“Miss you honey.” اس نے کلاس روم سے باہر نکلتے اپنے دائیں کندھے پر ڈلے بیگ کو درست کرکے جینز کی جیب سے موبائل نکال کر شہمین کے نمبر پر میسج سینڈ کیا تھا۔ وہ موبائل واپس جیب میں رکھنے ہی لگا تھا جب اس کے موبائل پر میسج بیپ ہوئی تھی۔ اس نے انباکس کھول کر میسج چیک کیا، تو “My Addiction” کے نام سے محفوظ پہلا نمبر سرخ ہورہا تھا۔ سفیر کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی۔
“Unbeliveable.” وہ اب زیر لب بڑبڑاتا، کی پیڈ پر بٹن دباتا میسج کھول رہا تھا۔ اتنے عرصے میں پہلی بار شہمین نے اسے اتنا فوری جواب دیا تھا۔ سفیر کو عجیب خوش گوار سی حیرت ہورہی تھی۔
”چار دن سے کہاں غائب تھے۔“ میسج کی رفتار کی طرح میسج بھی غیر متوقع ہی تھا۔ سفیر کے ہونٹوں کی مسکراہٹ لمحہ بھر کو سمٹی تھی۔ اسے گزرے چار دن کی اپنی ذہنی اذیت یاد آئی تھی۔ پھر اس نے سرجھٹک کر کی پیڈ پر بٹن دبانا شروع کیے تھے۔
”طبیعت ٹھیک نہیں تھی، لیکن اب ٹھیک ہوں۔“ وہ میسج سینڈ کرکے کلاس روم کے باہر کوری ڈور میں ایک بنچ پربیٹھ گیا۔ اس روز بائیس سال بعد مسجد کی چھت پر کھڑے اللہ سے راز و نیاز کرنے کے بعد سفیر کو اپنا آپ چند لمحوں کے لیے ہلکا پھلکا محسوس ہوا تھا، مگر اس کے بعد اسے اپنے کندھے بے حد وزنی لگنے لگے تھے۔ بائیس سال کی نافرمانی کے بوجھ سے۔
اُسے مستقل یہ سوچ ستا رہی تھی کہ وہ اب اللہ سے کس طرح معافی مانگے اور کیا وہ اسے معاف کردے گا؟ اور اگر اس نے نہیں کیا، تو؟ ان ہی سوچوں میں گھرا وہ دو دن مزید شہمین سے کوئی رابطہ نہیں کرسکا تھا، مگر اب فرق یہ تھا کہ وہ گزشتہ دو دن کی طرح اس کے خیال سے غافل نہیں تھا۔ وہ وقتاً فوقتاً اسے یاد آرہی تھی، لیکن ہر شے اس کے ذہن میں اتنی الجھی ہوئی تھی کہ وہ چاہ کہ بھی اس سے رابطہ نہیں کرپارہا تھا، لیکن آج اپنی تمام الجھنوں کے باوجود سفیر نے اس سے رابطہ کیا تھا۔ موبائل اس کے ہاتھ میں ہی تھا جب چند لمحوں بعد اس پر دوبارہ میسج بیپ ہوئی تھی۔
”کیا ہوا تھا۔“ میسج پڑھ کر سفیر کے ہونٹوں پر مسکراہٹ واپس پھیلی تھی۔
”آج کچھ زیادہ ہی خیال نہیں کررہی میرا۔“ اس نے پہلے سوچا پھر لکھ بھی دیا۔
”میں نہیں…. بابا پوچھ رہے تھے۔“ شہمین نے ہر بار کی طرح ساری ٹوپی مسعود خان کے سر رکھ دی تھی حالاں کہ وہ تو وہاں تھے بھی نہیں۔
”اوہ…. پھر تم انکل کو بتا دینا مجھے بخار تھا۔“ سفیر نے میسج پڑھ کر یونہی مسکراتے ہوئے ٹائپ کیا۔
”ٹھیک ہے میں انہیں بتادوں گی۔ چلو اب مجھے جانا ہے۔“ شہمین کا جواب پھر فوری آیا تھا۔
“Ok honey.” سفیر میسج سینڈ کرکے موبائل جیب میں رکھتا وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ ابھی چند قدم ہی چلا تھا جب اسے کچھ فاصلے پر ضوٹی کھڑی نظر آئی۔ سفیر لمحہ بھر کو رُکا اس نے کچھ سوچا، پھر وہ ضوٹی کے بالکل مقابل آکر ٹھہر گیا۔ اس کو دیکھ کر ضوٹی نے بظاہر چونکنے کی اداکاری کی حالاں کہ وہ چونکی نہیں تھی بلکہ وہ تو کافی وقت سے اسی پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔
”ہیلو ضوٹی۔“
”اوہ…. ہائے سفیر۔“
”کیسی ہو؟“
”بالکل ٹھیک…. تم؟“
”میںبھی۔“ پھر اپنے کندھے پر ڈلے بیگ کو درست کرتے ہوئے دوبارہ بولا۔
”کافی پیوگی۔“
”ضرور۔“ ضوٹی کی آنکھوں میں واضح چمک اُبھری تھی۔ سفیر لمحہ بھر کو ٹھٹکا، مگر پھر وہ سرجھٹک کر اس کے ساتھ یونیورسٹی کیفے ٹیریا میں آگیا۔
