آتش دان میں دہکتی آگ سے کمرے میں حرارت پھیلی ہوئی تھی جب کہ وہ کمرے کی کھڑکی کھولے اس کے سامنے کھڑا دور سرمئی ہوتے اُفق پر نظریں جمائے ہوئے تھا جس نے اس بھری دوپہر کو بھی رات کی سی سیاہی میں ڈھا لا ہوا تھا۔
سفیر نے باہر سڑک کنارے قطاروں کی صورت کھڑے اونچے درختوں کو دیکھتے ہوئے بشاشت سے مسکرا کر ایک گہرا سانس لیا یوں جیسے وہ سبزے کی ٹھنڈک اپنے اندر اتارنا چاہ رہا ہو اور پھر یک دم دیکھتے ہی دیکھتے آسمان سے تیز مینہ برسنے لگا۔ جس کے چند قطرے ہوا کے دوش پر کمرے کے اندر آتے اس کے چہرے پر پڑے۔
سفیر کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی اور اس نے آنکھیں بند کرکے اپنا چہرہ اس کھلی کھڑکی سے کچھ اور باہر کیا، تو مزید چند قطرے اس کی بڑھی ہوئی شیو اور قمیص کے کالر کو بھی بھگونے لگے تھے۔
وہ یونہی مسرور سا کھڑا رہا پھر اس نے اپنے بھیگے چہرے کو آستین سے صاف کیا۔
اب کھڑکی کے سامنے سے ہٹ کر اپنی جیب سے موبائل نکال کر اس نے کنٹیکٹ لسٹ کھولی اور My Addiction کے نام سے محفوظ نمبر پر کال ملائی جوکہ ریسیو نہیں ہوئی تو اس نے ایک گہری آہ بھر کے میسج کے آپشن پر کلک کیا۔
©©”Just one month remains honey.” اس نے میسج لکھ کر سینڈ کیا اور اپنی رائٹنگ ٹیبل سے لیپ ٹاپ اٹھاتا آتش دان کے سامنے آکر بیٹھ گیا۔
سفیر نے لیپ ٹاپ آن کرکے اس میں موجود اپنی پلے لسٹ کھولی اور پھر آہستہ آہستہ میسج کو نیچے اسکرول کرنے لگا۔ پھر اس نے اپنے کھلے بالوں کو کان کے پیچھے اڑستے اپنا مطلوبہ گانا سلیکٹ کیا اور اگلے ہی لمحے اس کے کمرے میں Enrique Iglesias کی آواز گونجنے لگی تھی۔
May be I’m addicted,
I’m out of control,
but you’re the drug that keeps me from dying.
May be l’m a liar,
But allo I really know
is you’re the only reason l’m trying.
وہ بے حد مسرور انداز میں لیپ ٹاپ گود میں رکھے بیٹھا enrique کی آواز کے ساتھ ساتھ خود بھی گنگنا رہا تھا جب ہی دروازے پر دستک ہوئی۔ سفیر نے سر اٹھا کر دروازے کی سمت دیکھا جہاں امل کھڑی اسے کسی ضوٹی نامی لڑکی کے آنے کی اطلاع دے رہی تھی۔
”ضوٹی۔“ سفیر نے بے یقینی سے اس کا نام دہرایا پھر گود میں رکھا لیپ ٹاپ میٹ پر رکھے اٹھ کھڑا ہوا۔
”تم آج یہاں سب خیریت؟“ سفیر نے ڈرائنگ روم میں گھستے ہی سوال کیا۔
”نہیں…. خیریت نہیں ہے۔“ صوفے کے ایک کونے پر ٹکی ضوٹی نے اپنی انگلیوں کو مڑورتے بے حد گھبرائے ہوئے اندا زمیں اٹک اٹک کر کہا۔
”کیا ہوا ہے ضوٹی؟“ سفیر اس کی اڑتی رنگت دیکھ کر فکری مندی سے بولا۔
”وہ…. میں…. اسلام …. قبول …. کرنا چاہتی ہوں۔“ ضوٹی نے ایک ناقابل ِ فہم بات کی تھی سفیر چند لمحے کچھ بول تک نہیں سکا تھا۔
”یوں …. اچانک۔“ کچھ دیر بعد وہ اپنی حیرت پر قابو پاکر بولا۔
”نہیں اچانک نہیں…. پورے دو سال لگے ہیں مجھے یہ فیصلہ کرنے میں۔“ ضوٹی اپنی گردن کو نفی میں حرکت دیتے ہوئے بولی۔
”دو سال۔“ سفیر زیر لب بڑبڑایا پھر اس نے سرجھٹکتے ہوئے کہا۔
”لیکن تم یہ کیوں کرنا چاہتی ہو؟“
