“Plz stop ignoring me, its a long time ago when we talk.”
اس شام کے بعد شہمین اسے اور زیادہ نظر انداز کرنے لگی۔ وہ کالز اور میسجز کرکر کے تھک جاتا، مگر وہ اس کو بہ مشکل ہی ایک دو میسجز کا جواب دیتی، البتہ امریکا واپس آنے کے بعد سے سفیر کی اس سے کال پر ایک بار بھی بات نہیں ہوئی تھی۔ اس روز بھی اس کے مسیج کے جواب میں جب سفیر نے اسے بتایا کہ وہ ان differences کو ڈھونڈ چکا ہے اور اب مٹانے کی کوشش کررہا ہے۔ تب بھی شہمین نے محض میسج پرہی Congratulation کہہ دیا تھا۔ سفیر چند دن تو اس کا نظر انداز کرنابرداشت کرتا رہا، مگر اب اس بات کو بھی دو ماہ گزر چکے تھے اور اب وہ اکتانے لگا تھا۔
ان دو ماہ میں جہاں موسم میںموجود خنکی ختم ہوئی تھی، شہمین کا رویہ تبدیل ہوا تھا وہیں سفیر کے باطن میں بھی واضح تبدیلیاں آنے لگی تھیں۔ وہ مسجد باقاعدگی سے جانے لگا اور اس نے شراب اور زنا سے مکمل منہ موڑ لیا تھا۔ البتہ جو کام اس نے ابھی تک نہیں کیا تھا وہ اسفندیار سے بات کرنے کا تھا کہ نہ جانے وہ اس سے کیا پوچھ لیں۔ بس یہ ہی سوچ کر وہ ہر بار بات ٹال جاتا تھا۔
اس وقت بھی وہ نماز مغرب کی ادائیگی کے لیے مسجد کے راستے پر آگے بڑھتا، جھلا کر شہمین کو میسج سینڈکررہا تھا۔میسج سینڈ کرکے اس نے موبائل جیب میں رکھا اور تیز تیز قدموں سے فاصلہ عبور کرنے لگا تھا۔ مسجد کے گیٹ پر پہنچ کر اس نے عادتاً سراٹھا کر اوپر دیکھا منار کے ساتھ لگے لاﺅڈ اسپیکر سے مغرب کی اذان گونج رہی تھی۔ سفیر نے آج پھر اپنی مٹھیاں کس کر بھینچی تھیں اسے آج پھر اپنے جسم پر موجود رواں رواں اذان کی سمت کھینچتا ہوا محسوس ہوا تھا۔
”میں تو صرف اداکاری کرنے آیا ہوں۔“ اس نے روز کی طرح آج بھی خود کو یاد دلایا تھا حالاں کہ جیسے اعمال وہ پچھلے دو ماہ سے کررہا تھا اسے کسی بھی طرح اداکاری نہیں کہا جاسکتا تھا۔
وہ مغرب کی نماز کے بعد اسفندیار کے پاس ماربل کے فرش پر بیٹھا قرآن پڑھ رہاتھا۔ جب وہ لڑکا اس کے عقب سے بولا تھا۔
”ابا میں ساری کتابیں لے آیا ہوں۔“ سفیر نے مڑ کر دیکھا ، وہ اجلی رنگت کا اکیس بائیس سالہ نوجوان تھا جس نے سرمئی رنگ کا کرتا شلوار پہنا ہوا تھا۔
”بیٹا آ پ رکھوا دو…. میں ابھی مصروف ہوں۔“ اسفند یار اس لڑکے کو دیکھ کر بولے جو جواباً ”ٹھیک“ کہہ کر پلٹ گیا تھا اور وہ اور سفیر ایک دوسرے کی جانب متوجہ ہوگئے۔
”بیٹا ہے آپ کا۔“ سفیر نے زندگی میں پہلی بار ان سے کسی کے متعلق استفسار کیا تھا۔ اسفندیار کو حیرت ہوئی۔
”ہاں…. اور دیکھو میں تمہارا تو اس سے تعارف کروانا ہی بھول گیا۔“ وہ یہ کہہ کر عمر کو آواز دینے لگے، تو سفیر بول پڑا۔
”وہ کام کررہا ہے اور ممی کہتی ہیں کسی کے کام کے درمیان اُسے ڈسٹرب نہیں کرتے ۔ آپ اسے کرنے دیں میں یہاں سے اٹھ کر اس سے مل لوں گا۔“
”چلو ٹھیک ہے۔“ اسفندیار نے کہا، تو سفیر قرآن پاک کی جانب متوجہ ہوگیا۔
٭….٭….٭