”دوکپ کافی اور دو براﺅن پائی، ٹھیک ہے؟“ سفیر نے کافی شاپ پر کھڑے لڑکے کو آڈر دیتے ہوئے ابرو اچکا کر ضوٹی سے پوچھا۔ ضوٹی نے اثبات میں گردن ہلائی، اگلے چندلمحوں بعد لڑکے نے ایک ٹرے میں دوبراﺅن پائی اور دو کپ کافی کے رکھ کر اِسے پکڑائے تھے۔ سفیر ٹرے ہاتھ میں تھامے ضوٹی کے ساتھ چلتا ایک قدرے پرسکون کونے میں آکر بیٹھ گیا۔ پھر اس نے ہاتھ میں پکڑی ٹرے میز پر رکھی اور کندھے سے بیگ اتار کر اپنے برابر دوسری کرسی پر رکھا۔ وہ اب اپنے بالوں کو جوڑے میں لپیٹتا ہوا اصل مدعے پر آگیا تھا۔
”کیا ہم آخری ملاقات میں ہوئے اس مکالمے کو آج پھر سے دہراسکتے ہیں؟“ یہ سن کر ضوٹی یک دم ہی چونکی۔
”اس کی کوئی خاص وجہ۔“ اس نے کانٹے کی مدد سے براﺅن پائی کا ایک ٹکڑا منہ میں رکھتے اور بہ غوراسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”کچھ گراﺅنڈ فیکٹر کو میںنے بہت غلط پیش کردیاہے۔ بس ان ہی کو درست کرنا چاہتا ہوں ۔“ سفیر نے کہہ کر کافی کا گھونٹ بھرا۔ ضوٹی کے چہرے پر مسکراہٹ اُبھری تھی۔
”مثلا۔“ وہ براﺅن پائی کا ایک اور ٹکڑا منہ میں رکھتے ہوئے بولی۔
”مثلاً یہ کہ مجھے بہت فرق پڑتا ہے اپنے مذہب کے متعلق کہی ہر بات سے۔“ سفیر نے بھی کافی کا کپ نیچے رکھ کر براﺅن پائی کا ایک ٹکڑا منہ میں رکھا تھا۔ ضوٹی نے یونہی مسکراتے ہوئے اثبات میں گردن ہلائی۔
”اور؟“ وہ کافی کا ایک گھونٹ لے کر بولی۔
”اور اسلام ہر گز Partiality کا مذہب نہیں ہے۔ یہ محض ایک غلط فہمی ہے جو میری وجہ سے تمہارے ذہن میں پیدا ہوگئی ہے۔“
اسے اس وقت ضوٹی کو دیکھ کر اسفندیار کی وہی بات یاد آئی تھی کہ تمہارے ظاہر کو دیکھ کر جتنے لوگ گمراہ ہوئے ہیں ضروری نہیں تمہارے ساتھ ساتھ ان کی بھی اصلاح ہوجائے اور اسی خیال نے اس وقت اسے ضوٹی سے بات کرنے پر اکسایا تھا۔
”اور۔“ ضوٹی براﺅن پائی کا آخری ٹکڑا منہ میں رکھتے ہوئے پرسکون انداز میں بولی تھی۔ سفیر لمحہ بھر کو حیران ہوا اسے اس سے اتنے سرد ردعمل کی اُمید نہیں تھی۔
”اور اب تم محمد کے متعلق جو بھی پوچھنا چاہو مجھ سے پوچھ سکتی ہو۔“
”نہیں اب ان سب کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔“ اس نے براﺅن پائی کی خالی پلیٹ پیچھے کرتے ہوئے کافی کا مگ اٹھا کر کہا اور براﺅن پائی کا ٹکڑا منہ میں رکھتا سفیر کا ہاتھ یک دم ہی ساکت ہوگیا۔
”کیا وہ اپنے ظاہر سے ایک انسان کو گمراہ کرچکا ہے؟“
”کیوں؟“ اس نے ہاتھ میں پکڑا براﺅن پائی سے بھرا کانٹا واپس پلیٹ میں رکھتے ہوئے دھیمے سے پوچھا۔
”کیوں کہ میں شہمین سے پہلے ہی یہ تمام باتیں ڈسکس کرچکی ہوں اور وہ مجھے ان کا بے حد تسلی بخش جواب بھی دے چکی ہے۔‘ ‘ ضوٹی نے کافی کا خالی مگ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا، تو سفیر کے اندر کا بوجھل پن یک دم ہی زائل ہوگیا۔ وہ پہلے مسکرایا پھر اس نے کہا۔
”اگر وضاحت شہمین نے کی ہے، تو میرے کچھ کہنے کی گنجائش ہی نہیں بچتی۔“
”بالکل…. لیکن میں یہ کہوں گی کہ تم اور شہمین اب ایک سے لگنے لگے ہو۔“ ضوٹی مسکراتے ہوئے بولی۔ پھر اس نے اپنا بیگ اٹھاتے ہوئے کہا ۔
”میری کلاس ہے اب میں چلتی ہوں۔“
”ضرور۔“ سفیرنے گردن کو ہلکا سا خم دے کر اسے جانے کی اجازت دی اور وہ خود ضوٹی کے آخری سے پہلے کہے جملے سے محظوظ ہوتا ہوا کافی کے مزید گھونٹ بھرنے لگا۔
٭….٭….٭