مرے داغِ دل سے ہے روشنی یہی روشنی مری زندگی
مجھے ڈر ہے اے مرے چارہ گر یہ چراغ تو ہی بجھا نہ دے
روشنی یہی روشنی
یہ چراغ تو ہی بجھا نہ دے
میرے چارہ گر
یہ چراغ تو ہی بجھا نہ دے
روشنی….یہی روشنی!
وہ بہت خوب صورت تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ اس یونیورسٹی کی سب سے خوب صورت لڑکی تھی، تو غلط نہ ہوگا۔ اس کے بال بے حد سیاہ ریشمی اور لمبے تھے جو ہمیشہ کھلے ہی رہتے۔ اگر اس کی آنکھوں کے سنہری پن پر مرنے والوں کی تعداد زیادہ تھی تو اس کی ستواں ناک اور گلابی پنکھڑی جیسے ہونٹوں کا بھی آدھا کیمپس دیوانہ تھا۔ جیسے کسی نے بہت پیار سے موم کا مجسمہ بنایا ہو، موم کی گڑیا لگتی تھی وہ۔اگر مختصر کہا جائے کہ وہ کسی شاعر کی کہی ہوئی مکمل غزل تھی تو غلط نہ ہوگا۔
خوب صورت ہونا اگر ستم ہے تو خوبصورتی کا احساس ہونا ستم بالائے ستم ہے اور اسے اپنے حسن کی افسوں خیزی کا اچھی طرح علم تھا۔وہ جانتی تھی کہ وہ جب چلتی ہے، تو کب کون اسے کس وقت ٹھہر کے دیکھتا ہے۔ اس کی مسکراہٹ میں مخاطب کس طرح خود کو کھونے سے روکتے ہیں تاکہ بات مکمل کر سکیں خاص طور پر جب مقابل کوئی مخالف صنف ہو۔ اُس کا چلنا، اُس کا بیٹھنا، اُس کا بولنا ہر چیز اچھی تھی، بہترین تھی اور اللہ کی نعمتیں اس پہ یہیں پر تمام نہیں ہوجاتی تھیں۔ خوب صورتی کے ساتھ ساتھ وہ ذہین بھی تھی۔ اُس کا اکیڈمک ریکارڈ شان دار تھا۔ یونیورسٹی میں اُس کا دوسرا سال تھا اور پورا ڈیپارٹمنٹ جانتا تھا کہ ٹاپ تھری میں اگر ایک نام لازمی آنا ہے، تو وہ ہوگا ”مائدہ علی“ کا۔
غرض یہ کہ خوب صورتی اور ذہانت کا قدرتی امتزاج تھی مائدہ علی اور اس حسین امتزاج میں امیری نے چار چاند لگا دیے تھے۔امیر باپ کی اکلوتی اولاد اور اس اکلوتی اولاد کو پانے کہ ہزار خواہش مند اور وہ سب کی خواہش کو پورا کرنے سے معذور تھی۔
”مائدہ تم نے سعد کو کیا جواب دیا؟“ اس کی سہیلی یسریٰ نے کلاس ختم ہونے کے بعد پوچھا۔
”کیا جواب دوں یار۔میں نے اسے صاف منع کر دیا تھا۔“ وہ دونوں کلاس سے نکل کر راہ داری میں آگئی تھیں اور چلتی ہوئی باتیں کر رہی تھیں۔
”اچھا پھر اس نے کچھ کہا۔“ یسریٰ نے پوچھا ۔
”ہاں کہہ رہا تھا تم سوچ لو، لیکن میں نے صاف انکار کر دیا۔“ اس نے ہمیشہ کی طرح اپنے کھلے بالوں کو کان کے پیچھے انگلی کی مدد سے اڑسا۔
”وہ بہت اپ سیٹ ہوگیا ہوگا۔“
”وہ اپ سیٹ کیوں ہوگا وہ تو چاہتا ہے کیمپس کی ہر لڑکی اس کے ساتھ گھومے۔“ اس نے طنزیہ کہا۔
