یہ وہ سٹریس تھا جو وہ قرض خواں پر نہیں نکال سکتا تھا۔ یہ وہ انتقام تھا جو وہ رقم کے ساتھ مفرور اپنے دھوکے باز دوست سے نہیں لے سکتا تھا۔ یہ وہ غصہ تھا جو وہ اپنے باپ پر نہیں نکال سکتا تھا جس نے کروڑوں کا مالک ہونے کے باوجود بھی اسے اس قدر تہی دامن کر دیا کہ وہ ایک عورت کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوگیا تھا۔ یہ ہاتھ پھیلانے کا غصہ تھا جو وہ معاشرے کے سب سے کمزور فرد یعنی عورت پر نکال رہا تھا۔
وہ اسے پاگلوں کی طرح مار رہا تھا اور وہ مار کھائے جا رہی تھی۔ کیوں کہ اس کے اختیار میں صرف مارنا تھا۔
”السلام علیکم ابوجی۔“
”وعلیکم السلام بیٹا خیریت اتنی رات گئے فون کیا؟“ افراز صاحب کو تشویش ہوئی۔
”ابو جی….“ اس نے پکارا، اس پکار میں ایسا کچھ ضرور تھا کہ افراز صاحب کا ماتھا ٹھنکا۔
”بولو بیٹا۔“ انہوں نے کہا۔
روشنی خاموش رہی۔
”روشنی!اظفر کہاں ہے؟“ وہ پوچھ رہے تھے۔
”اظفر….وہ کہیں کھو گیا۔“ روشنی کی کھوئی کھوئی آواز سنائی دی۔
”بیٹا! تم خوش تو ہو نا؟ “وہ پریشان ہوگئے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ کی طرح ایک ہی سوال پوچھا اور اس بار اس ”نا“ میں یقین نہیں تھا بلکہ یقین دہانی ہوجائے یہ آس تھی ۔
اور اس بار روشنی نے ایک سیکنڈ کی بھی دیر لگائے بغیر یہ نہیں کہا تھا کہ ”جی میں بہت خوش ہوں۔“وہ خاموش ہی رہی تھی اور اس خاموشی کے درمیان ایک قید سسکی اس کے لبوں سے آزاد ہوئی۔
”روشنی…. تم خوش نہیں ہو کیا؟“ افراز صاحب نے اس بار سوال بدل دیا تھا۔
”میرا گھر،ٹوٹ رہا ہے۔ابو جی۔میرا گھر جل رہا ہے۔“ اس نے آنسوﺅں کے درمیان ٹھہرے ٹھہرے لہجے میں کہا۔
افراز صاحب ایک دم چپ ہوگئے۔ اُس کا گھر ٹوٹنے سے پہلے وہ خود ٹوٹ گئے تھے۔ اتنے عرصے صرف وہم سمجھ کر اس خیال کو جھٹلاتے رہے کہ یہ محض اُن کا وسوسہ ہے۔ روشنی خوش ہے اس نے اظفر کے بارے میں کبھی کوئی شکایت نہیں کی، ورنہ ان کی بیٹی جو سوچتی جو محسوس کرتی وہ بول دیتی اس معاملے میں وہ لحاظ کرنے والوں میں سے نہیں تھی۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کی بیٹی اب لحاظ کرنے والی ہوگئی تھی۔ ہر معاملے میں سب سے پہلے اپنی رائے دینے والی روشنی اب رائے دینے میں محتاط رہنے لگی تھی۔
”ر….ر….روشنی۔“ وہ کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن….
”وہ مجھے مارتا ہے ابو جی، بے دریغ جب اس کا دل چاہتا ہے تب،جب میں اس سے اپنے حق کی بات کرتی ہوں تب تب۔“ آنسوﺅں کی روانی بڑھ گئی تھی۔
”وہ محبت جس کی خاطر میں نے آپ سے ضد کی تھی وہ تو کب کی ختم ہوگئی۔ پر وہ لحاظ وہ احترام بھی ختم ہوگیا جو مجھے اسے ایک دوسرے کا بنائے رکھتی، باندھے رکھتی۔ میں اسے نہیں چھوڑ سکتی ابو جی میری بچی…. میری بچی…. چھوٹی ہے بہت۔“ وہ بے ربط سے جملے بولنے لگی۔ ڈیڑھ سال وہ خاموش رہی تھی اور اب جب غم کو سینے کی سنگلاخ دیواروں سے راستہ مل گیا تھا، تو وہ سب بول دینا چاہتی تھی۔
”میں تھک گئی ہوں ابو جی۔ آپ کی بیٹی اب تھک گئی ہے چلتے چلتے…. بہت جلد تھک گئی نا۔“ روتے روتے اس کی ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔ طلعت باجی نے کمرے میں جھانکا پھر کچھ سوچ کر وہاں سے چلی گئیں۔
”ابو میرا عبادالرحمن….جو مولوی انکل نے بتایا تھا ،وہ مجھے نہیں ملا ابو۔“ افراز صاحب سمجھ نہیں سکے کہ وہ کیا کہہ رہی ہے۔ وہ کچھ بھی نہیں سمجھ رہے تھے انہیں فون کے اس پار سے آتی آوازوں میں سے اگر کوئی چیز سمجھ آرہی تھی تو وہ تھیں روشنی کی سسکیاں، اس کی آہیں، اس کا آنسوﺅں سے بھرا لہجہ۔
