”میں اسے کال کردوں۔ وہ آجائے گا ہمیں لینے۔“ شہمین نے ائیرپورٹ سے باہر نکل کر مسعود خان سے کہا۔ وہ لوگ ابھی چند لمحے پہلے ہی New jersey پہنچے تھے۔
”نہیں رہنے دو ہم اسے سرپرائز دیں گے جس طرح اس نے ہمیں سرپرائز دیا تھا۔“ مسعود خان مسکرا کر بولے تھے۔
”لیکن بابا ہمیں اس کے گھر کا ایڈریس پتا نہیں ہے۔“ شہمین کو فکر ہوئی۔
مسعود خان نے حیرت سے اُسے دیکھا۔
”بیٹا جس گھر بیٹی دینا چاہ رہا ہوں اس کا پتا او ر اس گھر میں بسنے والے لوگوں کی معلومات نہیں رکھو ں گا کیا؟ اتنا بے پروا سمجھتی ہیں اپنے بابا کو؟“
”سوری بابا۔“ شہمین شرمندہ ہوئی۔
وہ اب ٹیکسی روک رہے تھے۔ پھر انہوں نے ڈرائیور کو ایڈریس سمجھایا اور ٹیکسی میں سوار ہوگئے۔ کچھ دیر بعد ٹیکسی ایک اپارٹمنٹ کے باہر رکی اور وہ دونوں گاڑی سے باہر نکل آئے۔ گہرے سیاہ رنگ دروازے کے ساتھ لگی تختی پر لکھا تھا۔
“Mubashir Ahmed’s Apartment.”
مسعود خان نے ڈور بیل بجائی ۔ شہمین ایک قدم پیچھے کھڑی تھی اور اس کا دل بے حد زوروں سے دھڑک رہا تھا۔ یک دم ہی کلک کی آواز کے ساتھ دروازہ کھلا اور ایک نیلی آنکھوں اور بکھرے بالوں والی چھوٹی بچی نے بے حد خفگی میں کہا۔
”یہ ہمارے سونے کا ٹائم ہے…. آپ اس….“وہ کہتے کہتے یک دم ہی اٹکی۔ پہلے اس نے شہمین کو بہ غور دیکھا پھر زورسے چلائی تھی۔ ”ممی تصویر والی ڈاکٹر آئی ہے۔“
اس کی بات سن کر ان دونوں باپ بیٹی نے ابرو اچکا کر ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔
یہ کافی ماہ پہلے کی بات تھی جب ایک رات سفیر سے باتیں کرتے ہوئے امل کی نگاہ سائیڈ ٹیبل پر رکھی تصویر پر پڑی اور ا س نے سفیر سے پوچھا تھا۔
”بھائی یہ کون ہے؟“
”یہ …. یہ میری ڈاکٹر ہے۔“ سفیر مسکرا کر بولا تھا۔
”ڈاکٹر؟ تم نے ڈاکٹر کی تصویر اپنے کمر ے میں کیوں رکھی ہے۔“ وہ الجھ کر بولی تھی۔
”یہ محض تصویر نہیں ہے۔ یہ دوا ہے میری۔“ سفیر نے اسے سمجھایا تھا۔
”یہ کیسی دوا ہوئی۔“ وہ مزید الجھی تھی۔
”بھائی کو جو مرض ہوا ہے۔ اس کی دوا یہ ہی ہوتی ہے۔“
”اچھا…. لیکن بہت عجیب دوا ہے یہ۔ میں نے پہلے کبھی ایسی دوا نہیں دیکھی۔“
اس نے حیرت سے آنکھیں پھیلا کر کہا تھا، مگر وہ مطمئن ابھی بھی نہیں ہوئی تھی۔
اسی لیے وہ اس وقت شہمین کو دیکھتے ہی پہچان گئی تھی۔
”امل بیٹا کون ہے؟“ امل کے پیچھے ذونی احمد چلی آئیں تھیں۔ دونوں نے ایک ساتھ ہی ذونی احمد کو دیکھا پھر امل بولی۔
”ممی تصویر والی ڈاکٹر۔“ اب ذونی احمد بھی بہ غور آنکھیں سکیڑے کر شہمین کو دیکھ رہی تھیں۔وہ بے حد نروس ہونے لگی تھی۔
”تم …. شہمین ہو …. میرے بیٹے، سفیر۔“ خوشی کے مارے ان کے جملے بے ربط ہورہے تھے۔ شہمین نے ان کی مشکل آسان کرتے ہوئے فوراً اثبات میں سرہلادیا۔
