رات کاآخری پہر شروع ہونے ہی لگا تھا جب اپنے سرہانے بجتے الارم کی آواز پر اس کی آنکھ کھلی۔ سفیر نے کسمسا کر سائیڈ ٹیبل پر رکھا موبائل ٹٹول کر الارم بند کیا۔ پھر چند لمحوں بعد وہ آنکھیں مسلتا اٹھ بیٹھا۔
اس کے کمرے میں مکمل تاریکی تھی بس دیوار پر لگا ایک مدھم سا نائٹ بلب روشن تھا جس کی روشنی کمرے میں پھیلی تاریکی کے باعث بہت تیز لگ رہی تھی۔
سفیر نے اپنے بالوں کو کان کے پیچھے اڑستے ہوئے گردن ترچھی کرکے اپنے برابر میں سوئی شہمین کو دیکھا اور پھر وہ کتنے ہی لمحے اسے یونہی بیٹھا تکتا رہا، مگر پھر موبائل پر ہوتی میسج بیپ نے اس کے تسلسل کو توڑا تھا۔ سفیر نے مسکراکر سر جھٹکتے ہوئے سائیڈ ٹیبل پر سے موبائل اٹھا کر میسج چیک کیا۔ جہاں وہ چوڑی پٹی والا فوٹو فریم آج بھی موجود تھا، مگر اب اس میں صرف شہمین کی تصویر نہیں تھی بلکہ چار دن قبل ان کے نکاح میں لی گئی ان دونوں کی تصویر تھی۔ سفیر نے انباکس کھول کر دیکھا، میسج روز کی طرح عمر کا تھا۔ وہ اسے نماز کے لیے اٹھا رہا تھا۔
©”Awaked.” سفیر نے بھی معمول کی طرح ایک لفظی جواب لکھ کر سینڈ کیا۔ پھر وہ احتیاط سے اُٹھ کر واش روم میں گھس گیا اور اگلے پندرہ منٹ بعد وہ گھر سے نکل کر مسجد کے دروازے پرموجود تھا۔ اس نے ہمیشہ کی طرح ایک نگاہ اٹھا کر مسجد کے منار کو دیکھا جس کے ساتھ لگا لاﺅڈ اسپیکر اس وقت خاموش تھا کیوں کہ فجرہونے میں ابھی وقت باقی تھا۔
سفیر نے نگاہیں نیچی کرکے جھکے دل اور کانپتے قدموں کے ساتھ مسجد میں قدم رکھا۔ عمر، اسفندیار کے ساتھ صحن میں بیٹھا اسی کا منتظر تھا۔ سفیر اس کے نزدیک آگیا۔ پھر اس نے روز کے معمول کی طرح عمر کو اپنے گلے لگایا۔ ”کیسے ہیں سفیر بھائی؟“ عمر اس سے عمر میں چار سال چھوٹا تھا اس لیے اسے بھائی ہی کہتا تھا۔
”ٹھیک ہوں…. تم کیسے ہو؟“ وہ خوش دلی سے بولا۔
”میں بھی۔“
عمر سے الگ ہوکر سفیر اسفند یار سے ملا اور پھر مسجد کی چھت کی جانب بڑھ گیا۔ جہاں رات کے اس پہر اس کے سوا کوئی نہ تھا۔ یہ اس کا بائیس سال پہلے کا معمول تھا اور گزرے دو ماہ سے بھی وہ اسی معمول پر کاربند تھا۔ تہجد کے وقت ہی مسجد آجاتا اور پھر تنہا مسجد کی چھت پر تہجد ادا کرکے فجر ہونے تک اللہ سے راز و نیاز میںمشغول رہتا۔ عمر نے ایک روز اس کے ساتھ مسجد کی چھت پر تہجد ادا کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی، مگر سفیر نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ ”یہ ہماری ملاقات کا وقت ہے۔ میں اس میں کسی تیسرے کی موجودگی نہیں چاہتا۔“ عمر نے اس کی بات کا بالکل برا نہیں مانا کیوں کہ یہ دو تعلق رکھنے والوں کا حق ہے کہ انہیں کچھ لمحے تنہائی کے دیے جائیں۔
”کیسے ہیں آپ؟ ٹھیک ہی ہوں گے۔ میں بھی ٹھیک ہوں۔“ وہ تہجد سے فارغ ہوکر مصلے پر بیٹھا ہاتھ پہلو میںگرائے آسمان کی جانب دیکھتا اللہ سے کہہ رہا تھا۔
”میںنے جو کیا وہ ٹھیک کیا نا؟“ اس نے اللہ سے پوچھا ، چند لمحے خاموش رہا پھر دوبارہ بولنے لگا۔
