”چھوٹی بیٹی آپ سے ملنے کوئی آیا ہے۔“ اکرم خان نے شہمین کے کمرے کے دروازے پر دستک دے کر کہا۔
”کون ہے اکرم چاچا۔“ وہ ہاتھ میں پکڑی کتاب کو بک مارک لگاتے ہوئے بیڈ سے اٹھی۔
”کوئی سفیر بابا ہیں بیٹی۔“
”سفیر۔“ شہمین نے زیر لب دہرایا۔
”اچھا بیٹی میں جارہا ہوں ۔ آپ دیکھ لینا۔“
اکرم خان جلدی میں تھے اس سے کہہ کر آگے بڑھ گئے۔ شہمین ابھی کمرے سے نکلنے ہی لگی تھی جب اس کے موبائل پر بیپ ہوئی اس نے جھک کر موبائل اسکرین دیکھی۔
”Zoe calling۔“
پھر وہ موبائل کو یونہی بجتا چھوڑ کر سیڑھیاں اترتی نیچے ڈرائنگ روم میں آگئی۔ اس نے ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہوئے گلا کھنکار کر اگلے کو اپنی موجودگی کا احساس دلایا، تو دروازے کے مخالف رخ پر رکھے صوفے پر بیٹھا وہ لڑکا ایک دم ہی اٹھ کھڑا ہوا اور اتنی ہی پھرتی سے اس نے دروازے کی سمت دیکھا۔
اس لڑکے کی رنگت گوری اور بال ہلکے براﺅن تھے جو الٹی سائیڈ کی مانگ سے بنے کندھوں تک آرہے تھے۔ آدھا چہرہ بھی گھنی ڈاڑھی سے ڈھکا ہوا تھا۔ دونوں کانوں میں ٹاپس اور گلے میں ایک لمبی سی چین میں لاکٹ ساجھول رہا تھا۔ گہرے نیلے رنگ کی شرٹ جس کی آستینوں کو اس نے کہنیوں تک چڑھا رکھا تھا اور اس کے ہاتھوں کی نسیں بے حد ابھری ہوئی تھیں۔ دائیں ہاتھ میں ایک بڑے ڈائل کی لیدر گھڑی اور دوسرے ہاتھ میں کچھ بینڈز تھے۔ اس کی آنکھوںکا رنگ بھی اس کی قمیص جیسا ”نیلا۔“ تھا۔
”تم یہاں پر کیا کررہے ہو؟“ وہ بے یقینی کی سی کیفیت میں بولی۔
”اب کچھ کہتے کیوں نہیں ہو۔“جب کافی دیر گزرنے کے بعد بھی وہ کچھ نہ بولا، تو شہمین نے کہا۔
”تم کچھ نہیں کہوگے؟ ٹھیک ہے، تو میں جارہی ہوں ۔“ وہ پلٹنے لگی، تو وہ لڑکا تیزی سے آگے بڑھ کربولا۔
”نہیں…. مت جاﺅ۔“ اس کے ہونٹوں کی حرکت اس کے قدموں کی طرح تیز تھی۔
”پھر بولو….کیوں آئے ہو یہاں۔“ شہمین کا انداز دو ٹوک تھا۔
”تم نے میرا شہر کیوں چھوڑ دیا؟“ اس کا سوال تھوڑا عجیب، مگر غیر متوقع ہرگز نہیں تھا۔
”یہ پوچھنے نیوجرسی سے یہا ں آئے ہو۔“ شہمین کے لہجے میں کھردرا پن واضح تھا۔
”نہیں۔“ اس کا لہجہ بے حد دھیما تھا۔
”پھر….“
”تمہیں دیکھنے۔“ اس کا یہ جملہ بھی عجیب تھا، لیکن غیر متوقع یہ بھی نہیں تھا۔
”مجھے دیکھنے؟ کیوں؟“ شہمین نے پھر دو ٹوک سوال کیا۔
”معلوم نہیں…. بس میں تمہیں دیکھتے رہنا چاہتا ہوں ۔صبح، شام، دن، رات ،ہر وقت ، ہر لمحہ، ہر سیکنڈ تمہیں اپنے سامنے چاہتا ہوں۔“ اس لڑکے نے بھی بغیر کوئی تمہید باندھے کہاتھا۔شہمین کا چہرہ بے تاثر تھا۔ وہ اس کے ان جملوںکو کسی بھی گریڈ فلم کے تھرڈ کلاس ہیرو کی فورتھ کلاس ڈائیلاگ بازی جان کر اسے کھری کھری سنا کر اپنے گھر سے دھکے دے کر نکال دیتی اگر نیوجرسی میں اس نے وقتاً فوقتاً اس لڑکے کو بالکل اسی انداز میں خود کو تکتے اپنے اردگرد نہ دیکھا ہوتا، وہ اگر گھنٹے کے وقفے سے بھی اس پر دوسری نگاہ ڈالتی تب بھی اس لڑکے کے انداز میں کوئی فرق محسوس نہ ہوتا۔