”ارے بیٹا اندر آﺅ۔ بھائی صاحب آپ بھی آئیں۔“ ذونی احمد اسے خود سے لگاتی کوریڈور میں لے آئیں تھیں ۔ پھر انہوں نے وہی کھڑے کھڑے مبشر احمد کو آواز دی جو آج چھٹی ہونے کے باعث گھر پر ہی تھے۔ مسعود خان ان سب میں مکمل خاموش تھے اور امل خاموش ہونے کے ساتھ ساتھ بہ غور شہمین کا جائزہ لینے میںمصروف تھی۔
”کیا ہوا ذونی؟“ وہ کمرے سے باہرنکلتے ہوئے بولے۔
”شہمین بیٹی آئی ہے۔“ خوشی کے مارے اب ان کی آواز بھرانے لگی تھی۔ مبشر احمد نے چونک کرصوفے کی جانب دیکھا۔ پھر وہ آگے بڑھ کر مسعود خان سے گلے ملتے ہوئے بولے۔
”آپ اطلاع کر دیتے میں خود لینے آجاتا۔“
سفیر کے جانے سے بھی پہلے مسعود خان نے مبشر احمد سے رابطہ کرلیا تھا اور گوکہ وہ پہلے ہی سفیر کے منہ سے شہمین کا مکمل تعارف سن چکے تھے۔ اس لیے مسعود خان کے محض شہمین کا نام لیتے ہی وہ انہیں پہچان گئے اور اس کے بعد چند ایک روز میں ہی ان کی اچھی سلام دعا ہوگئی اور پھر باتوں کا یہ سلسلہ تب سے آج تک جاری تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی فیملیز سے مکمل متعارف تھے۔ آخر بیٹی کا معاملہ جو تھا۔ مگر انہوں نے سفیر اور شہمین سے ان کی ملاقات کو راز ہی رکھا تھا۔ وہ انہیں ان کے فیصلوںمیں خود مختار رکھنا چاہتے تھے۔
مبشر احمد نے اب مسعود خان سے الگ ہوتے ہوئے ذونی احمد کے ساتھ بیٹھی شہمین کے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔
”تم بھائی کا چیک اپ کرنے آئی ہو؟“ اتنی دیر سے خاموش بیٹھی امل سے اب مزید خاموش نہیں رہا گیا۔ وہ آنکھیں سکیڑ تے ہوئے بڑی سنجیدگی سے بولی تھی۔
”چیک اپ۔“ اس نے الجھ کر زیر لب کہا جب کہ باقی تینوں فریق مکمل خاموشی سے اُنہیں سن رہے تھے۔
”ہاں ! بھائی نے مجھے بتایا تھا کہ ایک سال بعد تم اس کا دوبارہ چیک اپ کرکے بتاﺅگی کہ وہ ٹھیک ہوا یا نہیں۔“شہمین اس کی بات سن کر سٹپٹاگئی تھی۔
”اُف توبہ ہے۔ یہ بالکل اپنے بھائی جیسی ہے منہ پھٹ۔“ اس نے بہ ظاہر مسکراتے ہوئے من ہی من میں سوچا تھا۔
”جی بیٹا یہ اس لیے ہی آئی ہے۔ آپ دعا کرو بھائی اب ٹھیک ہوگیا ہو۔“
شہمین کو جزبز کا شکار دیکھ کر ذونی احمد ہی بول پڑی تھیں۔ اس نے شکر مندی سے ان کی جانب دیکھاجب کہ مسعود خان اردگرد کا جائزہ لیتے ہوئے بولے۔
”وہ لمبی زلفوں والا لڑکا کدھرہے؟“ سفیر کے ذکر پر شہمین کے دل کی دھڑکن یک دم ہی بے ترتیب ہوئی۔ اس نے اپنی انگلیاں مڑورتے ہوئے سر مزید جھکا لیا۔
”وہ ابھی باہر ہے شام تک ہی لوٹے گا۔“ مبشر احمد بولے اور اس کا دھڑکتا دل ایک دم ہی معمول پر آگیا
”کیا ضرورت تھی اس وقت باہر جانے کی۔“ اس نے دل مسوستے ہوئے سوچا۔ پھر ذونی احمد کے پکارنے پر وہ سرجھٹک کر ان کی جانب متوجہ ہوئی۔ امل ابھی بھی اس کا تنقیدی جائزہ لے رہی تھی۔
٭….٭….٭