”بابا۔“ اس نے چاول کا پہلا نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے باپ کو آواز دی۔ وہ کوریڈور میں رکھی ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھی با پ کے ساتھ کھانا کھارہی تھی، البتہ نین آج اپنی کسی دوست کے گھر کھانے پر مدعو ہونے کے باعث ا س وقت یہاں موجود نہیں تھی۔
”جی جان بابا۔“ وہ بھی نوالہ منہ میں رکھتے ہوئے بولے۔
”میں نے اسے سمجھایا، لیکن وہ اسٹیٹ واپس جانے پر رضا مند نہیں ہے۔“ شہمین نے تمہید باندھی۔
”پھر۔“
”اس کا ویزا بھی محض پندرہ دن کا ہے۔“ اس نے جھکی نظروں سے پلیٹ میں چمچ چلاتے ہوئے کہا۔
”تو….“ مسعود خان نے اپنی پلیٹ میں مزید چاول نکالتے ہوئے ایک نگاہ اس کی پلیٹ کو دیکھا جس میں کھانا جوں کا توں تھا۔
”تو میں نے سوچا ہے…. میں اسے پندرہ دن میں واپس جانے کے لیے راضی کرلوں۔“ ا س نے سلاد کے باﺅل سے کھیرے کا ایک ٹکڑا اٹھا کر منہ میں رکھا۔
”اگر آپ کا یہ ہی فیصلہ ہے، تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔“ مسعود خان نے پانی کا گھونٹ بھرا۔
”وہ بس ایک اجازت آپ سے چاہیے تھی۔“ وہ بالآخر اصل بات پر آگئی۔
”کہیں۔“ مسعود خان نے نیپکن سے منہ صاف کرتے ہوئے اس کی جانب دیکھا۔
”ان پندرہ دن تک اسے کہاں رکھوں ، ہوٹل میں…. یا گھر پر۔“ مسعود خان مسکرائے تھے۔
”آپ اس کو جہاں رکھنا چاہتی ہیں وہاں رکھیں۔ مجھے اپنی بیٹی پر پورااعتماد ہے۔“
اس نے نگاہ اٹھا کر ان کی جانب دیکھا۔ پھر اثبات میں گردن ہلادی۔
یہ صرف وہی جانتی تھی کہ یہ اجازت نہیں Reminder تھا کہ اس کو جہاں کہیں بھی رکھو۔بس میرا اعتماد مت ٹوٹنے دینا۔ جیسے اس کے اجازت لفظ کہنے سے مسعود خان سمجھ گئے تھے کہ وہ بظاہر مشورہ تو مانگ رہی ہے، لیکن اسے اپنی چاہ ہے کہ وہ گھر پر ہی رہے۔ یہ بھی ان باپ بیٹی کا ایک انداز تھا۔ رشتوں کے درمیانی پردے کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی بات کہنے کا۔
٭….٭….٭