المیزان

”Not now, I am quite busy, and what’s the news. “

اُس رات وہ سفیر کی کال کا دیر تک انتظار کرتی رہی، مگر اس کے کال نہ کرنے پر اور نہ ہی کوئی میسج چھوڑنے پر وہ بے حد چڑچڑاتی اور بڑبڑاتی سوگئی اور اب وہ دانستہ اُسے نظر انداز کررہی تھی۔ جس کی کچھ وجہ تو پچھلی بار کی خفگی تھی اور اب بہت سی اس کے ذہن کی الجھنیں تھیں۔

شہمین نے میسج ٹائپ کرکے سینڈ کیا۔ پھر موبائل کمرے میں رکھ کر کچن میں آگئی۔ کیبنٹ سے ساس پین نکال کر اس میں چائے کے لیے پانی چڑھایا اور اب چولہے کے نزدیک سلیپ سے ٹیک لگائے خالی الذہن ساس پین میں کھولتے پانی کو تک رہی تھی۔

وہ مجھ سے کیا کہنا چاہ رہا ہوگا؟وہ سفیر کی ہی طرح اپنے گلے میں پڑی چین کو انگلی میں لپیٹتے ہوئے سوچ رہی تھی۔ جب چند لمحوں بعد ساس پین سے سی سی کی آواز نے اس کی سوچوں کا تسلسل توڑا۔ شہمین نے چونک کر تیزی سے چولہے کی لو دھیمی کی۔ پھر سلیب پر رکھا دودھ کا ڈبا اٹھا یا، وہ ابھی دودھ ساس پین میں ڈال ہی رہی تھی جب اچانک ہی اسے خیال آیا۔ شہمین نے ایک نگاہ دودھ کے ڈبے پر ڈالی اور دوسری اپنے سامنے رکھے ساس پین پر پھر اُس نے ڈبا نیچے رکھ کر دوسری سلیب سے کپ اٹھایااور ساس پین سے تھوڑا سا قہوہ اُس کپ میں منتقل کردیا۔ وہ اب ساس پین واپس چولہے پر رکھ کر اس میں دودھ ڈال رہی تھی۔ پھر اس نے وہ دودھ ملا قہوہ ایک دوسرے کپ میں نکالا اور دونوں کپ ٹرے میں رکھ کر کچن سے باہر آگئی۔ وہ باغ کی جانب بڑھنے لگی تھی جب مسعود خان کے کمرے کے آدھ کھلے دروازے سے وہ اُسے بیڈ پر بیٹھے نظر آئے۔ شہمین باغ میں جانے کے بہ جائے ان کے کمرے کی جانب آگئی۔ اس نے ایک ہاتھ میں ٹرے تھامے دوسرے ہاتھ سے دروازہ کھولا، تو دروازے سے پیدا ہوئی آواز پر مسعود خان نے چونک کر دیکھا۔ شہمین دروازے پر کھڑی تھی اور اس کی نگاہیں ان کے ہاتھ میں پکڑے فوٹو فریم پر تھیں۔

آجابیٹا۔مسعود خان نے مسکرا کر کہتے ہوئے فوراً ہی فوٹو فریم رکھ دیا۔ شہمین خاموشی سے چلتی ہوئی اندر آگئی۔ اس نے ان کے اور اپنے درمیان بیڈ پر رکھی اور خود بھی بیٹھ گئی۔ مسعود خان نے ٹرے میں موجود دونوں کپ بہ غور دیکھے۔

میں نے سنا ہے قہوہ زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے۔ بس اس لیے بنالیا۔وہ باپ پر ایک نگاہ ڈال کر انگلیاں مڑورتی خود ہی وضاحت دینے لگی۔ مسعود خان اس کی بات پر ہلکا سا مسکرائے پھر گردن ہلا کر بولے۔

صحیح…. ایسا کرنا کل سے ہمارے لیے بھی قہوہ ہی بنادینا۔

کیا آپ کو بھی وہ فائد ہ مند لگتا ہے؟شہمین نے ترچھی نگاہ سے انہیں دیکھا۔ اس کے لہجے میں بے قراری تھی۔

فائدہ پہنچائے گا یا نہیں۔ یہ تو ہمیں نہیں معلوم، لیکن اس فیصلے میں تلخی بہت ہے یہ آپ یاد رکھیے گا۔مسعود خان نے بھی بیٹی کو دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا اور شہمین کا پہلے سے بوجھل دل مزید بھاری ہوگیا۔

وہ دونوں جانتے تھے یہاں بات قہوے یا اس کے فائدے کی نہیں ہورہی بلکہ وہ باپ سے سفیر کو دیے گئے موقعے کے متعلق ان کی رائے لینا چاہ رہی تھی اور مسعو د خان اسے یہ سمجھا رہے تھے کہ اس کا فیصلہ تلخ ہے کیوں کہ وہ جس قدر سفیر کو پسند کرنے لگی ہے اگر ایسے میں وہ اسے نہ ملا، تو برداشت کرنا اس کے لیے بے حد مشکل ہوگا۔ یہ وہی بات تھی جو چند روز سے انہیں پریشان کررہی تھی اور وہ شہمین کوا س کے متعلق سمجھانا چاہ رہے تھے اور آج بالآخر انہوں نے اسے سمجھا دیا۔

چند لمحے وہ دونوں بالکل خاموش رہے۔ پھر مسعود خان نے اس کا بلیک ٹی کا کپ اٹھا کر اس کی جانب بڑھاتے ہوئے نرمی سے کہا۔

ٹھنڈی ہورہی ہے۔شہمین نے کپ تھام لیا۔ وہ دونوں ایک بار پھر خاموشی سے اپنا اپنا کپ تھامے بیٹھے تھے۔ جب سائیڈ ٹیبل پر رکھے مسعود خان کے موبائل پر رنگ ہوئی تھی۔ انہوں نے جھک کر دوسرے ہاتھ سے موبائل اٹھایا۔

حماد عبید کالنگ۔انہوں نے مسکراتے ہوئے کال ریسیو کرلی تھی۔ شہمین اب بھی خاموش ان کے برابر میں بیٹھی تھی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

گل موہر اور یوکلپٹس

Read Next

اوپرا ونفرے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!