وہ شہمین کو خاموش پاکر دوبارہ بولنے لگا۔
”میںنے تمہیں پہلی بار یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں دیکھا تھا، کوئی آٹھ ماہ پہلے…. اس روز تم نے سرخ رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا۔“
وہ یہ کہہ کر ہلکا سا مسکرایا۔ اسے وہ شام یاد آئی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ شہمین کو بھی…. مگر اس کا چہرہ ابھی بھی بے تاثر تھا۔
”پھر نہ جانے مجھے کیا ہوا میں بار بار تمہاری جانب دیکھنے لگا، حالاں کہ اس روز آڈیٹوریم میں میرے پسندیدہ سبجیکٹ کا سیمینار چل رہا تھا، مگر میں چاہ کے بھی کسی دوسری چیز کی طرف اپنی توجہ مرکوز نہیں کرپارہا تھا۔ میں اگر تمہارے چہرے سے نگاہ ہٹا بھی لیتا، تو اگلے ہی لمحے پھر بے تابی سے تمہاری جانب دیکھتا اور ہر لوٹتی نگاہ میں بے تابی کی شدت پہلے سے کئی زیادہ ہوتی۔ مجھے اس سب سے بہت بے چینی ہونے لگی تھی۔ میں سمجھ ہی نہیں پارہا تھا کہ میرے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ پھر میں نے سوچا کہ یہ شاید کوئی وقتی چیز ہے ۔ میں یہاں سے نکلوں گا، تو سب ٹھیک ہوجائے گا، مگرمیں غلط تھا یہ وقتی نہیں تھی۔بلکہ یہ تو وقت کے ساتھ ساتھ اور مصر ہوتی چلی گئی ۔ میں اندر ہی اندر پریشان ہونے لگا،ایسا لگا شاید مجھے کوئی بیماری ہوگئی ہے اور اب بہت میں جلد مرجاﺅں گا۔ میں نے ڈاکٹر کے پاس جانے کا سوچا اور اس ایک ماہ میں، میں نے پتا نہیں کتنے ڈاکٹر سے اپنا چیک اپ کروایا، مگر وہ کہتے ہیں آپ بالکل صحت مند ہیں۔ ہم علاج کریں تو کس چیز کا کریں؟ پھر میں نے سوچا کہ میں کسی کو بتاﺅں کہ میرے ساتھ کیا ہورہا ہے، میں نے اپنے دوستوںکو بتایا، مگر انہوں نے بھی میرا مذاق اڑا،یا لیکن، ثوبان ، میرے دوست نے مجھ سے کہا کہ مجھے کسی Psychiatrist کے پاس جانا چاہیے،مجھے بھی یہ ہی ٹھیک لگا۔ میں نے ایک Psychiatrist کے پاس جاکر اسے سب کچھ بتادیا تو وہ بولا۔
”تمہیں Addiction ہوگئی ہے۔“
”کیا اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔“ میں نے پوچھا اس سے۔
”نہیں…. محض دعا کی جاسکتی ہے۔“ اس نے مایوسی سے کہا۔ میں اس کے پاس سے اٹھنے لگا پھر میں بیٹھ گیا اور پوچھا۔
”اس Addictionمیں مقدار کی کتنی زیادتی مجھے مار سکتی ہے۔“
”زیادتی نہیں…. ہاں کمی ضرور مار سکتی ہے۔ تم کوشش کرنا کمی نہ ہو۔“