”نہیں یار مجھے لگتا ہے وہ تمہارے لیے سنجیدہ ہے۔“
”اب میں اس سلسلے میں کیا کر سکتی ہوں مجھے وہ پسند نہیں۔“ اس نے سر جھٹکا، وہ دونوں اب راہ داری پار کر کے گارڈن کی گھاس پر چلنے لگیں۔
”تم اس سے کہہ دیتیں کہ تمہیں سوچنے کے لیے وقت چاہیے۔“ یسریٰ کو ہم دردی ہوئی۔
”کیوں کہہ دیتی جب ایسا نہیں ہے اور ایسا کہہ کر میں اسے کسی بھی خوش فہمی میں مبتلا نہیں کر سکتی تھی۔“ اس نے بیگ کو دائیں کاندھے سے بائیں کاندھے پر منتقل کیا۔
”اور ویسے بھی یار گھر میں ڈیڈی اصرار کررہے ہیں کہ ان کے بھتیجے سے شادی کرلوں۔ یہاں ان سلی بوائز نے، شادی ہرایک سے تو نہیں کر سکتی نا اور مجھے تو ابھی کرنی بھی نہیں ہے، تھینک گاڈ ڈیڈی گئے ہوئے ہیں آج کل۔“
”سعد گڈ لکنگ بندہ ہے یار، تمہیں اتنا لائیک کرتا ہے۔ میں نے سنا ہے ضد کا بہت پکا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ تم سے دستبردار ہوجائے ہوگا۔ ابھی تمہیں اور روک روک کر پو چھے گا مجھ سے شادی کروگی؟ مجھ سے شادی کروگی؟“ یسریٰ نے آخری جملہ اس کے سامنے آکر اس کے دونوں کندھوں کو اپنے ہاتھوں سے تھاما اور جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر شرارت سے کہا۔
”ہاہاہا ہا اور میرا ہر بار ایک ہی جواب ہوگا۔آ بگ نو۔“
”اس سے کہیں زیادہ ہینڈسم اور امیر لوگوں نے مجھے پرپوز کیا ہے۔ لیکن میں صرف اپنی پڑھائیپر توجہ دینا چاہتی ہوں۔ شادی وادی کے لیے وقت نہیں ہے۔ ابھی بہت پڑھنا ہے کچھ بننا ہے، ملک کا نام روشن کرنا ہے۔“ اس نے لیاقت علی خان کی طرح مکا ہوا میں لہرایا۔
”ہاہاہا سو فنی اچھا بتا کل کیا پہن رہی ہیں میڈم اپنی برتھ ڈے پر؟“ اس نے ٹاپک ختم کیا۔
”وہ آپ میڈم کل ہی دیکھ لیجیے گا۔“ مائدہ اٹھلا کر بولی۔
”ابھی بتا نا؟“
اگر بتا دیا تو تم ڈیزائن کاپی کرلوگی اور میں بتانا نہیں چاہتی۔“اس نے آنکھ دبائی۔
”ارے مائدہ میری جان ، اگر میں سیم ویسا ڈریس پہن بھی لوں تب بھی تمہارا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ تم پر تو ہر چیز ہی ایسی ہوجاتی ہے جیسے تمہارے لیے ہی بنی ہو۔“ یسریٰ نے ستائشی انداز میں اسے دیکھا۔ وہ لوگ اب گارڈن کراس کر چکے تھے۔
”ویل تھنکس، چلو اب کینٹین چلیں۔“
”مائدہ۔“
وہ آگے گئی ہی تھیں کے پیچھے سے کسی نے اسے پکارا۔ وہ مڑی، تو عقب میں سعد کھڑا تھا۔ اس کے ماتھے پر بل آگئے۔
”کیا؟“ اُس نے اُسی طرح مڑے بغیر پوچھا جیسے جلدی میں ہو۔
”کیسی ہو؟“ وہ شاید فرصت سے تھا۔
ٹھیک ہوں، ہمیں کینٹین جانا ہے دیر ہو رہی ہے۔“ مائدہ جانے لگی۔