سیل فون پر ”ماما کالنگ“ ابھرا تو اس نے اپنی زبان دانتوں تلے دبائی۔ اپنی غلطیوں پر اکثر وہ یہ ہی کیا کرتی تھی۔ اس نے کال ریسیو کی۔
”السلام علیکم ماما۔“ اس نے فون کان سے لگا کر مصروف انداز میں کہا۔ ایک ہاتھ سے وہ سامنے موجود فائل میں کچھ لکھ رہی تھی۔
”کہاں ہو اجالا؟“ اس کی ماں پریشان تھی۔
”ماما سوری! میں آپ کو کال کرنا بھول گئی۔ یہاں ایمرجنسی کیس آگیا تھا۔ میں اس میں لگ گئی تھی تو کال نہیں کر سکی۔“ اجالا نے پین فائل پر رکھ دیا اور ساری توجہ اپنی ماما سے بات کرنے میں لگا دی۔
”اچھا میں کال کر رہی تھی کافی دیر سے، اس لیے پریشان ہوگئی۔“ اُس کی ماما اب مطمئن ہوگئی تھیں۔
”سوری ماما! وہ لڑکی اتنی بری طرح جھلسی تھی کہ میں ذہنی طور پر گھبرا گئی تھی اور….“اس کی بات درمیان میں ہی رہ گئی۔
”اب کیا حال ہے؟“ اُس کی ماما پھر فکرمند ہوگئیں۔
”ٹھیک ہوں ماما ابھی آ کر بیٹھی ہوں۔“ اس نے کرسی سے ٹیک لگا کر جواب دیا۔
”میں تمہارا نہیں، اس لڑکی کا پوچھ رہی ہوں۔ اب کیا حال اُس کا؟ ٹھیک ہے؟“ انہوں نے اسے ٹوکا۔
”اُف!“ اجالا کے منہ سے بس یہی نکلا۔
اس کی ماما ہمیشہ یہی کرتی تھیں۔ انہیں کبھی یہ فکر نہیں ہوتی تھی کہ اجالا کیسی ہے، انہیں ہمیشہ یہ فکر لاحق ہوجاتی تھی اجالا کا مریض کیسا ہے۔ وہ کبھی یہ نہیں پوچھتی تھیں اجالا تم نے کھانا کھایا، بلکہ پوچھتی تھیں تمہارے مریض کو غذا صحیح سے مل رہی ہے نا۔ اُن کی ہی خواہش تھی کہ اجالا ڈاکٹر بنے، پھر پلاسٹک سرجن بنانا بھی ان کی ہی ضد تھی اور وہ اجالا جو خون دیکھ کر ڈرتی تھی، ڈاکٹر بن گئی۔ جب اُس کے دل سے خون کا ڈر نکل گیا تو اس کے سامنے ،لوگ جلے بھنے، پگھلے جسم اور چہرے کے ساتھ آنے لگے، تو وہ پلاسٹک سرجن بھی بن گئی اور یہ ڈر بھی نکل گیا۔
”ماما آپ کبھی تو مجھ سے میرا حال پوچھ لیا کریں۔ میری یہ وش ہے ماما۔“ اس نے اپنا لہجہ مصنوعی دکھی بنایا۔
”تم سے فون پر بات کر رہی ہوں تو اس کا مطلب تم ٹھیک ہو۔“ انہوں نے بھی اسے چھیڑا۔
”کیا ضروری ہے جو بات کر رہا ہو وہ اندر سے ٹھیک ہو ؟“
”جی بیٹا جی! انسان بعض اوقات اتنا بے بس ہوجاتا ہے کہ وہ بول رہا ہو، بات کر رہا ہو، تو اُس کے ٹھیک ہونے کے لیے یہی کافی ہوتا ہے کہ وہ بول رہا ہے، بات کر رہا ہے۔“ اُس کی ماما نے اسے سمجھایا۔
”ماما آپ صحیح کہ رہی ہیں۔ ابھی جو مریضہ آئی تھی نا، اس پر تیزاب پھینکا ہے کسی نے۔ اُس کا پورا چہرہ جل گیا ہے سب کچھ پگھل گیا ہے۔ وہ بول بھی نہیں سکتی۔ ابھی وہ ہوش میں بھی نہیں۔ ابھی صرف سانس لے رہی ہے وہ بھی بہت مشکل سے، اس کا سانس لینے کا نظام خراب ہوگیا ہے بالکل۔“ وہ دھیرے دھیرے بتانے لگی۔
”اللہ خیر کرے۔ کیسے لوگ ہوتے ہیں جو ایسا کرتے ہیں۔ کس دل سے کسی کی زندگی تباہ کرتے ہیں۔“ اس کی ماما کی آواز بہت دھیمی ہوگئی تھی، وہ جانتی تھی وہ دکھی ہوگئی ہوں گی۔ وہ بہت نرم دل تھیں۔