میں یہ سن کر مایوسی سے اس کے پاس سے اٹھ گیا۔ میں نے سوچا ایک، دو اور Psychiatrist کو دکھاﺅں، مگر سب کے پاس ایک ہی جواب تھا۔ مجھے موت کا خوف ہوا، میں ابھی مرنا نہیں چاہتا تھا پھر میں نے پوری کوشش شروع کردی کہ اس Addiction کی مقدار میں کمی نہ آئے، میں زیادہ سے زیادہ تمہیں دیکھنے لگا، تمہارے اردگرد رہنے لگا، میں نے ایک دو بار سوچا تم سے بات کروں۔ پھر میں ڈر گیا کہ کہیں ایسا نہ ہو تم سے با ت کرکے میرا مرض اور بڑھ جائے۔
اور پھر یوں ہی وقت گزرتا گیا۔ یہ ایک اتفاق تھا کہ تم روز اپنے ہاسٹل سے باہر ضرور نکلتی تھیں اس لیے کبھی مجھے یہ خیال ہی نہیں آیا کہ کبھی ایسا بھی ہوگا کہ تم کہیں چلی جاﺅگی اور پھر واپس نہیں آﺅگی۔“ وہ لمحہ بھر کو رکا پھر دوبارہ بولا۔
”وہ پیر کا دن تھا، اس روز ٹھنڈ بہت زیادہ تھی اور مجھے گھر سے نکلتے وقت شاید کچھ دیر بھی ہوگئی تھی۔ بہرحال میںبھاگم بھاگ تمہارے ہاسٹل پہنچا۔ تھوڑی دیر گزری صبح سے دوپہر ہوئی پھر دوپہر سے شام اور پھر شام سے رات، ہر شے اپنے معمول کے مطابق حرکت میں تھی بس ایک تم تھیں جو کہیں نظر نہیں آرہی تھیں اور ایک میں تھا جوتمہیں دیکھنے کے لیے پاگل ہوئے جارہا تھا۔
میں نے وہ تمام رات وہیں تمہارے ہاسٹل کے باہر گزار دی۔ اس امید پر کہ شاید تم کہیں دکھ جاﺅ …. لیکن تم نہیں دکھیں۔ میں نے اسی پریشانی میں آسمان کو دیکھا ، ممی کہتی ہیں وہاں خدا ہوتا ہے۔ میں نے اس سے درخواست کی کہ مجھے تمہیں دکھا دے، مگر نہ اس نے کوئی جواب دیا نہ تمہیں دکھایا۔ میری حالت اب بہت زیادہ غیر ہونے لگی تھی مجھے یوں محسوس ہورہا تھا۔ جیسے کوئی میرے ہاتھ پاﺅں سے جان نکال رہا ہو۔ کوئی میری سانسیں نوچ رہا ہو اور میں بے بس، کچھ نہیں کرسکتا تھا۔
پھر اسی حالت میں دوپہر ہوئی، دوپہر سے شام اور شام سے رات، اس دن بھی ہر شے اپنے معمول کے مطابق حرکت میں رہی، بس ایک تم تھیں جو اس دن بھی نظر نہیں آئیں اور ایک میں تھا جو اس دن بھی تمہیں دیکھنے کے لیے پاگل ہورہا تھا۔
اور یوں اس شدید ٹھنڈ اور اتنی لمبی بے خوابی نے مجھے بیمار کردیا، میںبے ہوش ہوگیا۔“ اسے اس وقت بھی اپنی وہی کیفیت محسوس ہورہی تھی۔
”میری دوبارہ آنکھ اسپتال میں کھلی ، ممی میرے سرہانے بیٹھی کچھ پڑھ رہی تھیں، میں نے ان سے کہا یہ پڑھنے سے کچھ نہیں ہوگا اس کو لے آئیں سب ٹھیک ہوجائے گا، لیکن ممی کو تو آسان باتیں سمجھ نہیں آتیں وہ یہ مشکل بات کیسے سمجھتیں۔
