”حضرت میزان قائم کرنے سے کیا مطلب ہے آپ کا؟“
یہ عشا کے بعد کا وقت تھا۔ اسفندیار عشا کی امامت کے بعد اب مسجد کے ہی ایک گوشے میں چند لوگوں کے ہمراہ بیٹھے تھے۔ ان میں سفیر بھی تھا جو خاموشی سے ان کے دائیں پہلو میں بیٹھا سن رہا تھا۔جب وہاں موجود ایک آدمی نے سوال کیا تھا۔
”حقوق اللہ اور حقوق العباد کی بہترین ادائیگی کس طرح کی جائے؟“
”میزان قائم کرکے۔“ اسفند یار مسکرا کر دھیمے سے بولے تھے۔
”میزان …. حضرت میزان قائم کرنے سے کیا مطلب ہے آپ کا؟“
” میزان کا مطلب ہے ترازو…. وہ شے جس سے وزن پرکھا جاسکے۔ بس میں تم سے وہی ترازو اپنی زندگی کے ان دو بڑے حصوں کے درمیان قائم کرنے کو کہہ رہا ہوں تاکہ تم اس ترازوکے دونوں پلڑوں میں رکھے اپنے اعمال کی کا وزن کرسکو اوریہ دیکھ سکو کہ ان کے درمیان توازن پیدا ہورہا ہے یا نہیں۔“
”لیکن حضرت توازن کا مطلب تو برابری ہے۔ ہم اللہ اور اس کے بندے کے درمیان برابری کیسے لاسکتے ہیں۔“ ان ہی میں بیٹھا ایک شخص پریشانی سے بولا تھا۔
”نہیں میاں…. میں اللہ اور اس کے بندے کے درمیان برابری لانے کو نہیں کہہ رہا بلکہ اُن دونوں کے حقوق کے درمیان واضح برابری لانے کو کہہ رہا ہوں اور واضح برابری وہ ہوتی ہے جو بالکل برابر نہ ہو بلکہ ان کے درمیان اتنافرق ضرور ہو جو آنکھ سے دیکھنے میں نمایاں رہے۔“
”اور حضرت کس پلڑے کو اونچائی پررکھا جائے۔“
”بے شک اللہ کی ذات ہر شے سے بلند و بالا ہے، مگر حقوق کی ادائیگی میں حقوق العباد کو حقوق اللہ پر ترجیح دینی چاہیے۔ جیسا کہ اللہ نے بھی اپنے بندے کو بتایا ہے کہ میں حقوق اللہ کی تو معافی دے دوں گا، مگر حقوق العباد کی نہیں اور دھیان میں رہے کہ حقوق العباد میں محض دو بندو ں کے درمیان کے حقوق کی بات نہیں ہورہی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انسان کے اپنی ذات پر جو حقوق ہیں ان کی بھی بات ہورہی ہے۔ میں نے اکثر وبیشتر یہ دیکھا ہے کہ انسان باقی رشتوں کے حقوق پورے کرنے میں اتنا جُت جاتا ہے کہ اپنی ذات کے حقوق پورے ہی نہیں کرپاتا اور میری نظر میں یہ بھی ایک زیادتی ہے۔“
”حضرت میں آپ کی بات پوری طرح سمجھ نہیں سکا تھوڑی وضاحت کردیں گے۔“ان ہی میں سے ایک شخص تھوڑا گھبرا کر بولاتھا۔
”دیکھو میں تمہیں نماز کی مثال دے کر سمجھاتا ہوں نماز کیا ہے؟ دین کا بنیادی ستون، مسلمان اور کافر کے درمیان فرق پید ا کرنے والی سب سے اہم شے، مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقام پر فرمایا کہ میں عشا کے مصلّے پر کھڑا ہوتا اور میری ماں مجھے آواز دیتی ، بیٹے محمد۔ تو میں نیت توڑ کر کہتا ، جی امی جان۔ (واضح رہے یہ حدیث کا مفہوم ہے حدیث نہیں) اب کیا نماز سے بڑھ کر اہم فریضہ کوئی ہے۔ یا حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی متقی شخص ہے؟ نہیں نہ، یہ ہوتا ہے حقوق اللہ پر حقوق العباد کو ترجیح دینا۔“ اسفندیار مزید کہہ رہے تھے جب کوئی شخص بیچ میں بول پڑا۔
”تو کیا ہمیں بھی ماں کی پکار کا جواب دینے کے لیے نیت تو ڑ دینی چاہیے۔“
