ان کی بیٹی اب ڈھائی ماہ کی ہوگئی تھی۔ روشنی نے اس کا نام عائشہ رکھا تھا۔ وہ اظفر کے پسند کے نام کی منتظر تھی، لیکن اس کی طرف سے کوئی دل چسپی نا دیکھ کر اس نے یہ ہی نام رکھ دیا تھا۔ ننھی سی پری واقعی روشنی کا بچپن تھی، رنگت میں، نقوش میں اور صبر میں بھی۔
روشنی نے اب گھر میں بچوں کو ٹیوشن پڑھانا شروع کر دیا تھا تاکہ کچھ معقول رقم ہاتھ میں آجائے۔ یہ کام اسے بہت پہلے شروع کر دینا چاہیے تھا۔ لاہور واپس آنے کے بعد چند دن میں ہی اس نے بھانپ لیا کہ اظفر نے صرف اسے ”جاب تلاش کروں گا“ کا لالی پاپ دیا تھا تاکہ وہ اپنے ابو کے گھر چلی جائے اور وہ واقعی اس لالی پاپ سے حظ اٹھاتی رہی کہ اظفر نوکری تلاش کر رہا ہوگا ،مارا مارا پھر رہا ہوگا لیکن لالی پاپ ختم ہونے کے بعد حقیقت سے آشنائی ہوئی تو اس کی تکلیف سوا ہو چکی تھی۔ اب وہ ایک بچی کی ماں تھی اور اس نے خود ہی یہ اخذ کر لیا تھا کہ اس کی پرورش اسے ہی کرنی ہے۔
اظفر ایک اچھا شوہر بن سکا نہ اچھا باپ۔ اس نے کبھی بھی اپنی بچی کو پیار سے گود میں نہیں اٹھایاتھا اورنہ ہی اُس کے ساتھ ایک باپ کی طرح کھیلا تھا۔اس کے لیے وہ گھر میں بس ایک فرد کا اضافہ تھی اور کچھ نہیں۔ بچی سے اسے کوئی لگاو¿ نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ اسے بوجھ سمجھتا، اس کی وجہ وہ ”ذہنی کیفیت“ تھی جس سے وہ گزر رہا تھا اور اسی ذہنی کیفیت نے اسے پھر اس انتہا پر لا کر کھڑا کیا تھا کہ اس نے دوسری بار روشنی پر ہاتھ اٹھایا تھا۔
”تم ابھی انہیں کال کرو اور کہو کہ تمہیں پیسوں کی ضرورت ہے۔“ اظفر نے زور دیا۔
”میں ایسا نہیں کر سکتی۔“ اس نے عائشہ کو چادر اوڑھاتے ہوئے اسے نرمی سے منع کر دیا۔
”روشنی میری بات سمجھو۔“وہ ایک بار پھر منت سماجت پر اتر آیا تھا۔
”ڈیڑھ سال ہوگئے ہیں اظفر،یا تو میں تمہیں سمجھ نہیں پا رہی یا پھر شاید بہت اچھی طرح سمجھ چکی ہوں۔“ اس نے پلٹ کر اظفر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دبی آواز میں جواب دیا۔
”اگر سمجھ گئی ہو تو عقل سے کام لو اور وہ کرو جو میں کہہ رہا ہوں۔“ اظفر نے اس کے بازو کو پکڑا۔
”میں بے وقوف ہی اچھی ہوں، مجھے عقل مند نہیں بننا۔“ عائشہ سو رہی تھی اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ اٹھ جائے۔
”روشنی! ضد چھوڑ دو۔“ اس کی انگلیوں کی گرفت اس کے بازو کو تکلیف دینی لگی۔
”ضد میں نہیں کر رہی تم کر رہے ہو۔تم نے قسم کھا لی ہے نا کے محنت نہیں کرو گے چاہے لاکھوں گنوا دو اور میرا ہاتھ چھوڑو مجھے درد ہو رہا ہے۔“ اس نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑوایا اور کمرے سے باہر نکل گئی۔
وہ بھی اُس کے پیچھے آگیا۔
”اپنے ابو سے ایک لاکھ مانگ لوگی تو کیا چلا جائے گا۔“
”اتنی بڑی رقم ان سے کیسے مانگ لوں؟ اُن کے گھر پیسوں کا درخت نہیں لگا سمجھے تم؟“ وہ اب باہر کے کمرے میں آکر صوفے پر بیٹھ گئی۔
”اتنا پیسا جو وہ ٹرسٹ میں دیتے ہیں، اگر اس میں سے اپنی بیٹی کی مدد کر دیں گے تو کچھ حرج نہیں ہوگا۔“ اظفر نے طنزیہ کہا۔