میں اسپتال سے بھاگ جانا چاہتا تھا، لیکن وہ لوگ مجھے فرار کا کوئی موقع نہیں دے رہے تھے، مگر ایک روز مجھے موقع مل گیا اور میں وہاں سے نکل کر سیدھا یونیورسٹی پہنچا۔ میں تمہیں ڈھونڈ رہا تھا جب مجھے وہ لڑکی دکھی وہ گوری رنگت اور سنہری بالوں والی، وہ جو ہر وقت تمہارے ساتھ ہوتی تھی۔میں نے خدا کی طرح اس سے بھی درخواست کی اور تمہیں پتا ہے، جو درخواست خدا نے رد کردی تھی وہ اس نے پوری کردی اور تب مجھے یقین ہوگیا انسان خدا سے زیادہ رحم دل ہے۔“ شہمین کا جی چاہا وہ اس کی ساری بکواس پر اس کے منہ پر ایک تھپڑ کھینچ مارے، مگر وہ اس کے بے بس سے لہجے کا لحاظ کرگئی۔
”لیکن تمہارا پتا ملنے کے بعد بھی مجھے انتظار کرنا پڑا۔ ویزے کا، یہ قاعدے قانون تو مرتے ہوئے انسان کو بھی نہیں بخشتے۔اب بھلے انسان مرجائے یہ زندہ رہنے چاہئیں۔“ وہ کرب سے ہنسا پھر خاموش ہوگیا اور جب کافی دیر تک وہ دوبارہ کچھ نہ بولا تو شہمین نے کہا۔
”بس ہوگئی تمہاری بات مکمل یا ابھی اور کچھ رہتا ہے؟“
”نہیں اور کچھ تو نہیں کہنا۔“ وہ ابھی بھی اسے تکتے ہوئے اسی دھیمے لہجے میں بولا تھا۔
”جان بابا کیا کوئی مہمان آیا ہے؟“ ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے مسعود خان نے پوچھا جو خود بھی ابھی تک دروازے سے چند قدموں کے فاصلے پر ہی کھڑی تھی۔
”وہ بابا۔“ شہمین کچھ کہتے کہتے اٹکی۔ (بابا سے کیا کہہ کر اس کا تعارف کرواﺅں ) وہ سوچ میں پڑگئی۔
مسئلہ یہ نہیں تھا کہ کوئی لڑکا اس سے ملنے آیا تھا، مسئلہ یہ تھا کہ ایک لڑکا دیوانوں کی طرح اسے ڈھونڈتا اپنا ملک چھوڑ کر اس کے ملک آیا تھا اور وہ یہ بات کھٹاک سے اپنے باپ سے نہیں کہہ سکتی تھی، ان کے درمیان رشتہ دوستی کاتھا بدلحاظی کا نہیں۔
”ہیلو انکل …. میں سفیر ہوں۔“ شہمین کو خاموش دیکھ کر سفیر خود ہی بول پڑا۔ جب کہ شہمین نے کچھ بے یقینی سے اسے دیکھا، اس کا خیال تھا کہ وہ اردو نہیں بول سکتا، مگر اب وہ اردو بول رہا تھا۔
”ہیلو بیٹا میں شہمین کا باپ ہوں۔“ مسعود خان نے اس سے مصافحہ کرتے ہوئے اپنا تعارف کروایا۔ اب وہ خاموش کھڑے شہمین کی جانب دیکھ رہے تھے۔ جیسے اس سے اس لڑکے کا کوئی تعارف چاہ رہے ہوں۔
”بابا یہ امریکا سے آیا ہے۔ ہم ایک ہی یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔“ شہمین ادھورے جملوں کو ملا کر کوئی معقول ساجواب بنانے کی سعی کرنے لگی۔ یہ عادت بھی اسے بچپن ہی سے تھی جب کسی سوال کا جواب نہ بن پاتا، تو وہ دماغ میں آئے ادھورے جملوں کو ملا کر ایک معقول جواب بنانے میںلگ جاتی، وہ اس وقت بھی یہ ہی کررہی تھی۔
”یہ پاکستان پہلی بار آیا ہے…. اسے یہاں کچھ کام ہے۔“
”مطلب اسے ہماری مدد چاہیے۔“ مسعود خان نے مسکراتے ہوئے اس کے جملوں کو ایک مفہوم دے کر اس کی مشکل آسان کردی۔
”جی بابا۔“ وہ شکر کا سانس لیتے ہوئے بولی۔
”آپ لوگ کھڑے کیوں ہو؟ بیٹھ جاﺅ۔“ مسعود خان کے کہنے پر وہ دونوں دروازے سے ہٹ کر ان کے ساتھ چلتے ہوئے صوفے پر آبیٹھے تھے۔