”اس رات اگر میں آگے بڑھ جاتا، تو شاید اس لڑکے کو بچا لیتا جس کا پچھتاوا مجھے ابھی بھی ہے اس لیے کہ وہاں اس کو بچانے والا کوئی اور انسان موجود نہیں تھا، مگر ضوٹی ۔ اس کو سہارا دینے کے لیے تو کسی بھی عملی مسلمان کو ڈھونڈا جاسکتا تھا۔ یہاںمیرے پاس وقت بھی تھا اور گنجائش بھی۔ پھر میں کیوں ایک ایسی قربانی دیتا جس کی ضرورت ہی نہیں تھی اور پھر یہاں صرف قربانی میں تو نہیں دیتا بلکہ میرے ساتھ ساتھ وہ لڑکی بھی قربانی دیتی جو گزرے ایک سال سے میرے لوٹنے کی اُمید لگائے بیٹھی تھی۔ بے شک اللہ کے لیے تو اس کاہر بندہ بہ خوشی قربانی دینے پر رضا مند ہوجاتا ہے اور اگرمیں شہمین سے آپ کا واسطہ دے کر کہتا، تو وہ بھی ہوجاتی، مگر میں کیوں دونوں کو ایک ایسی قربانی دینے پر راضی کرتا جس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔“ وہ کہہ کر خاموش ہوا پھر دوبارہ بولا۔
”اس شام جب ضوٹی مجھ سے مدد مانگنے آئی تھی، تو میں نے اپنے دل پرپتھر رکھ کر یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ میں اس بار اپنے مذہب کی راہ میں لڑتے ایک انسان کے پھیلے ہوئے ہاتھ کو نہیں دھتکاروں گا، مگر پھر جب میں ضوٹی کے پاس سے اُٹھ کر اپنے کمر ے میں آیا اور میری نگاہ شہمین کی تصویر سے پ پڑی، تو میرے دل نے مجھ سے کہا۔
”مجھ پر تو نے پتھر رکھ لیا حالاں کہ میں اس کے بعد بھی کسی اور کا نہیں ہوپاﺅں گا۔ مگر اس سے کیا کہے گا؟“
”اسے سمجھاﺅں گا وہ سمجھ جائے گی؟“ میں نے دل سے کہا تھا۔
”لیکن کیوں …. کیوں سمجھائے گا تو اُسے اور کیا سمجھائے گا؟ یہ کہ پہلے تو میں تمہارے لیے مررہا تھا،لیکن اب مجھے یک دم ہی مذہب کے لیے قربانی دینا یاد آگیا۔“
”تو میں کیا کروں…. اس نے مجھے اللہ کا واسطہ دیا ہے…. میں اس کے واسطے کا مان نہیں توڑ سکتا۔“
”تو کون کہہ رہا ہے تجھ سے یہ مان توڑنے کا؟ میں تو تجھے یہ سمجھا رہا ہوں کہ اسے کسی کا سہارا چاہیے…. سفیر کا نہیں…. جب کہ شہمین کو صرف سفیر چاہیے ۔ کوئی اور نہیں۔“
”تو میں کیا کروں۔“
”اس کسی کو ڈھونڈ جو ضوٹی کے لیے سفیر کا متبادل بن جائے۔“ میرے دل سے آئی اس آواز نے مجھے چونکا دیا تھا۔ ایک لمحے کو مجھے لگا جیسے تو مجھ سے ہم کلام ہے اور میں نے باقاعدہ زبان سے کہہ کر پوچھا تھا کہ کیا اللہ یہ تو ہے، لیکن اگلی بار مجھے کوئی جواب نہیں ملا اور میں تھوڑی دیر کی کوشش کے بعد وہاں سے اٹھ گیا یہ سوچتا ہوا کہ کیسے اپنامتبادل ڈھونڈوں؟ کچھ دن مزید گزرنے پر میرے ذہن میں اسفندانکل کاخیال آیا۔ میں نے سوچا مجھے ان سے پوچھنا چاہیے اور میں نے وقت ضائع کیے بغیر انہیں اپنا مسئلہ بتایا تو وہ بولے تھے۔