”روشنی بیٹی، تم رو نہیں۔ تمہارے ابو جی ہیں نا تمہارے ساتھ۔تم فکر نہ کرو۔“ انہوں نے بہ مشکل اپنے جذبات پر قابو رکھتے ہوئے اسے تسلی دی یا خود کو دی۔
”اس نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ میں اتنی بری ہوں کیا جو میرے ساتھ ایسا ہوا۔ ابو میں نے آپ سے ضد کی تھی نا، آپ سے ضد کی تھی نا ابو مجھے معاف کردیں ۔“ روشنی بولی تھی۔ وہ یہ سب افراز صاحب کو کبھی بھی نہ بتاتی، لیکن اگر آج نہ بتاتی تو شاید اس سب کا بوجھ نہیں سہار پاتی۔
افراز صاحب عجب کشمکش میں تھے ۔ معافی روشنی مانگ رہی تھی انہیں لگا معافی انہیں مانگنی چاہیے۔ انہیں ندامت ہو رہی تھی کہ انہوں نے روشنی کی شادی کیوں کی، روشنی نے ضد کی تھی، لیکن باپ تو وہ تھے انہیں سمجھ داری سے فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔ جذبات سے نہیں پر یہ سب سوچنے کا اب فائدہ نہیں تھا۔ انہیں روشنی کے آنسو توڑ رہے تھے۔ ان کی اکلوتی بیٹی ان کی کل متاع ، اُن کا اثاثہ۔
”روشنی میں تجھے لینے آجاﺅں گا میری بچی تو مت رو، تو رونے کے لیے نہیں بنی بیٹا، تو خوش اچھی لگتی ہے، تو خوش ہی رہے گی میری جان میری بچی، سب ٹھیک ہوجائے گا۔“ وہ اسے کہتے جاتے تھے تسلی تسلی دلاسا دلاسا، روشنی کے لیے ان کا یہ کہنا ہی زخموں پر پھایا ثابت ہو رہا تھا، وہ چپ ہوگئی تھی۔
”تم گھر جاﺅ اب،عائشہ کو دیکھو ، اُس کا خیال رکھو۔کل بات ہوگی۔“ وہ فون رکھنے والے ہی تھے کہ روشنی نے کہا۔
”ابو جی!“
”جی بیٹا؟“
”میں آپ کا انتظار کروں گی ۔“
”ہاں ضرور۔اللہ حافظ!“
”اللہ حافظ!“
رابطہ منقطع ہو چکا تھا، وہ فون پکڑے بیٹھی رہی۔ طلعت باجی عائشہ کو گود میں لیے کمرے میں داخل ہوئیں۔ دوسرے ہاتھ میں پانی کا گلاس تھا وہ اس کی طرف بڑھا دیا۔
اس نے چپ چاپ تھام لیا اور گھونٹ گھونٹ پینے لگی، اس کا دل ہلکا ہوگیا تھا۔
اس کے ابو جی اب سب ٹھیک کر دیں گے وہ مطمئن ہوگئی تھی۔
اس نے ابو جی کو سب بتا دیا تھا وہ بہت سکون میں آگئی تھی۔ اظفر کے علم میں یہ بات نہیں تھی کہ اس نے اپنے گھر فون کیا تھا۔ اسے گھر کا کوئی ہوش تھا بھی نہیں ،وہ سارا دن گھر سے باہر رہتا اور گھر آتا تو سوجاتا یا جاگ رہا ہوتا، تو روشنی کو زد و کوب کرتا رہتا۔ وہ اپنے والد سے پیسے مانگے ان سے بات کرے اور جب وہ منع کرتی تو وہ عادت سے مجبور ہو کر ہاتھ چھوڑ دیتا تھا۔ اس نے اپنے ابو جی سے بات تو کی تھی، لیکن پیسوں کی نہیں بلکہ اسے اس تکلیف سے نجات مل جائے اس کی۔
وہ اگلے سارا دن ابو جی کے فون کی منتظر رہی پر دوپہر تک ان کا فون نہیں آیا۔ آخر کار شام کو طلعت باجی کا بیٹا دروازے ہی سے آوازیں دینے لگا کہ اسلام آباد سے فون آیا ہے۔ اس نے چادر اوڑھی عائشہ کو گود میں اٹھایا اور طلعت باجی کے گھر آگئی۔
فون اسلام آباد ہی سے تھا، لیکن دوسری طرف ابو جی نہیں مولوی عبدالقدیر تھے اسے سخت مایوسی ہوئی۔
لیکن جو انہوں نے خبر دی وہ اس کے لیے قیامت سے کم نہ تھی۔
”بیٹا جلدی اسلام آباد آجاﺅ ، آپ کے ابو اس دنیا میں نہیں رہے۔ “
روشنی کچھ بولنے کے قابل نہیں رہی تھی۔ باقی باتیں طلعت نے اس سے فون لے کر سنی تھیں اور کہی تھیں۔
ان کی موت تو رات کو ہی ہوگئی تھی جب ان کی بیٹی ہارے ہوئے لہجے میں اپنے ٹوٹے گھر کی کہانی سنا رہی تھی، لیکن دنیا والوں کے لیے ان کا انتقال صبح ہارٹ فیل ہونے کی وجہ سے ہوا تھا۔
٭….٭….٭