”جان بابا اس بچے کو آئے کافی دیر ہوگئی آپ نے اس سے کچھ کھانے پینے کا نہیں پوچھا۔“
”جی بابا…. میں اکرم چاچاسے کہتی ہوں۔“شہمین اپنی جگہ سے اٹھنے لگی، تو سفیر فوراً بول پڑا۔
”نہیں مجھے کچھ نہیں چاہیے۔“ وہ شہمین کو اپنی نگاہوں سے اوجھل ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔
”کچھ نہیں تو ایک کپ چائے ہی پی لو ہمارے ساتھ۔“ مسعود خان اس کے انداز کو نظر انداز کرکے بولے جب کہ شہمین کو اس کے انداز پر شدید غصہ آیا تھا۔ پھر مسعود خان نے خود ہی اکرم چاچا کو آواز دے کر چائے کا کہہ دیا تھا۔
”اور بتاﺅ بیٹا نیو جرسی میں رہتے ہوئے کتنا عرصہ گزر گیا آپ لوگوں کو۔“ مسعودخان نے اب سفیر کی جانب رُخ کرلیا تھا۔
”میرے دادا اٹلی سے ہجرت کرکے نیوجرسی آئے تھے اور اس کے بعد سے ہم وہیں ہیں۔“ وہ بات مسعود خان سے کررہا تھا، مگر نگاہیں بھٹک بھٹک کر شہمین پر جارہی تھیں جس سے وہ سخت الجھن میں تھی۔
”اور والدین کیا کرتے ہیں آپ کے؟“
مسعود خان شہمین اور نین کے ملنے ملانے والوں سے پہلی ملاقات میں ایسے سوال ضرور کرتے۔
”میرے فادر سافٹ وئیر انجینئر ہیں اور ممی گھر پر ہی ہوتی ہیں۔“ سفیر ان کے سوالوں سے تھوڑا گھبرانے لگا۔ اس سے پہلے اس کے کسی بھی فرینڈ کے فادر نے اس سے ایسے سوالات نہیں کیے تھے۔
”صحیح۔ گھرمیں اور کون کون ہے۔“ مسعود خان نے چائے کا کپ اس کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا جب کہ شہمین خاموش بیٹھی دونوں کو سن رہی تھی۔
”ممی، ڈیڈ، سیف، اَمل اور میں۔“ سفیر نے چائے کی پہلی چسکی لی اور یک دم ہی اس کے چہرے کے تاثرات بگڑے تھے، اسے چائے کا ذائقہ اچھا نہیں لگا۔
”سیف اور اَمل آپ کے چھوٹے بھائی بہن ہیں؟“
”جی۔“ اس نے چائے کا کپ واپس ٹیبل پر رکھ دیا۔
”آپ کیا کرتے ہو۔“
”میں بھی سافٹ وئیر انجینئر میں ماسٹر کررہا ہوں۔“
”زبردست لڑکے…. کیا بل گیٹس کو ٹکر دینے کا ارادہ ہے؟“ مسعود خان اس کے قریب جھکتے ہوئے رازداری سے بولے۔ سفیر ان کی بات سے زیادہ ان کے انداز پر ہنس پڑا تھا۔
مزید چند ایک سوال کے بعد مسعود خان یہ کہہ کر اٹھ گئے کہ:
”مجھے کچھ کام ہے آپ لوگ باتیں کرو۔“ مگر شہمین کا اس سے باتیں کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اس لیے اس نے بات سمیٹنے کی کوشش کی۔
”جو تم کہنے آئے تھے وہ میں نے سن لیا، میرا خیال ہے اب تمہیں چلنا چاہیے۔“ وہ بولی تھی۔
”او کے۔“ سفیر نے سادگی سے کہا تھا، البتہ شہمین شدید حیرت کا شکار ہوئی۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اتنی آسانی سے مان جائے گا۔
”پھر اللہ حافظ۔“ شہمین نے صوفے سے اٹھتے ہوئے کہا۔ سفیر بھی خاموشی سے اٹھ کر اس کے ساتھ ہی کمرے سے باہر آگیا۔
٭….٭….٭