”ماما! اچھا یہ تو بتائیں میرے لیے ناشتے میں کیا تیار کر رکھا تھا آپ نے؟ جو آپ نے کال کی ورنہ آپ کبھی صرف تین گھنٹے دیر ہوجانے پر کال نہیں کرتیں۔“ اس نے اُن کا موڈ بدلنا چاہا۔
”آلو کے پراٹھے۔“ دوسری طرف سے جواب آیا۔
”واقعی؟ بس آپ ولید سے کہیں مجھے پراٹھے دے جائے آکر۔“ اس نے بچوں کی طرح لجاجت سے کہا۔
”میں بنا کر بھیجتی ہوں۔“
”بنائیں نہیں، جو بنائے تھے وہ ہی بھیج دیں۔ میں یہاں گرم کروا لوں گی۔“ اس نے نرمی سے کہا۔ ماما اداس اسے بالکل اچھی نہیں لگتی تھیں۔
”اجالا تم بچی لگتی ہو مجھے کبھی کبھی، حالاں کہ تم میری سب سے بڑی اولاد ہو۔“ اس کی ماما کی مسکراتی آواز آئی۔
”ماما میں بچی ہی ہوں، آپ بھول گئیں آپ کی بڑی اولاد میں نہیں، اسامہ ہے، خلیل جبران کی طرح بڑی بڑی باتیں کرتا ہے۔“ اس نے کہا۔
”ہاہا! بہت شرارتی ہو تم۔“ وہ بولیں پھر اللہ حافظ کہ کر فون رکھ دیا۔
”شرارتی!اگرریان یہ سن لے تو وہ حیرت سے ہی خاموش ہوجائے۔ خاموش اورریان…. نو وے!وہ خاموش ہونے والا نہیں۔ وہ خاموشی کو بھی کہے۔میم! ایک منٹ پہلے میں بول لوں پھر خاموش ہوجاو¿ں گا۔“وہ الٹا سیدھا سوچنے لگی کہ دروازے پر دستک نے اس کا تسلسل توڑا۔
”کم اِن“ ایک دھماکے سے گیٹ کھلا۔
”اجالا تم گئی نہیں۔“ ریان کی آواز سن کر وہ چونکی، اس نے سر اٹھایا۔
”شیطان کا نام لیا اور شیطان حاضر۔“ وہ بڑبڑائی۔
”کیا کہا تم نے؟ میں نے سنا نہیں۔“ وہ آرام سے اس کے سامنے والی کرسی پر آکر بیٹھ گیا۔
”میں نے کہا ویلکم سر۔“ اس نے مسکرا کر کہا۔
وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا پھر اجالا کو، پھر شہادت کی انگلی اپنے سینے پر رکھ کر بولا:
”تم نے مجھے سر کہا۔“ اس کی حیرت سوا تھی۔
”جی جی سر! میں نے آپ کو ہی سر کہا۔ کیا لیں گے آپ؟ چائے یا کافی یا ناشتا تناول فرمانا چاہیں گے؟“ اس نے نہایت احترام سے کہا۔
”اجالا! آر یو اوکے؟“اس نے بھنویں اُچکائیں۔
”جی میں ٹھیک ہوں۔“ اجالا نے جواب دیا اور اپنے ایک ہاتھ کی ہتھیلی کو سر کے اوپر رکھ کر اپنے اسکارف کو پیچھے کی طرفہ دھکیلا۔ اُس کی یہ ہی خاص عادت ریان کو بے حد پسند تھی۔
”میں بس دیکھ رہی تھی کہ تمہیں اگر عزت دے کر بات کروں تو کیسا لگتا ہے۔“ وہ پھر سے کام میں مشغول ہوگئی۔
”پھر کیسا لگا تمہیں؟“ وہ اب مطمئن ہوگیا کہ اجالا ٹھیک ہے۔ اس سے زیادہ احترام اجالا سے سننے کا وہ عادی نہیں تھا۔
”بہت برا۔“
ریان کو ذرا بھی حیرت نہ ہوئی، اگر وہ کچھ اور جواب دیتی تو اسے حیرت ہوتی۔
”تمہیں تو صبح گھر جانا تھا نا، گئی کیوں نہیں؟“ اس نے ٹیبل پہ پڑا پیپر ویٹ اٹھا لیا۔ اُس کی عادت تھی وہ بات کرتے ہوئے مسلسل کسی نا کسی چیز سے کھیلتا رہتا، چاہے وہ کچھ بھی ہو۔
”ہاں! جا ہی رہی تھی کہ ایمرجنسی آگئی اور ڈاکٹر سحر کا پہلے ہی فون آگیا تھا کہ ان کی گاڑی آبپارہ پر خراب ہوگئی ہے اور وہ مکینک کا انتظار کر رہی ہیں۔ پھر مجھے رکنا پڑا اور اچھا ہوا رک گئی ورنہ پیشنٹ کو جونیئرز ہینڈل نہیں کر سکتے تھے، بہت بری حالت تھی اس کی۔“ اس نے فائل پر جھکے ہوئے ہی جواب دیا۔