”نہیں۔ یہ جو مثال میں نے ابھی آپ کے سامنے پیش کی یہ فرماں برداری میں انتہا کی مثال تھی اور چوں کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ وجہ تخلیق دوجہاں وہ انتہا کو چھو سکتے تھے، مگر ہم تو بڑے ہی نافرمان اور ناقص بندے ہیں۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم فرماں برداری میں یا ہر دوسرے عمل میں شروعات بنیادی شے سے کریں اور پھر آہستہ آہستہ اس میں اضافہ کریں۔ جب کہ اکثر و بیشتر ہم شروعات ہی انتہا سے کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں، دین میںسختی بہت ہے۔“ وہ سانس لینے کو رکے پھر دوبارہ بولے۔
”آپ لوگ میری بات سے ہرگز یہ مطلب اخذ مت کرلیجیے گا کہ دوست سے ملاقات کے لیے جانا تھا اس لیے ہم نے نماز چھوڑ دی یا حج کا فریضہ ادا کرنا تھا اس لیے گھر پرموجود بیمار بہن بیٹی کو نظرانداز کردیا۔ میں پہلے بھی بار ہا یہ کہہ چکا ہوں اب پھر کہہ رہاہوں ۔ فرض وہ شے ہے جس کو چھوڑنے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ اس لیے اگر کسی سے ملاقات یا کوئی کام کرنا ضروری ہے، تو آپ نماز میں کمی(مطلب صرف فرض ادا کرسکتے ہیں) کرسکتے ہیں مگرترک تب بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ ایسے ہی دوسرے ہر عمل کے ساتھ ہے۔“
”حضرت ایک سوال کروں اگر اجازت ہو تو۔“ اس شخص نے کچھ جھجکتے ہوئے پوچھا تھا۔ اب تک سب سوال ہی کررہے ہیں آپ بھی کرلیں۔ اسفندیار مسکرا کر بولے، تو باقی تمام لوگ بھی ان کی بات سے محظوظ ہوکر مسکرانے لگے تھے۔
”کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ اللہ نے حقوق اللہ پرحقوق العباد کو ترجیح کیوں دی؟“
”بے شک کے اللہ عقل کل ہے، میں میرا علم ناقص، اس لیے اپنی کم فہمی سے میں نے جتنا سمجھا وہ بتادیتا ہوں۔ دیکھیں اللہ وہ ہے جو بندے کے باطن سے واقف ہے جب کہ حقوق اللہ میں بنیادی حقوق کون سے ہیں، نماز، روزہ، زکوٰة، حج ، یہ تمام کے تمام ظاہری اعمال ہیں، مگر جو باطن کا علم رکھتا ہو اسے ظاہری دکھاوے یا اداکاری سے کوئی فرق پڑے گا؟ میراخیال ہے نہیں۔ اس لیے یہاں گنجائش چھوڑی گئی لیکن اسی کے برعکس ایک انسان دوسرے انسان کے محض ظاہر سے واقف ہوتا ہے۔ وہ اس کے باطن میں کیا پوشیدہ ہے اس کی گارنٹی نہیں دے سکتا۔ اس لیے اس پر ظاہری دکھاوا بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ جیسے اس کی عزت کرنا، اس کی کفالت کرنا، اس کے دکھ درد میں اس سے ہم دردی کرنا۔ اس لیے یہاں گنجائش نہیں رکھی گئی۔ کیوں کہ یہاں رشتوں کا بننا اور ٹوٹنا ہی ظاہر کی بنیاد پر ہوتا ہے اور پھر ایک حلال رشتے کے ٹوٹنے سے کتنوں کا کتنا نقصان ہوتا ہے یہ آپ اور میں بہت بہتر جانتے ہیں۔
اسفندیار اپنی بات مکمل کرکے چند لمحوں کو خاموش ہوئے۔ پھر مسکراتے ہوئے یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے کہ
”میرا خیال ہے اب ہم سب کو اپنے اپنے گھر جانا چاہیے اور اپنے انتظار میں بیٹھے لوگوں کے حقوق ادا کرنے چاہئیں اور ان سے اپنے بھی کروانے چاہئیں۔
٭….٭….٭