”کیوں کہ میں جان گئی ہوں کہ دنیا میں اگر ہر طبقے اور نسل کے انسان کے لیے کوئی بہترین مقام اور عزت ہے، تو وہ صرف مذہب اسلام میں ہے۔“
”بس اس لیے؟“ سفیر نے ابرو اچکا کر پوچھا۔
”اور میں یہ بھی جان گئی ہوں کہ اسلام وہ واحد مذہب ہے جو حق ہے ….سچا ہے۔“
”اچھا یہ تم کیسے کہہ سکتی ہو؟“
”کیوں کہ میں نے اسلام کو پڑھا ہے، اسے پرکھا ہے، سمجھا ہے۔“
”کیا تم نے اسلام کے علاوہ کوئی اور مذہب پڑھنے کی کوشش کی؟“
”ہاں کی ہے، لیکن اُنہیں پڑھنے کے بعد وہ مجھے اچھے تو لگے، مگر سچے، نہیں لگتے۔“
”کیوں؟“
”مذہب میں بنیادی تصورکیا ہوتا ہے؟ خدا کا…. وہ ذات جس کے لیے انسان یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اس کا تخلیق کار ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کائنات کا بھی….اس لیے میں نے پہلے ان تمام مذاہب کے احکامات پڑھے۔ ان میں کوئی زیادہ فرق نہیں تھا۔ سب ہی اچھائی کا حکم دے رہے تھے اور برائی سے روک رہے تھے۔ پھر میں نے ان کے خدا کے تصور کو پڑھا اور وہ بہت مختلف تھا۔ کوئی بتوں کو پوجتا ہے۔ کوئی آگ کو، کوئی سورج کو سجدہ کرتا ہے، تو کوئی کہتا ہے کہ انسان اپنا خدا خود ہے۔ اور ان سب کے درمیان میں نے اللہ کے تصور کو پڑھا خو د اس ہی کی زبانی قرآن میں جو واضح طور پر یہ بتا رہا ہے کہ خدا یکتا ہے۔
”پاک ہے وہ تو اکیلا ہے اور سب پر دباﺅ رکھنے والا ہے۔“ (الزمر۴)
یہ دلیل اتنی مضبوط ہے کہ میں آگے کچھ سوچ نہیں سکی اور صرف یہ ہی نہیں قرآن میں ایسی بے شمار دلیلیں ہیں جو خدا کے یکتاہونے کی اور ان تمام شے کے خدا نہ ہونے کی ہامی بھررہی ہیں۔
”لیکن پھر بھی ضوٹی یہ ایک بڑا فیصلہ ہے ایسے یوں اچانک۔“ وہ بول رہا تھا ضوٹی نے اس کی بات کاٹ دی۔
”میں نے کہا نہ یہ اچانک نہیں ہے بلکہ پورے دو سال کا وقت لگا ہے مجھے یہ فیصلہ کرنے میں۔ دو سال پہلے اس شام ۔“ وہ کسی غیر مرئی نقطے کو دیکھتے ہوئے ٹرانس کی سی کیفیت میں کہہ رہی تھی۔
”میں نے اتفاقی طور پر ایک مسلمان کو قرآن کی تلاوت کرتے سنا اور میری کیفیت بڑی عجیب ہوگئی تھی۔ میں نے اُسے روکا۔ اس سے پوچھا یہ کیا ہے۔ اس نے کہا قرآن۔ میں نے پوچھا ”وہ کیا ہوتا ہے؟“ اس نے کہا ۔ ”ہماری مذہبی کتاب ہے۔“ میںنے پوچھا تمہارا مذہب کیا ہے؟ اس نے کہا اسلام۔ اس کے بعد سے وہ الفاظ میرے دماغ میں بیٹھ گئے تھے۔ میں چند روز تو اسے اپنے ذہن سے جھٹکتی رہی، لیکن جب کوئی فائدہ ہوتا محسوس نہ ہوا، تو بالآخر میں نے اس مذہب کے متعلق پڑھنا شروع کردیا اور ہر بار پڑھتے ہوئے میرے دل کی کیفیت بہت عجیب ہوجاتی۔ ایسا لگتا جیسے میرے ہاتھ سے کوئی چیز مستقل پھسل رہی ہے اور میں اسے پکڑ نہیں پارہی، لیکن اپنی اس کیفیت میں بھی میںنے اسے پڑھنا نہیں چھوڑا۔ اس میں اس قدر کھینچاﺅ تھا کہ میں اسے چھوڑ ہی نہیں پارہی تھی۔ پھر آہستہ آہستہ میں اپنے مذہب سے دور ہوتی گئی۔ میں پہلے باقاعدگی سے چرچ جاتی تھی، مگر اب چرچ جانے پر مجھے یہ سب مصنوعی سا لگتا ہے بالکل کسی انسان کا سا تخلیق کردہ۔ بالآخرمیں نے چرچ جانا چھوڑ دیا اور مکمل طور پر اسلام میںدل چسپی لینے لگی۔ ساتھ ہی میں اپنے اردگرد موجود مسلمانوں پربھی غور کررہی تھی اور مجھے یہ دیکھ کر بڑا عجیب لگتا کہ اسلام اور اس کی پیروی کرنے والا مسلمان تو بڑا ہی مختلف ہے بلکہ مجھے تو ایک مسلمان بھی دوسرے مسلمان سے مختلف ہی لگ رہا تھا۔میں عجیب مخمصے کا شکار ہونے لگی اور اسی بیچ میری شہمین سے ملاقات ہوئی۔ ایک ایسی مسلمان جو خود کو اعلیٰ اور دوسروں کو ادنیٰ ثابت کرنے میں نہیں جتی رہتی تھی، جو صرف مسلمان کا ہی نہیں بلکہ غیر مسلم کا بھی احترام کرتی تھی۔ جو اگر خود نائٹ کلب نہیں جاتی تھی، تو دوسرے جانے والوں پر بھی تنقید بھی نہیں کرتی تھی۔ میں پہلے ہی اسلام کے قریب تھی اس لیے شہمین سے میری قربت جلد ہی بڑھ گئی۔ مجھے اس کے ساتھ رہنا اچھا لگتا اور آہستہ آہستہ میں بھی اس کی طرح ایک اچھے مسلمان کی زندگی گزارنے کی خواہش مند ہونے لگی ، مگر ایک روز جب میں نے یونہی اسلام کا سرسری سا ذکر اپنی والدہ سے کیا، تو ان کا ردعمل دیکھ کر مجھے لمحہ بھر کو یقین ہی نہیں آیا کہ وہ میری ماں ہی ہیں اور اس وقت مجھے اندازہ ہوا کہ میں کتنی مشکل خواہش کر بیٹھی ہوں۔ اپنا مذہب تبدیل کرنا اتنا آسان کام نہیں ہوتا پھر چاہے آپ امریکا جیسے انسانی حقوق کے سب سے بڑے علمبردار ملک میں ہی کیوں نہ رہتے ہوں۔ پھر اس کے بعد سے میرا ذہن مستقل کسی ایسے راستے کی تلاش میں سرگرداں رہنے لگا جو مجھے اپنی منزل تک پہنچا دے اور اسی سب کے درمیان شہمین کی واپسی کا وقت آن پہنچا۔“ ضوٹی بولتے بولتے رکی، اس نے ایک گہرا لمبا سانس لیا۔
”شہمین سے میری بہت اچھی دوستی تھی ۔ وہ اب دوبارہ بولنے لگی، لیکن ایک عجیب بات یہ تھی کہ میں کبھی اس کے سامنے اپنی اس خواہش کا اظہار نہیں کرسکی شاید اس لیے کہ میں اس کے سامنے خودکو کمتر محسوس کرتی تھی، مگر تمہارے سامنے یہ خواہش کرتے ہوئے مجھے کوئی عار محسوس نہیں ہورہی کیوں کہ تم بھی تو ایک وقت میں میرے جیسے ہی تھے۔“ اس کا جملہ سفیر کو اپنے چہرے پر کسی طمانچے کی طرح پڑتا محسوس ہوا تھا۔ اس نے مٹھیوں کو سختی سے بھینچ کر پہلو بدلا۔
”وہ وقت جب میں شہمین کے جانے کے بعد تم سے دوسری بار ملی تھی۔ اس روز اگر تم مجھے نہ بتاتے کہ تم مسلمان ہو، تو مجھے اس بات کا کبھی یقین بھی نہ آتا۔ بہر حال تم سے کوئز ڈیز کی ان تمام ملاقاتوں کے بعد میں ایک بار پھر سے اس مخمصے کا شکار ہوگئی جس کا شکار میں شہمین کے ملنے سے پہلے تھی۔پچھلی بار مجھے لگا تھا کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے مختلف ہے، مگر اس بار مجھے ایسا لگا جیسے اسلام Partiality کا مذہب ہے جو عورت کو پابند اور مرد کو آزاد چھوڑ دیتاہے، لیکن پھر مجھے یہ خیال آیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو مرد تھے، مگر وہ تو ایسے نہیں تھے اور اس بار میں اپنی یہ تمام الجھنیں لے کر شہمین کے پاس پہنچ گئی تو اس نے مجھ سے کہا۔“
”جس طرح کلاس روم میں پڑھنے والا ہر بچہ Excellent نہیں ہوتا ایسے ہی اسلام کو ماننے والا ہر مسلمان (مرد یا عورت) بھی excellent نہیں ہوتا، ہاں لیکن یہ طے ہے کہ وہ سب صحیح سمت چل رہے ہیں۔ اگر احتیاط سے کام لیں گے، تو علم حاصل کرنے جیسی بہترین منزل تک بھی پہنچ جائیں گے۔“ اور اس کے کچھ وقت بعد ہی میں نے یونیورسٹی میں تمہیں عبادت کرتے دیکھا اور مجھے احساس ہوا کہ کلاس روم کا یہ بچہ اب ذہین ہوگیا اور ممکن ہے کہ جلد بہت اچھی کارکردگی دکھائے۔“