وہ بہ غور اجالا کے چہرے کو دیکھنے لگا۔ اُس کے چہرے پر اس کے لہجے میں کہیں بھی شکایات نہیں تھیں۔ عام سا لہجہ تھا اس کا جیسے عام سی بات ہو۔ جب کہ یہ آئے روز کی بات تھی، جس ڈاکٹر کی بھی ڈیوٹی ڈاکٹر اجالا گل کے ساتھ ہوتی یا شفٹ اُس کے بعد لگنی ہوتی وہ بہت اطمینان سے ہوتا کیوں کہ انہیں پتا تھااجالا سب دیکھ لے گی۔
”اجالا! تم ایسی کیوں ہو، تمہیں نہیں لگتا سب تمہارا فائدہ اٹھاتے ہیں؟“ اس نے سنجیدگی سے کہا
”فائدہ ہی اٹھاتے ہیں، نا کوئی نقصان تو نہیں۔ یہ…. یہ پیپرویٹ واپس رکھو تم اس سے پہلے بھی دو توڑ چکے ہو۔“ اس نے کہتے ہوئے سر اٹھا یا، لیکن اس کے ہاتھ میں اپنا پیپر ویٹ دیکھ کر اس نے جملہ ادھورا چھوڑ کر کہا۔
”لیکن پھر بھی تم نے کچھ نہیں سیکھا۔ اس بار بھی ٹوٹنے والا اٹھا کر لے آئیں۔ ایسا لاتیں جو ٹوٹتا نہیں۔“ اس نے آگے جھک کر کہا، لبوں پر شریر مسکراہٹ رقصاں تھی۔ سنجیدگی زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی تھی۔
”کیوں کہ میں نے تمہارے کھیلنے کے لیے نہیں بلکہ پیپرز کے لیے رکھا ہے۔“ اس نے بھی مسکراتے ہوئے کہا۔
”اچھا تو پھر ڈاکٹر سحر تشریف لے آئیں یا ابھی تک بیچ سڑک پر کھڑی مکینک کا انتظار کر رہی ہیں؟“ اس نے طنزاً پوچھا۔
”اف! کیا ہوگیا ریان؟ بے چاری اتنی سویٹ ہیں اور تم ان کے پیچھے ایسے ہی پڑ گئے ہو۔“ اس نے کہا۔
”میں ان کے نہیں کسی اور کے پیچھے لگا ہوں، تم اچھی طرح جانتی ہو۔“ اجالا باقاعدہ شرمانے لگی۔
”کسی کی پیٹھ پیچھے برائی کرنا ٹھیک نہیں۔“ اس نے بات بدلی۔
”میں ان کے سامنے بھی کہہ سکتا ہوں۔“ اس نے چیلنج کیا۔
”نہیں! تم اُن کے سامنے بھی نہیں کہنا انہیں دکھ ہوگا۔“ اس نے کہا۔
”کتنے پیسے ملتے ہیں تمہیں دوسروں کے بارے میں اچھا گمان رکھنے کے؟“ اس نے منہ بنایا۔
”پیسوں سے زیادہ قیمتی چیز ملتی ہے۔“ اس کی آنکھوں میں ستارے جھلملائے۔
وہ اجالا کو دیکھنے لگا۔ اسے اجالا کی یہ عادت بہت اچھی لگتی تھی لیکن اس عادت میں خود کو تھکا دینا اچھا نہیں لگتا تھا۔
ریان کے عقب میں دروازے پر دستک ہوئی اور دستک دینے والے نے اجازت مل جانے کا انتظار کیے بغیر ہی دروازہ کھول کر اندر قدم رکھا۔
”اجالا! تمہارا لنچ آیا ہے۔“ ڈاکٹر ردا اندر داخل ہوئی جو کہ اجالا کی بیسٹ فرینڈ اور اجالا اور ریان دونوں کی بیچ میٹ بھی تھی۔
”قسم سے ردا زندگی میں پہلی بار تمہارے آنے سے مجھے خوشی ہوئی ہے۔“ وہ اس کے ہاتھ سے شاپر لینے لگا تو اس نے ہاتھ پیچھے کر لیا۔
”کل صبح سے وہ یہاں ہے، یہ کھانا بھی اُس کا ہے۔ تم تو خوب سو کر آرہے ہو گھر سے۔“ اس نے ٹیبل پر شاپر رکھ دیا۔
”جب اجالا کو کوئی اعتراض نہیں تو تمہیں کیا پرابلم ہے؟“ ریان اس سے الجھنے لگا۔ وہ دونوں ایسے ہی لڑا کرتے تھے۔ اجالا ہمیشہ کی طرح انہیں اگنور کرتے ہوے فائل اسٹڈی کرنے لگی۔
٭….٭….٭