المیزان

تمہارے کچھ مہمان آئے ہیں بیٹا۔سفیر عشا کی نماز ادا کرکے ابھی کچھ دیر پہلے ہی لوٹا تھا اور اس وقت شہمین کی تصویر ہاتھ میں لیے اپنے بیڈ کے کنارے پر ٹکا ہوا تھا جب ذونی احمد نے آکر اسے بتایا۔

کون۔سفیر نے فوٹو فریم ٹیبل پر رکھتے ہوئے پوچھا۔

وہ گیسٹ روم میں ہیں تم مل لو۔ میں کھانا لگانے جارہی ہوں۔ذونی احمد کہہ کر کچن کی جانب بڑھ گئیں تھیں۔ سفیر ان کے انداز پر کچھ ٹھٹکا پھر اپنے کمرے سے نکل کر گیسٹ روم کی طرف گیا تھا۔ جس کا دروازہ بند تھا۔ سفیر نے دروازے پر دستک دی جو اگلے ہی لمحے ایک کلک کی آواز سے کھل گیا اور یک دم ہی سفیر کے پیروں کے جیسے زمین نکل گئی تھی۔

انکل آپ۔وہ حیرت سے اٹک اٹک کر بولا تھا۔

جی ہم ۔مسعود خان نے آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگایا۔ سفیر نے گلے ملتے ہوئے نگاہیں گھما کر کمرے کو ٹٹولا جو خالی تھا۔

اگر انکل آئے ہیں، تو شاید شہمین بھی آئی ہوگی۔سفیرنے سوچا۔

کیسے ہو؟وہ اس سے علیحدہ ہوکر بولے تھے۔

ٹھیک …. آپ؟سفیر نے سرجھٹک کر اُنہیں دیکھا۔

ہم بھی۔پھر انہوں نے اپنی عینک کے اوپر سے بہ غور اس کا بجھا بجھا پرسوچ چہرہ دیکھا اور مزید کہا۔

کیا آپ کو ہمیں دیکھ کر خوشی نہیں ہوئی۔

نہیں…. انکل…. ایسی کوئی بات نہیں ہے۔وہ پھر اٹکا اور اس بار مسعود خان بری طرح ٹھٹکے تھے۔

پھر آپ کا چہرہ اتنا بجھا بجھا کیوں ہے؟ طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟وہ فکر مندی سے بولے تھے۔

نہیں…. وہ…. آپ اکیلے آئے …. ہیں؟بالآخر سوچ لبوں تک آہی گئی مگر ویسے ہی اٹکتے ہوئے۔ مسعود خان کی ابرو تعجب میں اُچکی تھی۔

سفیر…. اور بات کرتے میں تمہید باندھے؟ کہیں کچھ تو غلط تھا، مگر کیا؟وہ سوچ رہے تھے پھر انہوں نے بہ غور اس کے تاثرات دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے سوال کیا۔

کیوں؟ کسی اور کو بھی ساتھ لانا تھا کیا؟

ہاں…. نہیں۔وہ ان کے سوال پر سٹپٹایا پھر سرجھٹک کر بولا۔

چھوڑیں اسے آئیں کھانا لگ گیا ہوگا۔وہ آگے بڑھ گیا تھا جب کہ مسعود خان کی یک دم بھوک ہی اڑ گئی۔ وہ دونوں جب کمرے سے نکل کر کوریڈور میں پہنچے تب تک شہمین سمیت سب ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ چکے تھے۔ شجس پر نگاہ پڑتے ہی سفیر کے قدم بالکل ساکت ہوگئے۔ وہ اپنی جگہ پر کھڑا ایک ٹک اسے دیکھے گیا تھا۔

چلو بچے۔مسعود خان اس کے ساتھ کھڑے اس کے کندھے پر بازو پھیلا کر بولے۔ وہ اس کے چہرے کے ایک ایک اتار چڑھاکو بہ غور دیکھ رہے تھے۔ سفیر چونکا پھر مسعود خان سمیت باقی تمام افراد کو بھی اپنی جانب متوجہ پاکر وہ آگے بڑھ گیا۔ سوائے شہمین کے اس کی سفیر کی جانب پیٹھ تھی۔

سفیر اور مسعود خان اب ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ چکے تھے، مگر وہ شہمین کی جانب دیکھنے اور بات کرنے سے واضح گریز کررہا تھا اور اس کا یہ غیرمتوقع رویہ شہمین کے اعصاب کو کسی طوفان کی طرح اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا۔ اس کی سوچیں بھٹکنے لگیں تھیں۔

وہ نہیں بدلا یہ بس میرا وہم ہے۔اس نے سرجھٹک کر سوچا، پھر بے دلی سے نوالہ منہ میں ڈالنے لگی۔

چائے۔کھانے کے بعد وہ سب سے الگ کوریڈور میں رکھے ایک صوفے پر بیٹھ گئی۔ دل کو لاکھ تسلی دینے کے بعد بھی وہ بے کل تھا۔ جب سفیر ہاتھ میں دو کپ تھامے کچھ دیر بعد اس کے قریب آکر بولا۔ شہمین نے کھوئی کھوئی نگاہ اٹھا کر اس کو دیکھا۔ اس کا چہرہ بے تاثر تھا پھر اس نے چائے کے کپ دیکھے۔ دونوں میں ملک ٹی تھی۔

