اُس کے عبادالرحمن کا تصوراتی سنہری مجسمہ جس میں وہ لا شعوری طور پر اظفر کو دیکھا کرتی تھی، اب ٹوٹ رہا تھا۔ دراڑیں بڑھتی جارہی تھیں جو اس رشتے کی دیوار اور کم زور کررہی تھیں۔
جھگڑا طوالت اختیار کر گیا تھا بحث کم نہیں ہو رہی تھی۔ اظفر کا کبھی کبھی بہت اونچی آواز اور خراب لہجہ سنائی دیتا۔ اُس کا مستقل اصرار تھا کہ وہ پیسے دے دے گا لیکن اگر زیادہ بدتمیزی کی تو وہ ان سب کو بہت برا سبق سکھائے گا۔
”لہجہ کتنا اچھا ہے اظفر کا،اظفر کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے کسی کو بھی منانا، کسی کو بھی راضی کر لینا، باتوں میں جادو ہوتا ہے اس کی۔“ ایک اور بازگشت گونجی تھی۔ اپنے ہی کہے لفظ اس پر بھاری ہوتے جا رہے تھے۔ جن کی وجہ سے وہ مزید جھکتی جا رہی تھی۔
”آہ اظفر! کاش تم ….کاش تم۔“ وہ گھٹنوں میں سر دے کر بیٹھ گئی۔ آنسو اب بھی بہ رہے تھے تھے لیکن خاموشی سے۔
اندر کا شور باہر کے شور سے کہیں زیادہ تھا۔
اظفر اور ان آدمیوں کی آوازیں آنا بند ہوگئی تھیں۔ ہلکی ہلکی سرگوشیاں اب بھی جاری تھیں لیکن اسے یقین تھا کہ یہ سرگوشیاں محلے والوں کی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد ایک دھماکے سے دروازہ کھلا اور اظفر اندر داخل ہوا۔
اس نے سر اٹھا کر دیکھا، اس کا حلیہ بگڑا ہوا تھا۔ گریبان پھٹ چکا تھااور شرٹ کے بٹن بھی اکھڑ گئے تھے۔ پسینے میں شرابور جسم اور چہرے پر غصے کے ساتھ ساتھ جگہ جگہ لال نیلے نشانات بھی تھے۔
روشنی کو دیکھ کر اظفر کا غصہ مزید بڑھ گیا تھا۔ وہ اسے اشتعال انگیز نگاہوں سے دیکھتا ہوا کمرے کے اندر چلا گیا۔
روشنی اس کے پیچھے پیچھے آگئی۔ وہ واش روم میں تھا۔ کافی دیر تک پانی گرنے کی آواز آتی رہی۔ پھر وہ باہر آگیا۔ اس کا چہرہ اب سوج رہا تھا۔
”کھانا لاﺅں؟“ اس نے کم زور سے لہجے میں پوچھا۔
”زہر لا دو۔“وہ بگڑے ہوئے تیور کے ساتھ گرجا۔
”مجھے نہیں پتا کہاں سے ملتا ہے۔“
”تو اپنے باپ سے کہو کہ وہ لا دے، کچھ تو کام آئیں وہ میرے۔“ اظفر دھاڑتے ہوئے بولا۔
”میرے باپ کو کیوں الزام دیتے ہو؟ انہوں نے تو تمہیں یہ سب کرنے پر مجبور نہیں کیا نا۔ جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کے ذمہ دارتم ہو اظفر صرف تم۔“ وہ بھی آگے سے درشتی سے بولی تھی۔ اس کا سر اب بھی درد سے پھٹ رہا تھا۔
”اتنا پیسا ہے ان کے پاس کیا، وہ تمہیں دے نہیں سکتے؟ تم ان سے مانگ نہیں سکتیں؟ تم اکلوتی اولاد ہو ان کی۔ انہیں تو تم پر دولت لٹا دینی چاہیے، اتنا بچا بچا کر کس کے لیے رکھ رہے ہیں وہ؟“ اظفرکا لہجہ ویسا ہی تھا۔
”بالکل! میں اُن کی اکلوتی اولاد ہوں اور تمہیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے، انہوں نے جس پیار سے مجھے پالا ہے سینت سینت کررکھا ہے۔ اگر تم اس کا دس فیصد بھی کرلو نہ اظفر تو ہماری زندگی جنت بن جائے لیکن تم، تم نے تو آج الگ ہی کارنامہ کیا ہے۔ تھوڑی بہت جو ہماری عزت محلے میں تھی وہ بھی خاک میں ملا دی تم نے۔“ وہ بری طرح چلا رہی تھی۔ اس کا سانس پھولنے لگا تھا۔ اظفر اسے شعلہ بار نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
”قرض واپس مانگنے والوں کو دروازے تک لے آئے تم۔ میرے باپ کے گھر میں کوئی گلی کا آدمی بھی ان کی غیر موجودگی میں نہیں آتا تھا اور یہاں، یہاں طرح طرح کے مرد آئے دن دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔ کچھ احساس ہے تمہیں؟ نہیں! تمہیں کوئی احساس نہیں ہے، تمہارے حسیات مر گئی ہیں، تمہیں صرف مانگنا آتا ہے دینا نہیں۔ تمہیں اپنی صلاحیتیں ضائع کرنا آتی ہیں۔ تم ایک ناکارہ انسان ہو، تم نے تو….“ آگے کے الفاظ اس کے منہ میں ہی رہ گے۔ اظفر کا بھاری بھرکم ہاتھ اُس کے گالوں پر اپنا نشان چھوڑ گیا تھا۔اس کا سر گھوم گیا اور وہ چکرا کر رہ گئی۔
”شٹ اپ روشنی! زہر اگلنا بند کردو۔ مجھے مزید کسی قدم کے لیے مجبور نہ کرو سمجھیں تم؟“تھپڑ لگانے کے بعد وہ بولا اور گرج دار آواز میں اسے دھمکاتے ہوئے کمرے سے باہر چلا گیا۔
روشنی شاک کی کیفیت میں وہیں بیٹھ گئی۔
اُس کا پورا سر سن ہو رہا تھا۔ افراز صاحب نے اس سے کبھی چیخ کر بات نہ کی تھی اور ابھی اس کا شوہر اسے مار کر گیا تھا، وہ واقعی میں مر گئی تھی۔
جس دن اس سے اظفر کی پہلی بار لڑائی ہوئی تھی۔ اس رات اسے لگتا تھا یہ اس کی زندگی کی سب سے بھیانک رات ہے اور اس سے زیادہ بری رات وہ کبھی نہیں دیکھے گی لیکن ابھی اسے احساس ہوا تھا آج کی رات اس رات سے بھی زیادہ بھیانک تھی۔ اتنی بھیانک کہ اس نے یہ بھی فیصلہ کر لیا کہ وہ اب اظفر کے ساتھ مزید نہیں رہ سکے گی۔ اظفر کے بغیر اگر اس کی زندگی خزاں ہوجانی تھی تو اظفر کے ساتھ زندگی جہنم ہی تھی اور اس نے جہنم پر خزاں کو فوقیت دے دی ہوتی اگر اسے یہ معلوم نہ ہوجاتا کہ وہ اب اکیلی نہیں، ایک اور وجود اس کی ذات سے منسلک ہو چکا ہے۔
وہ ماں بننے والی تھی۔
٭….٭….٭