اس روز کے بعد سے میں لاشعوری طور پر تمہیں Observeکرنے لگی، میرے اندر یہ امید سی بندھنے لگی تھی کہ شاید اب میر ی مسلمان ہونے کی خواہش پوری ہوجائے۔
”تمہارے ذریعے۔“ بہت دیر سے خاموش بیٹھا سفیر یک دم ہی اس کے لفظوں پر ٹھٹکا۔
”میرے ذریعے کیا مطلب؟“ اس نے بے ساختہ کہا تھا۔
”سفیر میں اتنی بہادر نہیں ہوں کہ تنہا اس معاشرے کی مخالفت کا سامنا کرسکوں۔ اس کے لیے مجھے مضبوط سہارے کی ضرورت ہے۔“ سفیر کو کسی انہونی کا احساس ہورہا تھا اس کی سانسیں بے ترتیب ہونے لگی تھیں۔
”سفیر میرا سہارا بن جاﺅ….مجھ سے نکاح کرلو۔“ یک دم ہی موسلادھار پڑتی بارش کے درمیان تیز بجلی کڑکنے کی آواز آئی تھی جو شاید کہیں گرنی بھی تھی اور اگر کوئی سفیر سے پوچھتا کہ وہ کہاں گری ہے، تو وہ کہتا بالکل میرے سر پر۔
چند لمحوں بعد وہ اپنے حواسوں میں واپس آتے ہوئے بولا۔
”ضوٹی تم ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہو۔ تم جانتی ہو میں شہمین سے کس قدر محبت کرتا ہوں۔میں اس کے بغیر زندگی گزارنے کا سو چ بھی نہیں سکتا۔“
سفیر نے آج پہلی بار اپنے احساسات کے لیے محبت کا لفظ استعمال کیا تھا اور آج ہی اس سے اس محبت کی قربانی مانگ لی گئی تھی۔
”ہاں لیکن اسلام میں تو چار نکاح کی اجازت ہے اور میں تم سے یہ کب کہہ رہی ہوں کہ تم اسے چھوڑ دو۔ میں تو صرف اتنا کہہ رہی ہوں کہ مجھے بھی سہارا دے دو۔“ ضوٹی نے بھرائے ہوئے لہجے میں سفیر کو سمجھانے کی کوشش کی۔
”نہیں ضوٹی یہ ممکن نہیں ہے۔“
”پلیز سفیر ۔ میں تم سے اللہ کے واسطے مانگتی ہوں…. کیا تم اپنی محبت کے لیے اس واسطے کا بھی مان نہیں رکھوگے؟“ ضوٹی نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑے وہ لفظ کہے تھے کہ سفیر اپنی جگہ سے ہل تک نہیں سکا اور پھر ایک جھماکے سے اس کے ذہن میں ایک آواز ابھری تھی۔
”لیکن اگر تمہیں پھر بھی لگتا ہے کہ تم نے غلط کیا، تو آئند ہ ایسی صورتِ حال میں تم آگے بڑھ جانا۔ شاید اس عمل کے لیے تمہیں ہی چنا گیا ہو۔“ اور پھر ایک کے بعد ایک بہت سی آوازیں اس کے ذہن میں ابھرنے لگی تھیں۔
”اللہ کے واسطے۔“
”اس واسطے کا بھی مان نہیں رکھوگے؟“
”تم آگے بڑ ھ جانا۔“
"Plz save me, I need sheltter.”
اور جو آخری آوا ز اس کے ذہن میں ابھری وہ اس کی اپنی ہی تھی۔
”مجھے ہمیشہ اپنے ذہن اور دل میں رکھنا۔“ سفیر بے تاثر چہرے کے ساتھ یک دم ہی صوفے سے اٹھ کھڑ اہو ا اور اس کو اٹھتا دیکھ کر ضوٹی بھی گھبرا کر کھڑی ہوگئی۔
”میں اللہ کے واسطے کا مان رکھوں گا۔ میں تمہاری مدد کروں گا۔“ وہ سپاٹ لہجے میں کہہ کر کمرے سے نکلا اور بوجھل قدموں سے چلتا اپنے کمرے میں آگیا جہاں ابھی بھی enrique کی آواز گونج رہی تھی۔
"Every thing is clear to me
til I hit reality
and I lose it all.
I lose it all.
I lose it all.
I lose it all.
٭….٭….٭