”دیکھو بیٹا اس دنیا کی زندگی کو آزمائش سے تشبیہ دی گئی ہے۔ یہ بے حد مشکل ہے اور اس کی مشکلات کے ساتھ انسان اگر کوئی بلاوجہ کے سخت فیصلے کرکے خود کو بڑا عقل مند سمجھ رہا ہے، تو وہ ایک انتہائی بے وقوف انسان ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ مذہب کے لیے انسان کو قربانی نہیں دینی چاہیے بلکہ میں کہوں گا آگے سے آگے بڑھ کر دینی چاہیے اور مذہب کے لیے دی گئی قربانیوں سے تو ہماری تاریخ بھری پڑی ہے اور معاذ اللہ وہ بے وقوف تھوڑی تھے جنہوں نے مذہب کے لیے قربانیاں دیں بلکہ وہ تو سب سے زیادہ عاقل تھے، مگر اس ہی میں سے ایک واقعہ حضرت ابراہیم ؑاور حضرت اسماعیل ؑکی قربانی کا بھی ہے۔ اللہ نے ان سے بیٹے کی قربانی مانگی، تو وہ فوراً اللہ کے حکم کے تابع ہوگئے اور بیٹے کو قربان کرنے کھڑے ہوئے مگر پھر اللہ نے کیا کیا؟ حضرت اسماعیل ؑکی جگہ دنبہ رکھ دیا اور اپنے بندوں کے لیے آسانی پیدا کی۔ تمہیں پتا ہے میں یہاں کن بندوں کی بات کررہا ہوں؟“ سفیر نے تیز ی سے نفی میں گردن ہلائی۔
”تمہاری، میری، ہم سب کی۔ کیوں کہ اگر اللہ حضرت اسماعیل ؑکی جگہ دنبہ نہ لا تے، تو پھر ہم سب کو بھی ہر بار اپنے لخت جگر کی قربانی دینی پڑتی اور حضرت ابراہیم ؑتو یہ قربانی دے ہی دیتے، مگر کیا ہم یہ قربانی دے پاتے؟ اس لیے اللہ نے اپنی رحمت سے ہمارے لیے گنجائش کا راستہ نکالا۔ اب تم نے دیکھا ہے کہ کوئی سنت ِ ابراہیمی ؑادا کرنے کے لیے اپنے بیٹے کو قربان کرتاہے؟ نہیں نا۔ کیوں کہ اللہ نے اپنے بندے کے لیے اس قربانی میں گنجائش نکال دی ہے۔ ایسے ہی زندگی کے مختلف مواقع پر مذہب انسان سے مختلف قربانیاں مانگ سکتا ہے۔ ایسے میں یہ ضرور دیکھ لینا چاہیے کہ یہاں کوئی گنجائش ہے۔ اس قربانی کے لیے کوئی اور متبادل ہے۔ اگر ہے، تو آپ اسے چن سکتے ہیں۔ دیکھو بیٹا مذہب یہ نہیں کہتا کہ آپ اپنے اوپر جبراً سختی کریں جیسے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی نہیں کہتا کہ جہاں گنجائش نہیں ہے وہاں آپ اپنی ناقص عقل سے گنجائش نکالنے کھڑے ہوجائیں۔ یہ تمام باتیں مذہب کو سمجھنے اور اس پر غور کرنے کی ہیں۔“ انہوں نے کہہ کر سانس لیاپھردوبارہ بولے۔
”اور جہاں تک رہی بات کہ تم متبادل کیسے ڈھونڈوگے، تودیکھو وہ تم میں کیا دیکھ رہی ہے ایک ایسا عملی مسلمان نا جو اس کے لیے سہارا بن جائے…. تو میرا خیال ہے کہ سفیر احمد ایک واحد عملی مسلمان تو ہرگز نہیں ہوگا۔“ وہ کہہ کر مسکرائے اور اسی لمحے وہاں پر عمر آیا اورہم دونوں نے چونک کر اسے دیکھا۔ اس وقت ہم دونوں کا دل یہ گواہی دے رہا تھا کہ وہ آیا نہیں بھیجا گیا ہے۔
سفیر ابھی بھی آسمان کی جانب دیکھتا مسکرارہا تھا۔ جب ہی لاﺅڈ اسپیکر سے فجر کی اذان ہونے لگی تھی۔ وہ یونہی ہنوز مسکراتا مسجد کی چھت سے اتر کر صحن میں آگیا۔ وہ اسفندیار کے نزدیک آکر کھڑا ہی ہوا تھا جب انہوں نے اس کے چہرے کو بہ غور دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”لگتا ہے آج جواب لے کر آئے ہو۔“ سفیر نے بھی چونک کر انہیں دیکھا، اس کی مسکراہٹ مزید گہری۔
”نہیں جواب تو نہیں ملا، مگر ہاں میری اُمید مضبوط ہوگئی ہے اور میں سوال کرتا رہوں گا کہ شاید حضرت موسیٰؑ کی طرح کسی روز مجھ پربھی نظرکرم ہوجائے۔“ وہ بے حد مان سے بولا اور پھر اللہ تو اپنے پکارے جانے والے ہر بندے کا مان رکھتا ہی ہے۔
صحن میں صفیں بچھنی شروع ہوگئیں تھیں۔ وہ تینوں بھی اس جانب بڑھ گئے۔
٭….٭….٭