گی۔وہ روہانسی ہوگئی۔

نہ جانے کیا دکھتا ہے تمہیں اس لمبوترے اظفر میں۔ اگر میرے اپنے منصور نے اپنی پسند کی شادی نہ کرلی ہوتی تو تو میری بہو ہوتی۔انہوں نے ٹھنڈی آہ بھری۔

اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی۔

ابو جی آگئے۔اس نے دستک کی آواز پہچان کر کمر سے بندھا دوپٹا کھول کر سر پر ڈالا اور گیٹ کی طرف آگئی۔

السلام علیکم ابو جی۔

وعلیکم السلام!“ انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور فروٹ کا شاپر اسے تھمایا۔ 

سلام بھائی جان! کیسے ہیں؟اپو جان نے اپنے اکلوتے بھائی کو سلام کیا۔

وعلیکم اسلام!“ ابو جی نے مختصر سا جواب دیا۔

منہ ہاتھ دھو لیں ، کھانا لگوا دوں؟انہوں نے پوچھا۔

نہیں! کھانا مغرب کے بعد کھاں گا، روشنی سے کہو ایک کپ چائے بنا دے ۔وہ کہتے ہوئے اپنے کمرے میں چلے گئے۔

روشنی چائے لے کر آئی تو وہ آنکھیں بند کیے مغرب کی اذان سن رہے تھے۔ وہ تھوڑی دیر انہیں دیکھے گئی ۔ اس نے پلٹنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ ابو جی نے آنکھیں کھول دیں۔ اذان مکمل ہو چکی تھی، وہ دعا پڑھ رہے تھے۔

کیا خوب صورت آواز پائی ہے مولوی عبد القدیر نے۔ابو جی ابھی تک اذان کے سحر میں کھوئے ہوئے تھے۔وہ مسکرادی۔

ہاں یاد آیا، عبدالقدیر نے کل اپنے گھر خواتین کا درس رکھا ہے ، آپ اپنی پھپھو کے ساتھ چلی جانا۔ تمہیں آنے کی خاص تاکید کی ہے عبدالقدیر کی بیگم نے، یاد سے جانا۔انہوں نے کہا تووہ فرماں بردار بچے کی طرح سر جھکائے کھڑی رہی۔

ابو جی جلدی جلدی چائے پینے لگے کہ کہیں جماعت کا وقت نہ نکل جائے۔

٭….٭….٭

 

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!