عبادالرحمن

اظفر….اظفر،کیوںتم نے….کیوں کیا تم نے ایسا۔وہ درد سے چلا رہی تھی۔ اِدھر اُدھر اپنے جسم پر ہاتھ مارتی ہوئی وہ کبھی دیوار سے ٹکراتی، کبھی میز سے۔ میز پر دھرا ٹھنڈی چائے کا کپ فرش پر گر گیا۔ وہ اب زمین پر پڑی تڑپ رہی تھی۔ اس کی گردن سینہ کمر جیسے کسی نے آگ میں ڈال دیا ہو۔ عائشہ رو رہی تھی۔ آگ پر رکھے پلاسٹک کے مانند اسے اپنا جسم پگھلتا ہوا لگ رہا تھا۔ جلن سے چیختے ہوئے ایک بار اس نے اظفر کو دیکھا۔ وہاں حیرانگی، بے یقینی، پریشانی تھی اور پھر اس کی آنکھوں میں سفاکی، خودغرضی ابھری پھر وہ منظر سے غائب ہوگیا۔ایسڈ کی گھٹن سے اس کا سانس اکھڑنے لگا۔ اس سے اب چیخا نہیں جا رہا۔ عا….عاعائش اس نے پکارنا چاہا۔ کمرے کا منظر دھندلانے لگا۔

اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔

روشنی….روشنی۔دھندلے سے منظر میں طلعت باجی ابھریں۔

روشنی۔ کیا ہوا روشنی؟ اس نے یک دم آنکھیں کھول دیں۔ وہ اپنے گھر میں نہیں اسپتال تھی۔

روشنی ڈاکٹر کو بلاں؟طلعت باجی نے کہا۔

عائشہ کہاں ہے ؟اس نے ان سے پہلا سوال کیا۔

وہ….وہ….ٹھیک ہے۔طلعت باجی نے نظریں چرائیں۔

کہاں ہے؟ مجھے ملوائیں؟اس نے کراہتے ہوئے کہا۔

روشنی! میں ملوا دوں گی۔ تم آرام کرو۔

مجھے، اسے دیکھنا ہے۔میری بچی بہت رو رہی تھی۔اس نے بہ مشکل کہا۔

روشنی کچھ دیر میں پولیس آنے والی ہے تم انہیں بیان دے دینا کہ یہ سب کیسے ہوا۔ اظفر گھر سے غائب ہے ۔ تم ابھی بیان دے دوگی، تو جلد ہی اسے گرفتار کر لیا جائے گا۔وہ بولیں۔

میں نے اسلام آباد فون کیا تھا۔

کس کو ؟“ 

تمہارے ابو کے دوست کو وہ اور ان کی اہلیہ باہر ڈاکٹر سے بات کررہے ہیں۔

مولوی انکل؟اس نے پوچھا۔

ہاں وہ ہی۔ یاد ہے تمہارے ابو کے انتقال کے وقت انہوں نے اپنا نمبر لکھوایا تھا۔

وہ اندر نہیں آئے؟اس نے پوچھا۔

میں بلاتی ہوں۔وہ یہ کہہ کر باہر چلی گئیں۔

تھوڑی دیر بعد خالہ جی اندر داخل ہوں۔

میری بچی۔ان کا دل کٹ گیا اس کو پٹیوں میں جکڑا ہوا دیکھ کر ، اس نے اپنا چہرہ نہیں دیکھا تھا وہ جانتی تھی چہرہ خراب ہوا بھی نہیں، لیکن بائیں گال کے نیچے گردن کے ساتھ اسے اپنی کھال نیچے لٹکی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ اس کا دل چاہتا تھا وہ خود کو کبھی نہ دیکھے۔ 

کیا ہوگیا یہ سب میری جان؟ تو نے کبھی بتایا کیوں نہیں کہ تو اتنی تکلیف جھیل رہی ہے؟وہ اُس کا ہاتھ تھام کر بیٹھ گئیں۔

خالہ جی، آپ نے کہا نا اچھی بچیاں شوہر کی خدمت گزار ہوتی ہیں۔ وہ ….وہ۔اس کے حلق میں کچھ اٹکا تھا۔

خالہ کی سسکیاں فضا میں گونجنے لگیں۔

باہر تمہارے سسرال والے بھی آئے ہیں۔ تم سے ملنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا۔

اظفر بھی آیا ہے؟اس نے فوراً پوچھا۔

وہ نا مراد کیوں آئے گا، وہ تو فرار ہے، تمہارے سسرال والے جھگڑا کر رہے ہیں کہ بچی وہ اپنے ساتھ گھر لے جانا چاہتے ہیں۔انہوں نے اس کے سر پر بم پھوڑا۔

اب اسے سمجھ آیاکہ طلعت باجی نظریں کیوں چرا رہی تھیں۔

خالہ جی میری بچی مجھے….مجھے ۔وہ کراہی۔

بیٹی وہ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ تم ابھی اس حالت میں نہیں ہو کہ بچی کو سنبھال سکو اور اپنے پاس رکھو ،اس لیے اسے ساتھ لے جانا چاہتے ہیں۔ ہم کیا کریں ہم تمہارے سگے رشتہ دار نہیں ورنہ ہم بھی دعویٰ کر دیتے۔

انہوں نے کہا اسی دوران دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا۔ ایک عورت اور مرد اندر داخل ہوئے۔ عورت دبلی پتلی اور کرخت چہرے والی تھی اور مرد کافی لمبا سا اور صاف رنگت کا تھا۔ دونوں کی عمر پچاس ساٹھ کے درمیان تھی ، مرد پر اسے اظفر کا گمان ہوا۔

ہم اس کے ساس سسر ہیں، اکیلے میں بات کرنی ہے۔انہوں نے خالہ کو کہا۔

خالہ اٹھ کر باہر آگئیں۔

دیکھو لڑکی جو کچھ بھی ہوا وہ سب ایک حادثہ تھا۔اس کی ساس نے بغیر کسی تمہید کے بولنا شروع کر دیا۔

اگر تم نے اظفر کے خلاف بیان دیا، تو…. جس طرح یہ بچی تمہاری اکلوتی اولاد ہے اس طرح اظفر بھی میری اولاد ہے۔ اگر اسے تکلیف میں نہیں دیکھنا چاہتی، تو میرے بیٹے کو بھی تکلیف مت دینا سمجھی؟اس کی ساس کی زبان ملی جلی تھی اسے جو بھی سمجھ آیا وہ بہت تکلیف دہ تھا۔ 

پولیس کچھ دیر میں آتی ہوگی۔ جو بھی بیان دینا سوچ سمجھ کر دینا تاکہ تمہارے حق میں بہتر ہو۔ ہمیں ہمارے بیٹے کی جان سے زیادہ کچھ عزیز نہیں۔ تمہارا تو صرف جسم جلا ہے نا۔ ہم توجسم کے علاوہ بھی….“ وہ مرد جو اس کا سسر تھا جملہ ادھورا چھوڑ کر خاموش ہوگیا۔

اس کا دل بیٹھنے لگا۔

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!