میں اب ملک ٹی نہیں پیتی۔وہ ہنوز اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے بولی۔ سفیر کا دل کسی نے مٹھی میں جکڑ ا تھا۔

پھر کیا پیتی ہو۔وہ جواب سے واقف تھا، مگر پھر بھی سوال کردیا۔

بلیک ٹی۔وہ آہستہ سے بولی۔ سفیر نے ایک گہرا سانس لے کر ہاتھ پیچھے کھینچا۔ پھر اپنا کپ ٹیبل پر رکھ کر کچن کی طرف چل دیا اور اگلے دس منٹ بعد جب لوٹا، تو اس کے ہاتھ ایک بھاپ اڑاتا بلیک ٹی کا کپ تھا جو اس نے شہمین کے سامنے رکھ دیا۔

“Thanks.” وہ مسکرائی۔ اس کے دل کو اب کچھ سکون ملا تھا۔ سفیر نے نرم نگاہوں سے اس کے چہرے پرپھیلی مسکراہٹ دیکھی۔

پھر اس کے برابر بچھے صوفے پر بیٹھ گیا ایسے کہ اس کا رخ سامنے کی اور تھا اور شہمین کا اس کی جو ڈائننگ ٹیبل پر سب کی موجودگی کے باعث اسے ٹھیک سے دیکھ نہیں پائی تھی، مگر اب وہ گرم چائے کے گھونٹ بھرتی ہوئی بہ غور اسے دیکھ رہی تھی۔

اس نے آج بھی اپنی مخصوص بلو جینز کے ساتھ بلیک رنگ کی شرٹ پہنی ہوئی تھی جس کی آستین آج بھی فولڈ تھیں اور اس سے جھانکتے اس کے ہاتھوں کی نسیں آج بھی ابھری ہوئی تھیں ۔ اس کے سر کے اور ڈاڑھی کے بالوں میں بھی کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ ہاں مگر آج اس کے کانوں میں کوئی ٹاپس نہیں تھے نہ ہی ہاتھوں میں کوئی بینڈز تھے۔

وہ آج مجھے اتنی گہری نگاہوں سے کیوں دیکھ رہی ہے؟ ا س نے پہلے تو کبھی ایسے نہیں دیکھا؟

وہ کیا سوچ رہی ہے؟ کیا وہ مجھے پرکھ رہی ہے کہ میں نے اس کی شرائط پوری کی ہیںیا نہیں؟وہ بے چین سا اپنی ٹھنڈی چائے کا کپ ہاتھ میں پکڑے اس کے کنارے پر انگلی پھیرتا سوچ رہا تھا۔ جب شہمین ا س کے مخاطب کرنے کا انتظار کرکے بالآخر خود ہی بول پڑی۔

کوئی بات کرو نہ۔ اتنے خاموش کیوں بیٹھے ہو؟

شہمین کا دھیما لہجہ سفیر کے خیالوں کی نفی کررہا تھا۔ اس کے لہجے کا نروس پن بتارہا تھا کہ وہ اس وقت صرف محبت کے دو میٹھے بول سننا چاہ رہی ہے۔ اس سے ہٹ کر نہ تو کوئی شرائط نامہ اور نہ ہی وہ جو سفیر اسے سنانا چاہ رہا تھا، مگر سنا نہیں پارہا تھا۔

ہونہہ۔ وہ….“ سفیر نے کپ کے ہینڈل کو اپنے انگوٹھے سے مسلتے ہوئے پہلو بدلا۔ شہمین اس کے چہرے میں اتنی کھوئی ہوئی تھی کہ وہ اس کے انداز پر غور ہی نہیں کر سکی۔

مجھے تمہیں کچھ بتانا ہے۔وہ بالآخر بول پڑا۔ انگوٹھا ابھی بھی حرکت میں تھا۔

ہاں …. کہو۔شہمین نے دھڑکتے دل اسے اجازت دی تھی۔

ضوٹی شادی کررہی ہے۔وہ اب پھر تمہید باندھ رہا تھا۔ انگوٹھا ہنوز حرکت میں تھا۔

کیا…. اس نے مجھے تو کچھ نہیں بتایا۔اس وقت ضوٹی کے ذکر نے شہمین کا منہ بدمزہ کیا تھا۔

پوچھوگی نہیں کس سے؟سفیر نے اس کی حیرت کو نظرانداز کرکے مزید کہا تھا۔

کس سے؟شہمین سفیر کے لہجے کی سنجیدگی کو نظر انداز کرکے بولی اور سفیر نے انگوٹھے کی حرکت روک کر گردن ترچھی کرکے اُسے دیکھا۔ وہ اس کے جواب کی منتظر تھی اور بالآخر سفیر نے اسے جواب دے دیا۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

گل موہر اور یوکلپٹس

Read Next

اوپرا ونفرے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!