”بیٹی نہیں، داماد کی مدد۔“ اس نے بھی طنزاً جواب دیا۔
”روشنی! تم مجھ سے الگ نہیں ہو یار۔“ وہ اس کے پاس صوفے پر بیٹھ گیا۔
”ہاں! کچھ عرصے تک میں بھی یہی سوچتی تھی کہ ہم ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں لیکن مجھے اب احساس ہوگیا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بہت الگ ہیں۔ اظفر! ہمارا سب کچھ الگ ہے، یہاں تک کہ سوچیں بھی۔“ روشنی کے لہجے میں کرب تھا۔
”یہ وقت ان باتوں کا نہیں ہے، اگر تم پچاس ہزار بھی لے لو تو میری کافی مشکل حل ہوجائے گی۔“ وہ پھر خوشامد کر رہا تھا۔
”ابو کے سامنے میں نے کبھی تمہارا ذکر برے الفاظ میں نہیں کیا۔ ہمیشہ تمہارا بھرم رکھا، ہماری محبت کا بھرم رکھا تم جانتے ہو بہت مشکل کام ہے۔ اس محبت کا دوسروں کے سامنے بھرم رکھنا۔ جس سے کبھی انسان نے کچھ حاصل نا کیا ہو، جو محبت زمانوں پہلے مر چکی ہو ۔ جھوٹ بولنا گناہ ہے اظفر اور مردہ محبت کے لیے جھوٹ بولنا گناہِ عظیم ہے۔ خیر! ختم کرو اس بحث کو۔“ وہ کہیں کھو سی گئی۔
”کیسے ختم کروں یار؟ تمہیں میرا ذرا خیال نہیں ہے؟“ وہ بے بسی سے چیخا۔
”تم میرا خیال رکھنے کے بہ جائے مجھے کہہ رہے ہو کہ میں تمہارا خیال کروں؟ میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ مجھے لاکھوں کروڑوں چاہئیں۔ میں نے صرف یہ کہا تھا کہ جاب کرلو اور تم نے مجھ سے جھوٹ بولا اور مجھے میرے باپ کے گھر ایسے پھینک دیا جیسے اولاد صرف میری ذمہ داری ہو۔ تمہیں احساس ہے وہ چند مہینے میں نے کیسے وہاں گزارے ہیں ؟ تمہیں کیسے احساس ہوگا بھلا۔“ وہ بھی اس بار پھٹ پڑی تھی۔
”ساری زندگی ایسے نہیں گزر سکتی، اگر کوئی بیٹھ کر کھانا شروع کر دے تو قارون کے خزانے بھی ختم ہونے لگتے ہیں اور یہ تو بس میرے ابو جی کے دیے چند ہزار اور ٹیوشن سے آئے چند سو روپے ہیں، تمہیں دے دوں یا گھر چلاو¿ں؟“ اس نے کرخت لہجے میں کہا اور اضطراب کی کیفیت میں کھڑی ہوگئی۔
”لیکن اظفر تمہیں احساس نہیں ہے۔ اگر ہوتا تو تم میرے اہم لمحات میں میرے ساتھ ہوتے۔ میرے پاس ہوتے، لیکن تم ایک خودغرض شخص ہو جسے اپنے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ تم نے اپنی بیٹی کو آج تک پیار سے اٹھایا؟“ وہ غصے سے کھڑی ہوگئی تھی۔ اظفر سے ایسی بحث کرتے ہوئے اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کیا کر ڈالے۔
”آواز نیچی رکھو روشنی۔“ اس نے دانت کچکچائے۔
”نیچے شخص کے ساتھ آواز نیچی نہیں رکھی جا سکتی؟“ وہ مزید چلائی۔
اظفر نے آگے بڑھ کر اس کے بال مٹھی میں پکڑ لیے اور کھینچتے ہوئے صوفے پر دھکا دے دیا۔
”تمہیں کس بات کا گھمنڈ ہے؟ کس بات کا غرور ہے؟تم سے مدد مانگ لوں تو ہواو¿ں میں کیوں اڑنے لگ جاتی ہو؟“ دھکا دے کر بھی وہ رکا نہیں تھا۔ اس نے اُس کے بائیں گال پر الٹے ہاتھ سے تھپڑ لگایا تھا۔
”اظفر! چھوڑو…. اظفر۔“ وہ اپنا دفاع کرنے لگی۔ لیکن اظفر کے لیے دبلی پتلی روشنی کو قابو کرنا مشکل نہیں تھا وہ مغلظات بکتا جاتا اور اسے مارتا جاتا۔
٭….٭….٭